میری داستان بھی سنئے میرا المیہ بھی پڑھئیے

الطاف جمیل شاہ ندوی
کر لیتے ہیں تخلیق کوئی وجہِ اذیت
بھاتانہیں خود ہم کو بھی آرام ہمارا
مولوی کا نام زبان پر آتے ہی ہمارا خیال فوری طور پر اس شخص کی طرف جاتا ہے جو وضع قطع کے لحاظ سے الگ شناخت رکھتا ہے جیسے قمیض شلوار میں ملبوس سر پر عمامہ یا ٹوپی پائجامہ گٹھنوں سے اوپر لمبی داڑھی اور معاشرے میں چلتا پھرتا بنا دل کے بنا انسانی حقوق رکھنے والا ہر غلطی سے الگ ہر طرح کے انسانی نفسیات سے اعلی رکے صاحب میری مراد آپ کے دل کو تکلیف دینا نہیں ہے بلکہ میں اس مخلوق کے بارے میں کچھ گزارشات رکھنے کا متمنی ہوں کہ ہم سمجھ جائیں یہ خلائی مخلوق نہیں بلکہ ہماری طرح کا ایک انسانی مجسمہ ہے اس کی تعرف اہل لغت یوں کرتے ہیں
مولوی ایک اسلامی خطاب ہے۔ یہ عربی زبان لفظ مولٰیسے ماخوذ ہے جو اصلًا کسی شے کے مالک کو کہا جاتا ہے، تاہم چونکہ اسلام کا تصور یہ ہے کہ مالک حقیقی اللہ ہی ہے، اس لیے اس کے لفظی معنی اللہ سے متعلق یا اللہ والے کے ہیں۔ عام استعمال میں یہ لفظ عمومًا حفاظ یا علما اور دیگر مذہبی شخصیات کے لیے مستعمل ہے۔ یہ مولانا، ملا یاشیخ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مولوی سے عام طور سے مراد اعلٰی درجے کی قابلیت رکھنے والا اسلامی عالم ہے۔ اکثر مولوی حضرات کسی مدرسے سے یا دارالعلوم سے فارغ التحصیل ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ بہ کثرت فارسی، وسط ایشیا، جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا اور مشرقی افریقہ میں مستعمل ہوتا ہے یعنی اصل مولوی وہی ہے جو اعلی درجے کی قابلیت اور مہارت رکھتا ہو علوم اسلامی میں اور کسی اچھے ادارے کا فارغ ہو جس میں اتنی قابلیت ہو کہ وہ ہمیں نیکی اور پرہیزگاری کی راہ کے تعین کرنے میں معاون بن سکے ہمارے ہاں بلکل تصور صحیح تو ہے پر ایک بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ہر شخص نہ تو مولوی ہوسکتا ہے اور نہ ہی عالم فاضل پر ہر مولوی انسان ہی ہے اس کی خواہشات ہیں اس کی ضرورتیں ہیں اس سے مشکلات و مصائب خوشی غم وغیرہ سے سابقہ پڑھ سکتا ہے کیونکہ ہے تو انسان ہی نا پر ہمارا حال الٹا ہے مجھے یاد ہے دوران تعلیم کے جب ہم ابھی چھوٹے سے تھے تب ہمین اپنے ادارے سے دوری پر واقع ایک مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے جانا پڑھتا تھا جب بھی جانا ہوتا تو ہمارے مشفق و مہربان اساتذہ کہتے نظر نیچے رکھنا ٹوپی سیدھی رکھنا ہنسنا یا کھیلنا نہیں راستے پر مسجد میں خاموش رہنا کبھی جو پوچھ لیتے کیوں تو کہتے بیٹو تم پر سب کی نظریں ہیں بس اسی لئے ہم بھی کیا سمجھتے اپنی ہی مستی رہتی پر کبھی کبھار کوئی شخص راہ میں ٹوکتا تو فوری طور پر سمجھ جاتے کہ ہم تو مولوی بننے والے ہیں نا اس لئے ہمارے لئے یہ سب اچھی بات نہیں ہے جو اور بچوں کے لئے اچھی ہوسکتی ہے تو بچپن ہی میں مولوی بن گئے تھے نہ کھیل کود نہ چینخنا چلانا نہ کوئی ہنسی مذاق اب جو فارغ ہوگئے تو یاد آیا کہ ہمارے اساتذہ کتنے عظیم ہین جو یہ کہتے تھے اب اصل زندگی میں یہ سب سمجھ آرہا ہے کہ ہم تو مولوی ہیں کیونکہ اب جو اس مولوی کی تعریف سمجھ آرہی ہے وہ کچھ یوں ہے کہ
ﻣﻮﻟﻮﯼ
ﮔﻮﺷﺖ ﭘﻮﺳﺖ ﮐﮯ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﭘﻼﺳﭩﮏ ﺍﻭﺭﻟﻮﮬﮯ ﺳﮯ ﺑﻨﯽ ﺍﺱ ﭼﯿﺰ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮬﮯ ﺟﺲ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮬﮯ ﻧﮧ ﺣﺎﺟﺖ ,ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻮﺍﮬﺶ ﮬﮯ ﻧﮧ
ﺗﻤﻨﺎ ,ﮐﻮﺋﯽ ﺁﺭﺯﻭ ﮬﮯ ﻧﮧ ﺧﻮﺍﺏ ﺟﺲ ﮐﺎ ﮬﺮ ﮐﺎﻡ ﺩﻡ ﺍﻭﺭﮬﺮ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺩﻋا ﺳﮯ ﭘﻮﺭﯼ ﮬﻮﺟﺎﺗﯽ ﮬﮯ
ﺟﺲ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﭼﻮﻟﮭﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺗﻨﺨﻮﺍﮦ ﮐﯽ ﻧﮭﯿﮟ ﮐﺮﺍﻣﺖ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮬﻮﺗﯽ ﮬﮯ
ﺟﺲ ﮐﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺭﻗﻢ ﮐﯽ ﻧﮭﯿﮟ ﺑﺲ ﺍﯾﮏ ﻋﺪﺩ دعا اور دو رکعت نماز کی ﮐﺎﻓﯽ ﮬﮯ ﺟﺲ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﻖ ﻧﮭﯿﮟ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺁﺝ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻣﮭﻨﮕﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺻﺮﻑ پانچ ﯾﺎ چھ ﮬﺰﺍﺭﻣﯿﮟ ﮬﻤﺎﺭﯼ ﻧﻤﺎﺯﯾﮟ ﺑﮭﯽ ﭘﮍﮬﺎﻧﯽ ﮬﯿﮟ ﺍﺫﺍﻧﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﻨﯽ ﮬﯿﮟ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﺑﮭﯽ پڑھنے ﮬﯿﮟ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﻗﺮﺍﻥ ﺑﮭﯽ ﺳﮑﮭﺎﻧﺎ ﮬﮯ ہیں ﻭﻋﻆ ﻭ ﺧﻄﺎﺑﺖ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻧﯽ ﮬﮯ
ﮐﻮﺋﯽ ﭘﯿﺪﺍ ﮬﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺫﺍﻥ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﻨﯽ ﮬﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺮ ﺭﮬﺎ ﮬﻮ ﺍﺳﮯ ﮐﻠﻤﮯ ﮐﯽ ﺗﻠﻘﯿﻦ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻧﯽ ﮬﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﮬﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺩﻋﺎﺑﮭﯽ ﮐﺮﻧﯽ ﮬﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﮬﻮ
ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺩﻡ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻧﺎ ﮬﮯ
ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺑﭽﮧ ﮈﺭﺗﺎ ﮬﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮈﺭ ﺑﮭﯽ ﻧﮑﺎﻟﻨﺎ ﮬﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﻭﺣﺪﯾﺚ ﮐﻮ ﺍﻏﯿﺎﺭﮐﮯ ﺣﻤﻠﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﭽﺎﻧﺎ ﮬﮯ , ﺷﺮﯾﻌﺖ ﻭﻃﺮﯾﻘﺖ
ﮐﻮ ﻏﺪﺍﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﻣﻼﻭﭦ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﭽﺎﻧﺎ ﮬﮯ
ﺩﯾﻦ ﮐﯽ ﺟﻐﺮﺍﻓﯽ ﺳﺮﺣﺪﻭﮞ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻧﯽ ﮬﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﺩﺍﺧﻠﯽ ﻓﺘﻨﻮﮞ ﮐﺎ ﺩﻓﺎﻉ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻧﺎ ﮬﮯ
ﻟﯿﮑﻦ ﮬﻢ ﻧﮯ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮔﮭﺴﺎﻧﯽ ﮬﯿﮟ ﻃﻌﻨﮯ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﻨﮯ ﮬﯿﮟ ﻃﻨﺰ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﮬﯿﮟ ﮬﺮﻭﺍﻗﻌﮧ ﮐﺎ ﻗﺼﻮﺭﻭﺍﺭﺑﮭﯽ ﭨﮭﺮﺍﻧﺎ ﮬﮯ
ﻣﻮﻟﻮﯼ ﭘﺮ ﺗﺮﻗﯽ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﻟﺰﺍﻡ ﺑﮭﯽ ﻟﮕﺎﻧﺎ ﮬﮯ
ﻗﺮﺁﻥ ﻭﺣﺪﯾﺚ ﺳﯿﮑﮭﻨﮯ ﺳﮑﮭﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺳﮯ ﮬﻢ ﺳﺎﺋﻨﺴﯽ ﺍﯾﺠﺎﺩﺍﺕ ﺍﻭﺭﺗﺮﻗﯽ ﮐﯽ ﺍﻣﯿﺪ ﻟﮕﺎﺋﮯ بیٹھے ہیں اﺝ ﺗﮏ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﺎ ﺑﺤﺮﺍﻥ ﺁﻧﮯ ﺩﯾﺎ ﺍﺱ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﻧﮯ آﺝ ﺗﮏ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺴﻠﮧ ﺍﯾﺴﺎ ﮬﮯ ﺟﺲ ﮐﺎ ﺷﺮﻋﯽ ﺣﻞ ﻗﺮﺁﻥ ﻭﺳﻨﺖ ﺳﮯ ﻧﮧﻧﮑﺎﻻ ﮬﻮ
ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﻻﺟﻮﺍﺏ ﮬﻮﺍ
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﺲ ﮐﺎﻡ ﮐﺎ ﺑﯿﮍﮦ ﺍﻭﺭﭨﮭﯿﮑﮧ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﮬﮯ ﮐﯿﺎ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﻗﺴﻢ
ﮐﯽ ﮐﻤﯽ ﮬﮯ
ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺗﻮ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﻣﻔﺴﺮ ﯾﻦ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﺭﮬﺎ ہے ﺍﻣﺖ ﮐﻮ ﻣﺤﺪﺛﯿﻦ ﺩﮮ ﺭﮬﺎ ﮬﮯ
ﺧﻄﺒﺎﺀ ﻭﻋﻈﺎﺀ و ﺻﻠﺤﺎﺀ ﺷﺮﻓﺎﺀ ﮐﺲ ﻓﻦ ﻣﯿﮟ ﺭﺟﺎﻝ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ
ﮐﯽ ﮬﮯ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﻧﮯ ؟
ﮬﺮ ﺩﻭﺭﮐﯽ ﮬﺮ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﭘﻮﺭﯼ ﻧﮭﯽ ﮐﯽ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﻧﮯ؟
ﻟﯿﮑﻦ ﻧﮭﯿﮟ
ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﻟﻮﯼ فتنہ ﮔﺮ ﮬﮯ ترقی کا دشمن ﭘﮭﺮﺑﮭﯽ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺗﺸﺪﺩ ﭘﺴﻨﺪ ﮬﮯ
ﺍﮔﺮﺳﺎﺋﻨﺴﯽ ﺗﺮﻗﯽ ﻧﮭﯿﮟ ﮬﻮﺭﮬﯽ ﺗﻮ ﻗﺼﻮﺭﻭﺍﺭﻣﻮﻟﻮﯼ ﮬﮯ
ﺍﻣﻦ ﻧﮭﯿﮟ ﮬﮯ ﺗﻮﻏﻠﻄﯽ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﮐﯽ ﮬﮯ
ﺑﯿﻮﯼ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﯿﺮﻭﺗﻔﺮﯾﺢ ﺗﮏ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻧﮭﯿﮟ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﻭﺍﺣﺴﺎﺳﺎﺕ ﺳﮯ ﺗﻮ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻧﺎﻭﺍﻗﻒ ﮬﮯ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺗﻮ ﺳﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﭘﺘﮭﺮ ﺑﻠﮑﮧ ﭼﭩﺎﻥ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮬﮯ
ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﻣﻌﯿﺎﺭ ﺍﻭﺭﺗﺮﺍﺯﻭﻣﻮﻟﻮﯼ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﻟﮓ ﮐﯿﻮﮞ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﻟﮓ ﮐﯿﻮں
ﺁﭖ ﮐﮯ ﺍﺧﺮﺍﺟﺎﺕ ﭘﭽﺎﺱ ﮬﺰﺍﺭﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﭘﻮﺭﮮ ﻧﮭﯿﮟ ﮬﻮﺭﮬﮯ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﮐﮯ
پانچ ہزار میں ﮐﯿﺴﮯ ﭘﻮﺭﮮ ﮬﻮ ﺭﮬﮯ ﮬﯿﮟ کبھی اس طرف دھیان دیا ہے کبھی سوچا ہے کہ جمعہ پر عیدین پر جو یہ واعظ صبر توکل کا کرتا ہے کیا ہمیں سمجھ آیا ہمارے ساتھ ہنستے مسکراتے رہنے والا یہ انسان نما خلائی مخلوق بچوں کی بیوی کی ضد کیسے پوری کرتا ہوگا نماز میں تھوڑی سی دیر کیا ہوئی مقتدی نے کھری کھوٹی سنا دی یہ اللہ کا بندہ خاموشی سے اللہ اکبر کہہ کر سجدہ ریز ہوا سلام پھیر کر سب سے مسکراتا ہوا ہاتھ ملا کر گھر چل پڑا نہ کوئی شکوہ نہ شکایت بس دوسروں کی خوشی میں خوش بیٹی کچھ مانگئے یا بیٹا بیوی کوئی تمنا بیان کرے یا اپنے دل میں کوئی تمنا ہر صورت درس سادگئی دے کر مطمئن ہوجاتا ہے اس مولوی کی اولاد بھی کچھ ایسی ہی ہوتی ہے کہ کم سے کم پر بھی قناعت اور خاموشی سے اپنے کام سے کام عزیزان ملت مانا کہ ہم ان سے اختلاف رائے رکھ سکتے ہیں پر ان کے تئیں جو ہمارا عنادانہ رویہ ہے انتہائی قابل نفرین ہے ہم کیا کیا نہیں ان سے چاہتے پر بدلے میں ہم انہیں کیا دے رہے ہیں ہم سب جانتے ہیں ہم ان سے صرف خیر کی توقع رکھتے ہیں پر کیا اس خیر کا مستحق یہ مولوی نہیں جو ہمارے دنیا میں آنے سے لے کر ہماری رخصت ہونے تک جہاں سے ہمارا رشتہ اللہ تعالی سے رسول رحمت صل اللہ علیہ وسلم سے جوڑے رکھتا ہے جو کبھی نماز کو بلاتا ہے تو کبھی حج کو زکات پر واعظ کہتا ہے تو کبھی فضائل رمضان کبھی سیرت طیبہ تو کبھی سیرت صحابہ کرام رضوان اللہ سناٹا ہے وضو غسل کے فرائض سنن سکھاتا ہے تو کبھی میت کو نہلانے کا طریقہ کبھی معاشرت تو کبھی سماجی مسائل بتاتا ہے بدلے میں ہم کیا چاہتے ہیں مولوی سیاست نہ کرے مولوی ہنسے نہ مولوی زرق برق لباس نہ پہنے مولوی نے گاڑی سائیکل کیا خریدی کہ ہزاروں باتیں سننی پڑتی ہیں یہی وہ مخلوق ہے جسے ہم کہتے ہیں کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہوتی پر رکاوٹ مولوی ہے تو کیا پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا کبھی کسی مولوی نے میزائل یا ہوائی جہاز پر فتوی دیا کہ یہ حرام ہے سائنس دان بننا غلط ہے نہیں ہاں کسی نے انفرادی طور کہا ہو تو ہو پر مجموعی طور پر یہ ایسی باتوں سے کتراتے ہی رہتے ہیں جو ان کے علم میں نہیں ہوتا آئے میری ملت اسلامیہ کے خیر خواہو رب کے لئے آپ انہیں بھی جینے دیں ان کی ضروریات کا خیال رکھیں یہی ایک طبقہ ہے جو ہمارا رشتہ اب بھی مولائے کریم سے جوڑے ہوئے ہے ان کی زبان پر گانے یا غزل نہیں ہوتے ہاں قرآنی آیات و احادیث مبارکہ ضرور کہتے ہیں جو ہماری دائمی فلاح کے لئے ضروری ہے تو آئے نا ان کی حالت پر ترس کھائیں ان کو حوصلہ دیں ان کی دل شکنی سے بچتے رہیں یہ ہمارا اصل کام ہوگا لفظ “” مولوی “” کا مذاق اُڑانے والوں کے لیے ” شہاب نامہ سے ایک انمول اقتباس
مِن جانب قدرت اللہ شہاب !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’یہ مولوی ہی ہے جس نے گاؤں کی ٹوٹی مسجد میں بیٹھ کر چند ٹکڑوں کے عوض عوام کا رشتہ اسلام سے جوڑا ہوا ہے۔ اس کی پشت پر نہ کوئی تنظیم ہے، نہ کوئی فنڈ ہے اور نہ کوئی تحریک۔ اپنوں کی بے اعتنائی، بیگانوں کی مخاصمت، ماحول کی بے حسی اور معاشرے کی کج ادائی کے باوجود اس نے نہ اپنی وضع قطع کو بدلا اور نہ اپنے لباس کی مخصوص وردی کو چھوڑا۔ اپنی استعداد اور دوسروں کی توفیق کے مطابق اس نے کہیں دین کی شمع، کہیں دین کا شعلہ، کہیں دین کی چنگاری روشن رکھی۔ ملّا نے ہی اس کی راکھ کو سمیٹ سمیٹ کر بادِ مخالف کے جھونکوں میں اڑ جانے سے محفوظ رکھا۔۔ دن ہو یا رات، آندھی ہو یا طوفان، امن ہو یا فساد، ہر زمانے میں شہر شہر، گلی گلی، چھوٹی بڑی، کچی پکی مسجدیں اسی ایک ملّا کے دم سے آباد ہیں جو خیرات کے ٹکڑوں پر مدرسوں میں پڑا رہتا ہے اور دربدر کی ٹھوکریں کھا کر گھر بار سے دور کہیں اللہ کے کسی گھر میں سر چھپا کر بیٹھا ہے۔ کوئی شخص وفات پا جاتا ہے، تو یہ اسکا جنازہ پڑھا دیتا ہے، نوزائیدہ بچوں کے کان میں اذان دے دیتا ہے، کوئی شادی طے ہوتی ہے تو نکاح پڑھوا دیتا ہے۔ اسے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ کوئی اسے جمعراتی، شبراتی، عیدی، بقرعیدی اور فاتحہ درودی کہتا ہے۔
یہ ملّا ہی کا فیض ہے کہ کہیں کام کے مسلمان، کہیں نام کے مسلمان، کہیں محض نصف نام کے مسلمان ثابت و سالم و برقرار ہیں۔ برِّصغیر کے مسلمان عموماً اور پاکستان کے مسلمان خصوصاً ملّا کے اس احسانِ عظیم سے کسی طرح سبکدوش نہیں ہو سکتے جس نے کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی حد تک ان کے تشخص کی بنیاد کو ہر دور اور ہر زمانے میں قائم رکھا۔ اعتراض کرنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ لو سے جھلسی ہوئی گرم دوپہر میں محلے کی تنگ مسجد میں ظہر کی اذان ہر روز عین وقت پر اپنے آپ کس طرح ہوتی رہتی ہے؟ کڑکڑاتے ہوئے جاڑوں میں نرم و گرم لحافوں میں لپٹے ہوئے اجسام کو اس بات پر کبھی حیرت نہ ہوئی کہ اتنی صبح منہ اندھیرے اٹھ کر فجر کی اذان اس قدر پابندی سے کون دے جاتا ہے؟ نکاح اور جنازے کا مسئلہ ہو تو تمسخر اڑانے والوں کے لہجوں کا سارا جھاگ بیٹھ جاتا ہے، انگلیاں ٹیڑھی کر کر کے مذاق اڑانے والے منہ جھکا کر مولوی صاب مولوی صاب کر رہے ہوتے ہیں اور یہ مولوی کا ظرف ہے کہ اس نے معاشرے کے ان نابالغوں کی نادانیوں کو ہمیشہ نظر انداز کیا ہے کیونکہ اس کو پتہ ہے کہ اس کا نعم البدل کوئی نہیں، وہ انمول ہے‘‘ ۔ یہ وہ کارنامے ھیں جسکا تعلق ھر عام وخاص سے ھے
تو آئے ہم اس اقتباس کی روشنی میں اپنے لئے راہ کا انتخاب کریں ایک عام مولوی کی داستان الم اس کی زبانی
میرا سفر غربت سے شروع ہوا والد کی وفات کے بعد چھوٹی چھوٹی خواہشیں بھی دم توڑنے لگیں یتیمی کے زمانے میں کبھی من پسند کپڑے نہ ملے کوئی اچھی چیز نہ ملی کھانے کے لالے پڑھ گئے عمر بھی بہت کم تھی دوسروں کے بچوں کو دیکھ کر اکثر آنکھیں بھیگ جاتی تھیں
وقت گزرتا رہا کبھی مزدوری کی تو کبھی بھوکا ہی چل پڑا بلا ہو مولانا حبیب اللہ شاہ مرحوم کا انہوں نے راستہ دیکھایا ایک بے سہارا یتیم کو دارلعلوم میں داخلہ دلایا ہلکی پھلکی ضروریات پوری کرتے رہے عربی سوم کی تکمیل ہوئی پر حالات بہتر نہ ہوئے وہی چھٹیوں میں مزدوری اور چھوٹی سی عمر میں بڑے بڑے کام بسا اوقات جی چاہتا موت ہی آتی تو شاید سکون سا ملتا بابا کی یاد نے میرے دل کے جذبات کو مجروح کردیا میرا سہارا چھن گیا تھا ان کی مسکان ان کا چلنا ان کی باتیں رہ رہ کر اکثر رلایا کرتی تھیں مدرسہ میں صرف درجہ سوم تک ہی پڑھایا جاتا تھا اس لئے مولانا کے مشورے ہی سے مظاہر العلوم سہارنپور کے لئے رخصت سفر باندھ لیا
مظاہر العلوم سہارنپور میں جاکر دل نہ لگا خود ہی مولانا ابرار الحق رحمہ اللہ کے پاس پہنچ گیا روتا رہا ان کے بارے میں بہت سنا تھا دل بھر آیا ان کے پاس پہنچ کر آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے مولانا نے انتہائی شفقت و محبت سے بات کی نصیحت کی اور اپنے ہی ساتھ ہردوئی میں ٹھرایا کچھ دن بعد ندوہ گیا مجھے اچھا لگا یہاں پہنچ کر اس لئے پھر یہیں کا ہوکے رہ گیا
فارغ ہوکر واپسی ہوئی تو وہی میرے اپنے پرائے ہونے لگئے جن کی اسلام پسندی پر مجھے ناز ہوا کرتا تھا جنہیں دیکھ دیکھ کر قدم قدم چلنے کا ارادہ مصمم کیا تھا میرے لب پر دعا ہوتی تھی کہ یارب میں اس دین مبین کی خدمت کروں گا جس نے مجھے غربت اور بے بسی و لاچارگئی میں سہارا دیا دین کی خدمت کو فرض سمجھ کر اسی کام کو منتخب کرکے مختلف اداروں میں کام کرتا رہا مساجد و مدارس میں اپنے کام میں مصروف رہا یہی سوچ کر کہ کم میں مولا برکت دے گا اب وہ کرب شروع ہوا جس کا گمان بھی نہ تھا جو سوچا بھی نہ تھا کبھی کسی نے اپنے من کو راضی کرنے کے لئے سلفی کہا سلفی نے تبلیغی کہا تبلیغی نے تحریکی کہا تحریکی نے بدعتی جماعت کا کارکن کہا میرے کرب کو نہ سمجھا بس مجھے نام ملتے رہے کسی نے یہ نہ کہا کہ یہ صاحب مسلم ہے
کچھ یادیں
ایک ادارے کے منتظم نے برف باری میں بھی ادارے میں کام میں مشغول دیکھا تو بڑی حوصلہ افزائی کی اور انعام بھی دیا پر کچھ ہی مدت کے بعد مجھے ادارے سے فارغ کیا اور میری تنخواہ تک ہضم کرلی کچھ بھی نہیں دیا مایوسی سے نکل پڑا
مساجد میں جس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے نعرے لگائے جاتے تھے وہیں باہر نکل کر اسی کی سنت کے باغی ہمیں سمجھاتے کہ بس میھٹا کہا کرو نہیں تو نکل جاو
بستی میں کچھ نوجوان بری عادات میں مصروف تھے ان سے محبت کا تعلق استوار کرکے انہیں مسجد میں لاکر دین داری اختیار کرنے کے فوائد بتاتا رہا پر جوں ہی یہ نوجوان اپنی وضع قطع تبدیل کرنے لگئے نماز روزہ کے پابند ہوگئے اور اچھائی کی راہ اختیار کی تبہی مجھ سے وہ لوگ خفا ہو گئے جو میری محبت کا دم بھرنے میں بخل نہ کرتے تھے کبھی کیوں کہ ان نوجوانوں نے بدعات کے خلاف بات کی قرآن و سنت سے تعلق کی بات کی نبی کریم صلی اللہ علیہ کی بات کی ذلت و رسوائی سے بچنے کی بات کی بس نزلہ اس قدر گرا مجھے نماز اس مسجد میں نہ پڑھنے کا کہا گیا اور مجھے خاموشی سے اپنی بات کو نہ رکھنے کے لئے وہ وہ حربے ہوئے کہ میں کہتے ہوئے بھی تڑپتا ہوں
امامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے جاہل بھی رعب جمائے بیٹھ جاتا ہے آدمی خون کے آنسو روتا ہے جب ایک عام آدمی بھی سنن نبوی پر سوالات کی بوچھاڑ کردیتا ہے اور مخالفت کرنا فرض سمجھتا ہے
جنازے پر جائے تو جلدی کرنے کا حکم ملتا ہے نماز پڑھائے تو لوگوں کا خیال رکھے ایسا فرمان ملتا ہے ہر بار صدر صاحب کو سلام نہ کرو تو تذلیل و تحقیر سہنی پڑتی ہے
عرصہ پانچ چھ سال قبل مجبوری میں آپالو اسپتال دہلی جانا پڑا بس ہزاروں طعن و تشنیع سنے ہزاروں باتیں سننی پڑیں اتنی رقم لائی کہاں سے علاج وہ بھی اتنا مہنگا کیسے ہوا اف کوئی دو نمبر کا کام کرتا ہے دراصل وہاں چندہ جمع کرنے کو گیا ہے ہمیں جھوٹ بولا بیماری کا کسی نے کبھی زحمت نہ کی کہ پوچھ لیتا مسئلہ کیا ہے یہ تو بلا ہو ان دوستوں کا جنہوں نے اس مصیبت میں میرا ساتھ دیا اور اپنی جیب کو خالی کرنے میں بخل نہ کیا بلکہ میری مدد کی ورنہ مجھ جیسا غریب تو رب جانے کس حال میں ہوتا
جب جس کی مرضی ہوگئی وہ ناراض ہوکر تذلیل و تحقیر کا تحفہ لازمی دے گیا تھوڑا نیا لباس لگائے تو ہزاروں باتیں راہ پر چلتے ہوئے ٹوپی کیا گری کہ طوفان آٹھ کھڑا ہو جائے مسجد میں دو منٹ کی دیر کیا ہوئی کہ عزت و احترام کے ساتھ باتیں سننی پڑتی ہیں
بس لوگوں کی خوشی میں خوش رہنا پڑتا ہے ان کے ناراضی سے بچنے کے لئے صرف ہاں جی ٹھیک ہے کہنا پڑتا ہے
اب بھی یہی سب ہوا جس کا گمان بھی نہ تھا کیونکہ اب تو میں شریر بھی نہ تھا نہ وہ جوانی کی ضد اب تو بڑھاپے کی اور رواں تھا اسلام پسندوں کے ساتھ جی لگا کر کام میں مگن تھا پر میرا وجود ہی کتنا ناپسندیدہ ہے کہ مجھے ان کے ساتھ میں قرار نہ ملا انتہائی مایوس کردیا انہوں نے جنہیں دیکھ کر جی چاہا تھا کہ اب جی لوں ان کے ہی سنگ پر قسمت الٹی ہوگئی پھر سے ایک بار
پر اب وہ قوت و طاقت نہ رہی دل انتہائی افسردہ ہے دماغ نہیں مانتا ایسے جینے کے لئے مجھ میں اب قوت برداشت کا یارا نہ رہا کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر لوگ آنسو بہانے پر مجبور کریں درد و کرب کا اظہار کرنے سے شرماتے ہوئے اپنا کرب چھپانے کو بھی جگہ نہ ملے
اک نئی افتاد کہ ترنم سے واعظ کرنا ہی ہمارے ہاں علم کی معراج ہے ان کی قدر و قیمت کو بھی نہیں جانا جاسکتا لوگوں کی خواہشات پر واعظ کرنا ہی علم کہلاتا ہے انپڑ لوگوں نے علماء کا لباس اوڑھ کر علماء کرام کا جینا حرام کر دیا ہے کب کون کافر مرتد بنا دے معلوم ہی نہیں ہوتا
اب تھکان نے کچھ بھی نہیں رہنے دیا میں تھک سا گیا ہوں یارب کیوں کہ میں عام انسان کی ہوں مجھ میں اب قوت برداشت کا یارا نہ رہا کہ چلتا ہی رہوں تھک کر افسردگی کے عالم میں مجبور ہوں آنسوؤں کے سوا اب کچھ نہیں بچا یہاں اس دین پسندی سے واسطہ پڑا کہ میں اصل کو اپنانے سے خوف کھانے لگا
پر کیا کروں
میں یہ سب ہرگز بھی نہیں کہتا پر کیا کروں کیونکہ شاید کچھ لوگوں نے امیدیں وابستہ کر لی ہوں مجھ سے میرے نام سے یہ جانے بغیر کہ میں اس نام کی لاج رکھتے ہوئے کس کرب میں مبتلاء ہوتا رہا ہوں میرے وہ جگر کے ٹکڑے سمجھ لیں میری خواہشات نہیں میری ضروریات نے مجھے مجبور کردیا کہ ایک نئی امید کے ساتھ ایک نئی کوشش کے ساتھ مشغول ہوجاؤں کسی کام میں جہاں عزت نفس مجروح نہ ہو جہاں ہر بار صدر صاحب کو جاکر سلام نہ کہنی پڑے جہاں دوسروں کی خواہشات پر نہ جینا پڑے جہاں کسی کے غیض و غضب کا شکار ہونے کا خوف مسلط نہ ہو اسی لئے اب اپنے مولا سے امید باندھ کر ایک نئے جوش و خروش سے جینے کی خواہش رکھتا ہوں آپ یہ نہ کہنا میں ڈر محسوس کرتا ہوں نہیں پر بے بس و لاچار بن کر نہیں جینا چاہتا بس مولا جانے اب کیا ہو پر امید کرتا ہوں کہ آپ کسی دوسرے کو اس مقام تک نہ آنے دیں گئے جہاں آدمی انتہائی تکلیف دہ احساس سے روشناس ہوکر ظلمت کے اندھیرے کنویں میں گر جاتا ہو
کس کی تلاش ہے ہمیں۔۔کس کے اثر میں ہیں
جب سے چلے ہیں گھر سے ۔۔۔مسلسل سفر میں ہیں
Comments are closed.