Baseerat Online News Portal

یہ وقت لڑائی جھگڑے کا نہیں دشمن سے نمٹنے کا ہے!

شکیل رشید

ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز / سرپرست ایڈیٹر بصیرت آن لائن

ہم آخر کب تک لڑتے جھگڑتے رہیں گے؟ !

کیا کسی تنازعے، مسئلے یا چند لوگوں کے درمیان اختلافات رائے کا کوئی حل بغیر لڑے جھگڑے ممکن نہیں ہے؟

یہ سوال سوشل میڈیا پر ماب لنچنگ (ہجومی تشدد) کے سلسلے میں احتجاجات اور مظاہروں کے ’طریقہ کار‘ پر بیانات او رمختلف قائدین کے درمیان نظریاتی اختلافات کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔ یہ سوال نہ دریافت کیا جاتا اگر سوشل میڈیا پر لوگ سنجیدگی سے مسئلے کے حل کی طرف توجہ دیتے، اسے اپنے اپنے دلوں کی بھڑاس نکالنے اور انہیں، جو واقعی کسی نہ کسی طو رسے ہجومی تشدد سے نمنٹنے کے امکانات پر غور کررہے ہیں، بیجا تنقید اور نکتہ چینی کا نشانہ نہ بناتے۔

بات گزشتہ ۲۷ جون کی ہے جب مظلوم تبریز انصاری کی لنچنگ کے خلاف ایک مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے اتراکھنڈ جمعیۃ علما (ارشد مدنی) کے ایک رکن مفتی رئیس قاسمی نے کہا ’’ہمارے پاس بھی طاقت ہے، ہمارے پاس بھی نوجوان ہیں، ہمارے پاس بھی ہتھیار ہیں، ہم بھی مار سکتے ہیں، حملہ کرسکتے ہیں لیکن ہم امن چاہتے ہیں‘‘۔ مفتی رئیس قاسمی کے اس بیان کو سراہا گیا، بالخصوص مسلم نوجوانوں میں۔ ۔۔اس بیان پر جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا سید محمود مدنی نے ناراضگی کا اظہار کیا۔۔۔ان کاماننا ہےکہ اس طرح کے بیانات سے مسلمانوں کے مسائل میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ انہیں بظاہر مفتی رئیس قاسمی کے بیان کے اس حصے پر ناراضگی تھی ’’ہمارے پاس بھی ہتھیار ہیں‘‘۔ یہ جملہ اگر دیکھا جائے تو پولس کی نظر میں قابل مواخذہ اور قابل گرفت ہے بھی۔ اور جس بات کا اندیشہ تھا وہ بات ہوئی بھی۔۔پولس نے مفتی صاحب کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ۔ یہ ایک اچھے خاصے بیان میں ایک ذرا سی غلطی کا نتیجہ ہے۔ پولس ان سے پوچھ سکتی ہے کہ ’کہاں ہیں ہتھیار؟‘ یہ پولس تو مسلمانوں کو ملوث کرتی چلی آرہی ہے لہذا مفتی صاحب کے ساتھ کچھ اور لوگوں کو بھی نشانہ بنا سکتی ہے، حالانکہ مفتی صاحب نے واضح لفظوں میں یہ بھی کہا ہے کہ ’’ہم امن چاہتے ہیں‘‘۔

اب اس معاملے میں علماء ، فضلا اور دانشوران عظام کے کئی کئی گروپ سوشل میڈیا پر بیانات کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ اختلافات کو ہوا دے رہے ہیں۔ ایک طرف سے اگر مفتی صاحب پر نکتہ چینی کی جارہی ہے تو دوسری طرف سے مولانا محمود مدنی پر تنقید ہورہی ہے۔ نکتہ چینی اور تنقید کرنے والے نہ سنجیدگی سے مسئلے کی نزاکت پر توجہ دے رہے ہیں او رنہ ہی کوئی ایسا مشورہ دے رہے ہیں جو واقعی مسلمانوں کےلیے بھلا ہو۔ یہ یقیناً اختلافات کو ہوا دینے کا نہیں متحد ہوکر ان سے نمٹنے کا وقت ہے جو مسلمانوں کے وجود کو تنکا سمجھ بیٹھے ہیں۔ مولانا محمود مدنی نے ناراضگی کا اظہار کیا۔۔۔ یہ ان کا حق تھا کہ جمعیۃ علما ہند اشتعال کی پالیسی کے ہمیشہ خلاف رہی ہے، لیکن انہیں چاہئے کہ ایک ایسے موقعے پر جب مفتی صاحب نشانے پر ہیں ان کا ساتھ دیں۔ مفتی صاحب کا ایڈوکیٹ محمود پراچہ کی مدد لینا حیرت انگیز بھی ہے اور افسوسناک بھی کیو ںکہ پراچہ جمعیۃ کے قائدین کو کٹگھرے میں کھڑا کر رہے ہیں۔اور مفتی صاحب اسی جمعیۃ کے ایک رکن ہیں جس کے خلاف پراچہ صاحب کی زبان ان دنوں کھلی ہوئی ہے۔ مفتی صاحب آئندہ ایسی اشتعال انگیزی سے بچیں ۔اورلوگ آگے بڑھیں، بالخصوص وہ لوگ جو نکتہ چینی اور تنقید کررہے ہیں اور مفتی صاحب کو منجدھار میں نہ چھوڑیں ۔یہ نہ ہمت ہارنے کا وقت ہے، نہ بزدلی دکھانے کا او رنہ ہی اشتعال انگیزی کرنے کا، یہ وقت بہادری اور ہمت کے ساتھ متحد ہوکر مشتعل ہوئے بغیر ان سے نمٹنے کاہے جو ’دشمن‘ ہیں۔ صرف مسلمانوں کے نہیں ملک کے بھی دشمن۔۔۔نمٹنے کا سب سے بہتر راستہ بھر پور طریقے سے اپنا دفاع اور قانونی چارہ جوئی ہے۔

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.