Baseerat Online News Portal

موجودہ حالات میں صبر و ضبط کی ضرورت ہے

مولانا محمد قمرالزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

 

اسلام میں صبر و ضبط اور تحمل و برداشت کو بڑی اہمیت دی گئ ہے ۔ صبر کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید میں نوے سے زیادہ مقام پر صبر کا ذکر کیا گیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں صبر و تحمل اور برداشت کی بے شمار مثالیں اور نمونے موجود ہیں ۔ قرآن مجید میں کہا گیا ہے کہ صبر کرنے والوں کے ساتھ اللہ ہوتا ہے ۔ان اللہ مع الصابرین،گویا قرآن مجید نے صاف اعلان کر دیا ہے کہ صبر ہی اللہ کی معیت اور اس کی مدد کی کلید بلکہ شاہ کلید ہے ۔ دوسری جگہ یہ حکم ربانی ہے *و استعینوا بالصبر و الصلاة* صبر اور نماز کے کے ساتھ مدد چاہو ۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے جسم میں جو مقام صبر کا ہے ایمان میں وہی مقام اور درجہ صبر کا ہے ۔

قرآن مجید نے خاص طور پر مسلمانوں سے کہا ہے کہ اگر کوئ گروہ تمہارے ساتھ زیادتی اور ناانصافی کرے تو تمہارے لئے اس حد تک اس کا جواب دینے کی گنجائش ہے ،لیکن معیاری اور بہتر و افضل طریقہ یہ ہے کہ تم انتقام لینے کے بجائے صبر کا راستہ اختیار کرو ۔ *و ان عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم بہ و لئن صبرتم لھو خیر للصابرین* ۔ ( النحل ؛ ۱۲۶)

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی صبر کی اہمیت، ضرورت اور اس کے وسیع تر فائدے کے بارے میں لکھتے ہیں :

صبر اصل میں محبت کے تقاضوں میں سے ہے اور تدبیر کے اعتبار سے یہ دشمن کے ہتھیار چھین لینے کے مترادف ہے ؛ کیوں کہ تشدد کا جواب اس سے زیادہ تشدد سے دیا جاسکتا ہے ؛ لیکن عدم تشدد کا کوئ جواب نہیں ہوسکتا، زبان درازی کے جواب میں اس سے بڑھ کر زبان درازی کی جاسکتی ہے ؛ لیکن خاموشی کا کوئ جواب نہیں دیا جاسکتا ۔ اسی لئے داعی کا کام یہ ہے کہ جو قوم اس کی مخاطب ہو ،وہ اس کی اشتعال انگیز باتوں کے جواب میں اشتعال کا مظاہرہ نہ کرے ،اگر وہ شان و شوکت کا اظہار کرے ،نعرے لگائے اور اپنی سربلندی کے اظہار کے لئے ان ذرائع کو استعمال کرے ،جو آج کی دنیا میں کئے جاتے ہیں، تو داعی گروہ کا کام یہ ہے کہ وہ خاموشی کے ظاہری شان و شوکت کے اظہار کے بغیر اپنا کام کرتا رہے ؛ یہاں تک کہ مخالفین کے پاس لوگوں کو جوش دلانے، گرمانے اور مشتعل کرنے کے لئے کوئ مواد ہی نہ مل سکے اور بالآخر آہستہ اہستہ ان کی مفسدانہ مہم سے دور ہو جائیں ۔ ( منصف مینارئہ نور ایڈیشن جمعہ ۲۳ اپریل ۲۰۱۰ء)

ان تفصیلات سے یہ بات واضح ہو گئ کہ صبر ایک نہایت عظیم ہتہیار اور لازمی اور ضروری شئ ہے ،اسے کسی بھی حال میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ ایمان والوں کو صبر کی اہمیت، ضرورت اور اس کی افادیت سے واقف ہونا چاہیے تاکہ وہ انفرادی اور اجتماعی کامیابی کے لئے اس عظیم ہتھیار کو استعمال کرسکیں ۔ صبر کے ذریعے انسان اپنے دشمن کو بھی زیر کر سکتا ہے تاریخ اسلامی میں اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں صبر کے اعلی نمونے اور متعدد مثالیں موجود ہیں ۔

صلح حدیبیہ اس کی واضح مثال ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ میں کفار کی بعض ایسی شرائط کو قبول کیا جن سے بظاہر یہ لگتا تھا کہ اس میں مسلمانوں کی ناکامی اور کفار و مشرکین کی کامیابی ہے،بظاہر یہ صلح الف سے ی تک مسلمانوں کی امنگوں کے خلاف تھی۔ مشرکین نے یہ شرط لگائ کہ اس سال بغیر عمرہ کئے واپس جانا ہوگا ،اس شرط کو بھی منطور کر لیا گیا ۔ صلح نامہ لکھتے ہوئے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا گیا اہل مکہ کے نمائندہ نے اسے قبول نہیں کیا اور کہا کہ زمانئہ جاہلیت کے طریقہ پر باسمک اللھم لکھنا پڑے گا ،اسے قبول کر لیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم لکھا گیا دوسرے فریق نے رسول اللہ کے لفظ کو کاٹنے پر اصرار کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر بھی راضی ہوگئے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے برداشت نہ ہو سکا اور وہ یہ کلمئہ حق کو اپنے ہاتھ سے مٹانے کے لئے تیار نہیں ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خود اپنے ہاتھ مٹا دیا ۔ پھر یہ بات بھی طئے پائ کہ مکہ سے جو مسلمان ہو کر مدینہ جائے اسے واپس کر دیا جائے اور مدینہ سے جو مرتد ہو کر مکہ آئے اسے واپس نہ کیا جائے یہ بالکل امتیاز پر مبنی دفعہ تھی ۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی دفعات اور غیر منصفانہ شرطیں تھیں جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منظور فرمالیا ،اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو یہ صلح بہت ناگوار خاطر تھی ۔ روایت میں آتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے تو برداشت نہ ہوسکا اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرط جذبات میں کچھ ایسے سوالات کر لئے کہ ہمیشہ اس پر نادم اور پشیمان رہتے تھے ۔

لیکن غور کیجئے کہ اسی صلح کو جو بظاہر ذلت امیز تھی فتح مبین قرار دیا گیا ۔ اور صلح حدیبیہ مسلمانوں کی فتح ثابت ہوئ اور مسلمانوں کو مضبوط اور مستحکم ہونے کا موقع مل گیا ۔ یہ معاہدہ دس سال کے لئے تھا ۔ گویا مسلمانوں کو پورے دس سال کا موقع مل گیا کہ وہ مشرکین کی طرف سے یکسو اور مطمئن ہوکر دوسری دعوتی سرگرمیوں کی طرف متوجہ ہوں اور اسلام کے دائرے کو وسیع سے وسیع تر کریں ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ اور اشاعت دین اسلام کا کام زور شور کے ساتھ کرنا شروع کر دیا ۔ مختلف علاقوں میں صحابہ کرام کو داعی اور نمائندہ بناکر روانہ کیا ،مختلف سربراہان مملکت کو دعوتی خطوط روانہ کئے ۔ اس صلح کے بعد ایک بڑی تعداد حلقہ بگوش اسلام ہوئ ،بہت سے لوگوں نے اس دعوت اور نبوی مشن کو سمجھا اور اسلام سے قریب ہوئے ۔

 

صبر گویا حسن تدبیر اور جذبات و اشتعال پر عقل و فراست فہم و شعور کو غالب رکھنے کا نام ہے ۔ صبر کے معنی بزدلی، پست ہمتی، میدان چھوڑنے اور ذلت و پسپائ کے نہیں ہیں بلکہ صبر سے مراد بہتر تدبیر اور کسی اقدام کے لئے صحیح موقع و محل کا انتخاب کرنے کے ہیں، صبر یہ ہے کہ آدمی اشتعال انگیز مواقع پر بھی اپنے آپ کو مشتعل اور بے برداشت ہونے سے بچائے اس لئے کے جذبات ،اشتعال اور غیظ و غضب کے موقع پر انسان کے اندر قوت فیصلہ کم یا ختم ہو جاتی ہے اور فہم و فراست اور شعور و آگہی کا دامن اس کے ہاتھوں سے ایک طرح سے چھوٹنے لگتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غصہ کی حالت میں قاضی کو فیصلہ کرنے سے منع کیا ہے *لا یقضی القاضی و ھو غضبان*

کیوں کہ غصہ کی حالت میں آدمی معاملہ کی تہہ میں اور اس کی گہرائ میں نہیں پہنچ سکتا ہے،اور نہ معاملہ کو صحیح طور پر سمجھ اور پرکھ سکتا ہے ،اس لئے شریعت نے پابند بنایا کہ آدمی فیصلہ اور مقدمہ کا حل سنجیدہ حالت میں کرے ۔

صبر ایک وسیع مفہوم کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے ۔ صبر کا کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لوگ ناکام ہوکر یا پریشانی میں مبتلا ہو کر ہمت ہار جائیں اور ہمیشہ کے لئے حالات سے سمجھوتہ کر لیں اور دل میں یہ سوچ لیں کہ اب کامیابی ناممکن اور محال ہے ۔ بلکہ صبر کا تقاضا ہے کہ مشکل اور کٹھن حالات میں بھی انسان ثابت قدم رہے ،صحیح راستوں سے نہ ہٹے اور غلط راستوں اور طریقوں کا انتخاب نہ کرے ۔

موجودہ حالات مسلمانوں کے لئے انتہائی ناگفتہ بہ ہیں، مجموعی اعتبار سے اس وقت مسلمان پوری دنیا میں سخت اور مشکل حالات سے دو چار ہیں ۔ ہر چہار جانب سے ان پر شکنجے کسے جارہے ہیں ان پر عرصئہ حیات تنگ کرنے کے لئے سازشیں رچی جا رہی ہیں اسلام دشمن طاقتیں ان پر حملہ آور ہو رہی ہیں ۔ پوری باطل طاقتیں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف متحد ہیں اور مسلمانوں کے پاس نہ قوت ہے اور نہ افراد وسائل، اس کے ساتھ ٹکنالوجی کی کمی بھی ہے اگر اسلحے اور ساز و سامان کی بات کریں تو عالم اسلام دوسروں کے مقابلے میں صفر کے درجہ میں ہے ۔ دوسری طرف مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کا بھی فقدان ہے ہر شخص دیڑ اینٹھ کی الگ مسجد بنائے ہوئے ہے ۔ یہ کہیں برادریوں کے نام پر بٹے ہوئے ہیں تو کہیں خاندان اور علاقوں کے نام پر ،جماعتوں اور جمعیتوں کا اختلاف دیکھیں تو مسلمان اس میدان میں سب سے آگے نظر آئیں گے انہیں کسی کی امارت اور قیادت تسلیم نہیں ہر شخص خود امیر اور سردار بننے کے دوڑ میں ۔ ہم آپس میں ایک دوسرے متنفر اور شاکی جبکہ اسلام مخالف طاقتیں باہم متحد و متفق ، ایسے حالات میں بھلا ہم کیسے امید رکھیں کہ حالات سے ہم نبرد آزما ہو جائیں گے اور ہم سرخ رو اور کامیاب ہو جائیں گے ۔

باطل طاقتیں ہم کو اکسا رہی ہیں کہ ہم میدان میں مقابلے کے لئے کود جائیں ہم مشتعل ہو جائیں،بے برداشت ہو جائیں ،ہم سڑکوں پر نکل آئیں ، صبر کے دامن کو چھوڑ دیں اور وہ اپنی سازش میں کامیاب ہو جائیں ۔

اس لئے وقت کے نبض کو سمجھنا حالات کی رفتار پر نظر رکھنا صبر ،برداشت اور ضبط سے کام لینا آج کے حالات میں ہم مسلمانوں کے لئے انتہائی ضروری ہے ۔ اگر ہم بے برداشت ہوگئے ،صبر و ضبط کے دامن کو چھوڑ دیا تو فرقہ پرست طاقتیں اپنے مقصد اور منصوبے میں کامیاب ہوجائیں گی ۔

لہذا موجودہ حالات ہم مسلمانوں کو صبر و تحمل اور حکمت و دور اندیشی سے کام لینا چاہیے ۔ اپنا محاسبہ کرنا چاہیے ۔ اسلام کے ساتھ اپنے رشتے کو مضبوط کرنا چاہیے ۔ اپنی صفوں اور جماعتوں میں اتحاد پیدا کرنا چاہیے ۔ دعوتی اور تبلیغی کاموں میں اپنا وقت لگانا چاہیے ۔ بردارن وطن کی غلط فہمیوں کو دور کرنا چاہیے اور تعلیم و تربیت اور معیشت نیز ٹکنالوجی کے میدان میں ہم کو دوسروں کی برابری کرنی چاہیے اگر ہم ایسا کر لیتے ہیں تو بعید نہیں کہ کچھ سالوں اور دہیائیوں میں حالات کافی حد تک تبدیل ہو جائیں اور یہ مشکلات کم اور ختم ہو جائیں ۔

یہاں ہم صرف ایک نمونہ پیش کرتے ہیں آپ سب کو معلوم ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں امریکہ نے جاپان کے دو شہروں( ہیرو سیما اور ناگا ساکی) پر ایٹم بم گرائے اور وہ دونوں شہر تباہ ہوگئے ،جاپان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ۔ معیشت تباہ کر دی گئی، ہولناکی کا حال یہ تھا کہ بہت دنوں تک وہاں بچے اپاہج پیدا ہوتے رہے ۔ لیکن جاپان نے اپنے آپ کو سنبھالا اپنے ابتر حالات کو دیکھتے ہوئے جاپان نے تشدد و مقابلے کے راستے کو چھوڑ کر اپنا ذہن سائنس اور ٹکنالوجی کی طرف منتقل کیا ۔ یہ کام جاپان کے لوگوں نے بڑی حکمت اور خاموشی کے ساتھ کیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ سالوں بعد جاپان کا سامان عالمی مارکیٹ اور منڈی میں پھیل گیا ۔ میڈ ان جاپان کو شہرت مل گئ اور بہت جلد جاپان ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ہو گیا ۔ غور کیجئے اگر جاپان اپنی تباہی و بربادی کے انتقام میں لگ جاتا اور پر تشدد کاروائیاں انجام دیتا تو اس کے لئے اتنی ترقی کرنا آسان اور ممکن نہیں تھا ۔ کیا ان حالات میں ہم مسلمان جاپان کے لوگوں سے سبق نہیں نہیں سیکھ سکتے ؟

Comments are closed.