کہانی کن سے شروع ہوئی اور اسے فیکون کا انتظار ہے!

ڈاکٹر زین شمسی
کہانی کُن سے شروع ہوئی اور اسے فیکون کا انتظار ہے!دراصل کائنات ذروں سے نہیں قصوں سے بنی ہے اور یہ قصے اتنے گہرے اور سچے ہوتے ہیں کہ دنیا خود سراپا قصہ بن کر رہ گئی ہے۔ یہاں سب کی زندگی ایک کہانی ہے اور کہانی ہی زندگی ہے۔ایسی کہانی جو ہمیں کبھی تڑپاتی ہے ، کبھی رلاتی ہے کبھی ہنساتی ہے اور پھر ہمیں بہت کچھ سکھا جاتی ہے۔
سیکھنے اور سمجھنےکے سب سے بڑے وسیلے کو ہم کہانی کہتے ہیں جو سچ ہو کر بھی فسانہ ہے اور فسانہ ہو کر بھی سچ ہے۔انسان حقیقت اور فسانہ کےدائرے اوردام میں پھنسا کرمک بے نشاں ہے جو اپنےوجودو شناخت کی تلاش میں سرگرداں ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں۔
ہر دور کی اپنی ایک کہانی ہے اور ہر کہانی کا اپنا ایک دور ہے ، شکلیں بدل جاتی ہیں ، کردار تبدیل ہو جاتے ہیں ،لیکن موضوعات اپنی مکمل شکل و شباہت و ہیئت کے ساتھ ہر دور میں اسی طرح قائم رہتے ہیں جیسے وہ اپنےشروعاتی دور میں تھے۔ آخرکہانیوں کے موضوعات کیوں نہیں بدلتے ؟ کیوں قصہ در قصہ وہ ہمارے اعصاب اورخاص کر زندگی کے کینوس پر مسلسل غالب رہتے ہیں ۔ اس سوال کا جواب آج تک نہ ہی کہانی کار تلاش کر پائے اور نہ ہی کہانیوں پر تنقید کرنے والے نقاد۔ شاید ایسا اس لئے نہیں ہوسکا کہ جس طرح زندگی کی کج روی جاری و ساری ہے، اسی طرح کہانیوں کی بھی پیچیدگیاں قائم و دائم رہنے والی ہیں۔فرق یہ ہے کہ زندگیاں رک جاتی ہیں،لیکن کہانیاں تسلسل کے ساتھ چلتی رہتی ہیں۔؎
ادب میں گزشتہ نسلوں نے بھی کہانیوں کو بڑاکیا اور آج کی نسلیں بھی اس کی آبیاری کر رہی ہیں۔پہلے کی دنیا کے قصے آج کی دنیا والوں نے بغور سنے ہیں ۔اس سے سبق بھی حاصل کیا ہے اور کہیں نہ کہیں اسے رد کرنے کی جرات بھی کی ہے۔
سماج کے تغیر نے اگر قارئین کو پریشان کیا تو ادیبوں کو بھی حیران کر دیا ہے۔ آج کے کہانی کاروں نے نسل در نسل ہونے والے تغیرات کو اپنا موضوع بنایا تو ساتھ ہی ساتھ جنریشن گیپ کوبھی محسوس کیاہے۔گلوبلائزیشن کی وجہ سے اگر دنیا چھوٹی ہوگئی تو رشتوں کی دوریاں بڑی ہوگئی ہیں۔
سماجی بکھرائو اورصارفیت و مادیت پرستی کے اس دور نے کہانی کاروں کو دو بڑے موضوعات دئے۔ ایک توانسانی اقدار کاانحطاط ، دوسرا معاشی کشمکش میں مبتلا انسان کا نفسیاتی اضمحلال۔ آج کی کہانیاں انہیں دو موضوعات پر بھر پور ضرب کاری کرتی نظر آتی ہیں۔لیکن ساتھ ہی ساتھ ایک واضح تبدیلی نئی شکل میں سامنے آئی ہے اور وہ ہےجینڈرایکولیٹی۔ اردو کی کہانیوںمیں صنفی برابری کی آوازیں ہمیشہ اٹھتی رہی ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ جو نسائی حقوق کی صدائیں بلند ہوئیں،اسے مردوں نے زیادہ اٹھایا۔ڈپٹی نذیر احمد، راشدالخیری ،منٹو، بیدی ، مجاز، فیض، رسوا ،حیات اللہ انصاری ، اور نہ جانے کتنے افسانہ نگاروں ، شاعروں اور ناول نگاروں نے عورت کے درد و کرب کو صفحہ قرطاس پر بکھیرا ،وہیں رشید جہاں ، عصمت چغتائی، ، قرۃ العین حیدر کی آوازیں بھی سنائی دیں جو عورتوں کے داخلی جذبات و احساسات کا برملا اظہار تھیں ۔
چونکہ آج انفارمیشن ٹیکنالوجی کا زمانہ گزشتہ زمانہ کے مقابلے میں زیادہ جارح اور بے باک ہے اسی لئے آج کے زمانہ میں نسائی کردار وں کا المیہ ، نوحہ اور قصیدہ نسائی ادیبوں کے قلم سے زیادہ منصفانہ طور پر دنیا کے سامنے آرہا ہے۔عورتوں کی کہانیاں عورت ہی لکھے تو زیادہ بہتر ہے۔ آج کی عورتیں اپنی کہانیاں خوب لکھ رہی ہیں اور بڑے زوردار اور پر اثرانداز میں لکھ رہی ہیں ، بے خوف وبے خطر ہو کر لکھ رہی ہیں۔ انہیں صرف اس بات کا ملال نہیں ہے کہ وہ مردوں کے مقابلے میں کمزور واقع ہوئی ہیں ۔انہیں اس بات کا بھی احساس ہے کہ مردوں کے شانہ بشانہ ہونے کے باوجود انہیں اب بھی گھر کی چہاردیواریوں میں قید ایک سماجی غلام وخدمتگار اور خواہشات کی تکمیل کا آلہ ہی سمجھا جا رہا ہے۔ اپنی اس غلامی سے آزادی کے لئے وہ لڑ بھی رہی ہیں اور پدرسری نظام میں مساوی حقوق اور مقام حاصل کرنے کی جستجوبھی کر رہی ہیں۔
فرزانہ شمسی بھی طبقہ نسواں سے تعلق رکھتی ہیں۔ظاہر ہےوہ بھی اسی نظام کا حصہ رہی ہیں۔اس لئے ان کی کہانیوں میں بھی نسائی درد کا اظہار فطری ہے۔ان کی کہانیاں معاشرتی جبر، اخلاقی پسپائی ، سماجی بحران،معاشی فقدان اور نفسیاتی کشمکش کا ایک ایسا منظرنامہ ہے ، جس سے نہ صرف سماج بلکہ پوری دنیا دو چار ہے۔ وہ ادب کی دنیا میں یکایک روشن ہونے والا ستارہ ضرور ہیں ، لیکن ان کی کہانیاں پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انہوں نے زندگی کے تجربے کی بھٹی سے نکلی ہوئی کہانیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔’ انجامـ‘،’زندگی‘،’تلافی‘،’دستک‘،’پنجرہ‘ایسی کہانیاں ہیں جو زندگی کے جہد مسلسل اور کشمکش کا مکمل احتساب ہیں۔ ان کا انداز بیان الفاظ کے جنگل میں موضوعات کے بھٹک جانے جیسا نہیں ہے۔ انتہائی سادگی کے ساتھ انہوں نے انسانی سماج کے طول وعرض میں ہونے والے مدو جزر کو سامنے رکھا ہے۔ طوالت سے پرہیز کیا ہے ، کم لفظوں میں بڑے مسائل کی طرف اشارے کئےہیں۔ جملوں کی ساخت میں لسانی غلبہ کو نظر انداز کیا ہے۔ انتہائی شگفتگی کے ساتھ سماجی اور مذہبی مسائل پر انگشت نمائی کی ہے۔چونکہ اردو ادب میں ان کاورود تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح ہے۔اس لئےان کی تخلیقی ہنر مندی کی ستائش کے علاوہ ان سے ایک درخواست یہ بھی کرنا چاہوں گا کہ وہ کہانیوں کو کہانیاں ہی رہنے دیں ، انہیں پند ونصیحت کاپلندہ نہ بنائیں۔ ان کی کچھ کہانیاں اپنے اختتام کے بعد واعظ و ناصح ہونے کااحساس دلاتی ہیں ۔ اس امید کے ساتھ کہ وہ افسانہ کے فنی اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ادبی دنیا میں مضبوطی کے ساتھ اپنامقام حاصل کر لیں گی۔ ان کی پہلی کوشش کے طور پر ’احساس بیکراں‘ کی ادبی حلقہ میں پذیرائی کا متمنی…..
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.