Baseerat Online News Portal

آنکھیں خشک ہوگئی ظلم سہتے سہتے…..!

دانش کمال سرگم مسا دربھنگہ

منیجنگ ڈائریکٹر :اینگلو عربک اسکول میگھون مدہوبنی بہار 9708797027

 

جگہ جگہ مظلوموں کی آواز اور انکی چیخ و پکار نے دنیا کے رنگ و روپ کو نگلنا شروع کردیا ہے، ہر جگہ خوفناک منظر، خون میں ڈوبا ہوا ملک، اور کثیر تعداد میں شدت پسندوں کی جماعت اور انکے سروں پر ہمارے ملک کی سیاسی جماعتوں کا سایہ ملک کو پھر سے سو سال پیچھے ڈھکیل دیا ہے، ہمارے شہیدوں نے جس مقصد سے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تھا وہ دور دور تک نظر نہیں آ رہا ہے، اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے نوجوانوں کے اندر جوش و خروش کا مادہ پیدا کرنا ہوگا، دانشمندی کا مظاہرہ پیش کرنا ہوگا، تب جاکر ہمیں اورہماری نسلوں کوچین و سکون کی زندگی و دنیا کی تمام تر درندگی سے نجات ملے گی.

آخر کب تک ہم بے گناہوں کی لاشیں اٹھاتے رہینگے، ہماری رگوں میں خون کوئی معمولی خون نہیں، ہمارا دین کوئی معمولی دین نہیں، ہماری شریعت کوئی معمولی شریعت نہیں، نعوذبااللہ ہمارے نبی کوئی معمولی نبی نہیں، ہمارا قرآن کوئی معمولی قرآن نہیں تو پھر ہماری غیرت و جرآت مردہ کیوں ہوگئی؟ ہمارا دل پتھر کیوں ہوگیا؟ ذرا سوچو تو سہی آنے والا وقت اور کتنا بھیانک ہوگا؟

آج سے سو سال بعد جب ہماری تاریخ لکھی جائے گی تو اس طرح کے عنوان ہونگے کہ جب ساری دنیا اپنی زندگی تابناک بنارہی تھی، مسلمانوں کی مسجدیں مسمار کی جارہی تھیں، مظلوموں کا درد اور انکی پکار ساتوں آسمان چیر رہی تھی، فحاشی زناکاری عام ہورہی تھی، اسلام کا لباس تار تار ہورہا تھا، اذانوں پر پابندی لگائی جارہی تھی، جب دنیا کے غیر مذاہب قرآن سے فائدہ اٹھا رہے تھے، جب کھلے عام جے شری رام اور وندے ماترم کا نعرہ جبراً لگوایا جارہا تھا، جب گائے کشی کے نام پر خون بہایا جارہا تھا، جب لوگ چاند پر پہنچ رہے تھے، جب حق کی آواز اٹھانا بھی جرم ثابت ہورہا تھا، تب مسلمان فرقہ فرقہ کھیل رہا تھا، ایک دوسرے کو کافر کہ رہا تھا، اپنے بھائی کو دیکھ کر کالر اٹھا رہا تھا، مسجدیں ویران کررہا تھا، جلسوں میں تقریر و نعت خوانی کے نام پر ہزاروں ہزار روپیوں کی فرمائش کررہا تھا، اماموں کو حقیر سمجھ رہا تھا، تعلیم وتربیت کی رسی چھوڑ چکا تھا، غیبت و چغلی کو اپنی غذا سمجھ رہا تھا، قرآن صرف کسی کے مرنے پر قرآن خوانی کیلئے نکال رہا تھا، اپنی ہی جماعت کو نفرت کی ہوا میں جھونک رہا تھا، ایک پیالی چائے میں ایمان فروخت کررہا تھا، اپنے ہی بھائی کی ترقی اور عروج کو نا پسند کررہا تھا.

چلو اپنی قوم سےبزدلی کی چادر اتارتے ہیں، ایک پلیٹ فارم بناتے ہیں، دنیائے مظالم میں ایک تہلکہ برپا کرتے ہیں، ظالموں کی آنکھیں پھوڑ کر چیل کوؤں کو کھلاتے ہیں، بہت ہوگیا ظلم اب کھڑا ہونا وقت کی ضرورت ہے، گیدڑوں کے سو دن کی زندگی سے بہتر ہے شیر کے ایک دن کی زندگی سے، اب فیصلہ ہم لوگوں کے ہاتھوں میں ہے، ظلم سہتے سہتے آنکھیں بھی خشک ہوگئی ہیں، ایمان بھی کمزور ہوگیا ہے، ایمانی حلاوت کیلئے ہمیں اپنے بچے کا حال و مستقبل سدھارنا ہوگا، ہماری ذہنیت اتنی گندی ہوچکی ہے کہ اب شیطان بھی ہم سے سو قدم دور رہتا ہوگا، یاد کرو اپنے دوسرے خلیفہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کہ جس گلی سے ان کا گزر ہوتا، شیطان اس گلی سے نکلنے کی جرات نہیں کرتا، آج ہم اسی صحابہ کرام کی تعلیم و تربیت سے دور ہوکر ہالی وڈ، بالی وڈ جو کہ ہر اعتبار سے خسارے میں ہے اسی سے اپنا کلچر اور اپنا مستقبل تابناک بنانا چاہتے ہیں، یاد رکھو مسلمانوں! اگر ہم لوگوں نے بڑھتے جرائم پر اپنی چپی نہیں توڑی تو وہ دن دور نہیں جب نکاح کے خطبے کے بعد بغیر شدت پسند تنظیموں کی اجازت کے "لفظ قبول” ہے بھی بول نہ پائیں نماز روزہ تو دور کی بات……

 

قید کر کے تمام دردو غم

ظالم وقت کے یہاں رکھ دو

قوم کے رہنما اگر ہو تم

عصرِ حاضر کی داستاں رکھ دو

دانش کمال سرگم

Comments are closed.