Baseerat Online News Portal

پاکستانی حقائق قبول کریں!

 

نوائے بصیرت : شکیل رشید

ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز / سرپرست ایڈیٹر بصیرت آن لائن

ہندوستان کی تقسیم ، آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے او رمحمد علی جناح کی دور اندیشی پر گزشتہ ہفتے اس کالم میں چند باتیں لکھ دی تھیں، ایسی باتیں جو عام طور پر بٹوارہ کے موضوع پر گفتگو کے دوران کہی جاتی ہیں، مثلاً یہ کہ اگر محمد علی جناح دور اندیش ہوتے تو قیام پاکستان کےلیے زور نہ دیتے، جس کی وجہ سے ایک بہت بڑا ہندوستان ہوتا جس میں مسلمانوں کی تعداد اتنی ہوتی کہ ان کی باتوں اور ان کے مطالبات کو رد کرنا یا نہ ماننا آسان نہ ہوتا۔ اور یہ بات بھی کہ محمد علی جناح کے ساتھ پنڈت جواہر لعل نہرو ، سردار ولبھ بھائی پٹیل اور مہاتما گاندھی بھی تقسیم کی ذمے داری سے بچ نہیں سکتے، اگر ان قائدین نے سختی سے ملک کے بٹوارے کی مخالفت کی ہوتی تو ملک آج تین ٹکڑوں میں تقسیم نہ ہوا ہوتا۔

یہ وہ تاریخی حقائق ہیں جنہیں آج بھی بہت سارے لوگ قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں بالخصوص وہ جو قیام پاکستان کے نظرئیے کو، اس حقیقت کے باوجود بھی صحیح قرار دیتے ہیں، کہ یہ نظریہ قیام بنگلہ د یش کے بعد غلط ثابت ہوگیا ہے۔۔۔کالم نہ جانے کیوں پاکستانیوں سے ہضم نہیں ہوسکا۔۔۔ان کی طرف سے جو ردّ عمل آئے وہ افسوسناک تھے، ایسے ردّ عمل جو اپنے گریبانوں میں نہ جھانکنے کے سبب پیدا ہوتے ہیں۔

چند ردّ عمل ملاحظہ کریں:

٭ ہندوستان اگر تقسیم نہ ہوتا تب بھی مسلمان اقلیت میں رہتے۔ جمہوریت کے کھیل میں اقلیت کی کیا حیثیت ہے۔ دوسری بات پاکستان میں علاحدگی کی کوئی تحریک سرے سے ہے ہی نہیں، بدامنی کا جو نقشہ آپ نے کھینچا ہے یہ صرف سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر ہے اس میں کوئی حقیقت نہیں (کوثر اسلام)

٭ ان شاء اللہ جب بھی موقع ملا رب پاک کی مدد سے مندروں کی گھنٹیاں ہمیشہ کےلیے خاموش کروادیں گے اور ہندو مت جیسی غلاظت سے برصغیر صاف ہوجائے گا( عدیل احمد جنجوعہ)

٭دنیا میں سب سے بے وقوف وہ ہندوستانی مسلمان ہیں جو سمجھتے ہیں کہ وہ اور ہندو ایک قوم ہیں، اور وہ پرامن طور پر رہ سکتے ہیں۔ کافر اور مسلمان دو علاحدہ قومیں ہیں جیسا کہ قرآن مجید کا بھی یہی فیصلہ ہے( نعیم مسعود)

شکست خوردہ، فریب خوردہ اور تنگ ذہنیت رکھنے والےڈھیروں ردّ عمل میں سے یہ بس چند ردّ عمل ہیں( میں سب ہی پاکستانیوں کو الزام نہیں دے رہا ہوں) کیا واقعی بلوچستان میں جاری شورش کی خبر سنی سنائی ہے، حقیقت نہیں؟ ابھی دور وز قبل ہی کوئٹہ کی مسجد میں بم دھماکہ ہوا ہے۔ اس کے جواب میں کہہ دیاجائے گا کہ یہ ہندوستانیو ںنے کیا ہے۔ یہ ریت میں منہ چھپانا ہے؛ یہ اس حقیقت سے نظر چرانا ہے کہ بلوچیوں کا استحصال کیا جارہا ہے، انہیں ان کے حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے۔ اور یاد رہے کہ جب بنگالی اپنے حقوق سے محروم ہوئے، جب الیکشن جیت کر بھی وہ ہارے ہوئے ٹھہرائے گئے، تب ہی بنگلہ دیش کے قیام کی بنیاد پڑی تھی۔ لہذا کسی کے بھی استحصال سے بچا جائے اور کسی کو بھی حقوق سے محروم نہ رکھاجائے ، اسی میں امن وچین اور عافیت ہے اور ایک اچھے حکمراں کی یہی پہچان ہے۔ اور رہے ہندوستانی مسلمان تو وہ ہر طرح کے حالات میں اپنے وطن میں خوش ہیں، کم از کم یہاں مسجدوں، درگاہوں، مزاروں پر یا مجلسوں میں دھماکے تو نہیں ہوتے!! اوریہ کیسا خواب ہے کہ ’’مندروں کی گھنٹیاں ہمیشہ کےلیے خاموش کروادیں گے‘‘! اسلام دوسری عبادت گاہوں کا احترام سکھاتا ہے لیکن جو اپنی ہی عبادت گاہوں کو تاراج کرتے پھرتے ہوں وہ دوسروں کی عبادت گاہوں کی کیا قدر کریں گے۔۔۔مسلمان ہونے کے ناطے ساری دنیا کے مسلمان بشمول پاکستانی، ایک دوسرے کے بھائی ہیں لیکن افسوس کہ پاکستانی دنیا کے دوسرے مسلمانوں کو بھائی سمجھنے سے انکار کرتے ہیں۔ قصور ان کا نہیں ان کی قیادت کا ہے جس نے اسی طرح ہندوستان کا ہوّادے کر ان کا سیاسی استحصال کیا ہے جیسے کہ ہندوستان میں بی جے پی پاکستان کا ہوّا دکھا کرعوام کا سیاسی استحصال کررہی ہے۔ عیش میں ڈوبے حکمراں ، ایسے حکمراں جن کے محل میں ایک شب گزارکر ’ترانہ‘ ’قومی ترانہ ‘بن جاتی ہے۔ جو جائیدادوں کےلیے اپنی، بیٹوں کی شادیاںقرآن سے کرکے بھی سید بنے پھرتے ہیں، جنہوں نے غلاموں کے باڑے بنوارکھے ہیں او رجن کے یہاں طوائفیں عریاں رقص کرتی ہیں۔ بھلا یہ اسلام کیاجانیں، یا انہیں اسلام سے کیا لینا دینا۔ اب بھی وقت ہے کہ حقائق قبول کریں کہ سچ ہی میں امن اور چین ہے۔

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.