ارتداد سے حفاظت کی تدبیریں( آخری قسط)

 

بقلم:
مفتی محمد اشرف قاسمی

عالم ہمہ ویرانہ زچنگیزئ افرنگ
معمارحرم باز بہ تعمیر جہاں خیز

فتنوں کے دور میں مسائل میں اختلاف ہو

فتنوں کے دور میں مسائل میں اختلاف کی شکل سامنے آے تو قرآن وسنت کی روشنی میں فریقین کے درمیان مصالحت اور مرافقت کی کو ششیں کرنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے جو فریق مصا لحت سے گریز کرے وہ قابل ملا مت اور لائق تادیب ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فتنوں کے زما نے میں فتنوں سے حفاظت اور ان کے انسداد کا ایک اہم عمل یہ بتلا یا کہ اصحاب حل وعقد مسلمان متحارب گروپوں کو فہما ئش کریں ؛اگر دونوں فریق بات مان لیتے ہیں تو ٹھیک ہے اور اگر کوئی فریق انکار کرے تو جو فریق مصالحت کے لیے نہ تیار ہو اس سے جنگ کی جائے۔ زیر بحث موضوع سے متعلق روایت حدیث کا اصل جزوء اس طرح ہے
” ۔۔۔۔ یا ابا عبد الرحمن الا تسمع ما ذکر اللّٰہ ُ فی کتا بہ وان طائفتان من االمؤمنین اقتتلوا فاصلحوا بینھما فان بغت احداھما علی الاخری فقاتلو االتی تبغی حتی تفیء الی امراللّٰہ(سورۃ الحجرات آ یۃ۹؍)
وقاتلوا ھم حتی لا تکون فتنۃ (سورۃ البقرۃ آ یۃ۱۹)
فَعَلنَا علی عھد رسول اللہ ﷺ۔( بخاری برقم الحدیث۴۵۱۴؍)
۔ ۔۔ اے ابو عبد الرحمن! کتاب اللہ میں جو اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا، آ پ کو کیا وہ معلوم نہیں؟ کہ : ’مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں جنگ کریں تو ان میں صلح کراؤ۔
‘اللہ تعالی کا ارشاد
اِلٰی اَمْرِ اللّٰہ تک۔
اور اللہ تعالی کا ارشاد کہ :
ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فساد باقی نہ رہے۔
حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ فتنوں کو روکنے کے لیے ہم رسول اللہﷺ کے دور میں ایسا ہی کرتے تھے۔‘‘( بخا ری حدیث نمبر۴۵۱۴؍)
محولہ با لاسطور سے درج ذیل چار باتیں بتا نامقصود ہے ۔
۱۔ کوئی بھی شخص حدیث کے عنوان سے کوئی بات بیان کرے تو صرف حدیث کے عنوان کی وجہ سے اُسے ماننا ہدایت نہیں ہے، بلکہ بیان کرنے والے اور اس کے اوپر جو رواۃ ہیں ان کی ایما نداری اور دینداری کے بارے میں تحقیق کے بعد ہی اس کی بیان کردہ بات قابل قبول اور سبب ہدایت ہو گی۔حدیث کے نام سے کوئی بات بیان کرنے والا حدیث کے بارے علم نہیں رکھتا ہے، یا اس کے اند دین داری نہیں ہے تو پھر اس کی بات ماننا فتنے میں مبتلاء ہو نے کا سبب ہو گا۔ یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ’’ علا مہ گوگل ‘‘سے حدیثیں سرچ کرنا، یا علماء کے بجائے ڈاکٹر ،ماسٹر ،پینٹر ،پلمبر، کنڈکٹر ،چنٹو، پنٹوسے اردو ہندی میں حدیثیں لینا نادانی ہے ۔یعنی حدیث پر عمل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حدیث کے جا نکا ر دین دار علماء کی ہی تحقیق اور تشریح قبول کی جائے؛ورنہ حدیث کے نام پر چلا ئی جانے والی باتوں سے ہم گمرا ہ ہو سکتے ہیں ۔
۲۔ مسلمانوں میں قر آ ن وسنت کے مطابق کوئی معمول چل رہا ہو تو ہمیں اسی کے مطابق عمل کرناچاہئے ، اس سلسلے میں دین دار حاکم وقت جس طرح عمل کرتا ہے عام لوگوں کو ویسے ہی عمل کرنا ہدا یت ہے ، یعنی فتنوں کے دور میں عام مسلمانوں کے درمیان متوارث ومروج اعمال اور دین دار علماء کی تقلید فتنے سے بچاؤ کا سبب ہے ، جیسا کہ عاصم احوال کی روایت کو امام مسلمؒ نے نقل کیا ۔ فتنوں کے اس دور میں ا ئمہ اربعہ کی تقلید ہوتی ہے ، یہ تقلید فتنوں سے حفا ظت کا ذریعہ ہے ،نہ کہ شرک ۔
اور اگر فتنوں کے دور میں ہم علماء امت کی تحقیق وتعامل پر اعتمادنہ کریں تو فتنوں میں مبتلاء ہو جا نے کا قوی امکان ہے جیسا کہ غیر مقلدین کو کسی کی تحقیق اور تعامل پر اعتماد نہیں ہے۔اسی لیے وہ جماعت ہر فتنے کا پھاٹک بنی ہو ئی ہے ۔
۳۔ اختلافات اور فتنوں کے دور میں اختلافات اور فتنوں کو فرو کرنا اصحابِ حل وعقد مسلمانون کی ذمہ داری ہے ، مختلف فیہ مسائل واحکام میں جہاں امت میں انتشار ہورہا ہو ، اور مزید کسی گروہ اور فرقے کا اضا فہ کرنے کے لیے اتفاق کے عنوان سے عام مسلمانوں کو اعمال متواترہ ومتوارثہ سے ہٹا یاجا رہا ہو تودونوں فریق کے علماء کو آ منے سامنے بیٹھا کر بحث و مباحثہ کے ذریعہ شریعت کا صحیح حکم منقح کرایا جائے اور کوئی فریق اس طرح کی میٹنگ سے سر کشی کرے تو فورا سمجھ لینا چا ہئے اس کا نصب العین دین نہیں بلکہ دین کے عنوان سے بد دینی کی اشاعت ہے؛اس لیے فتنوں سے حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ مذاکرہ کے لیے تیار نہ ہو نے وا لی جماعت سے معاشرتی مقاطعہ کرکے اس کی تحریک پر روک لگائی جائے ۔ عموما باطل جماعتیں عام مسلمانوں کے سامنے خوب حدیث حدیث کی گردان کرتی ہیں ، لیکن دلائل کے ساتھ مسئلوں کے جانکار علمائے حق کے سامنے ان کے منہ پر تالے پڑ جاتے ہیں ۔
۴۔ چوتھی بات یہ کہ قر آ ن وحدیث سمجھنے کے لیے قر آ ن وحدیث کے جانکا ر دین دار علماء کی تقلید شرک نہیں ہے، بلکہ فتنوں سے بچاؤ کاذریعہ اور ہدایت کا سبب ہے ؛ جیسا کہ اوپر مندرج احا دیث اورخوارج کے بیان میں قرآ ن کی نصوص کی روشنی میں حضرت ابن عباس ؓ کی تقریر میں تفصیل آ چکی ۔
تبلیغی جما عت کی بر کت سے عام مسلمانوں کے دلوں میں قرآن وحدیث کی عظمت پیدا ہوجاتی ہے ، اس لیے بالعموم تبلیغی جماعت سے منسلک متحرک علماء کی اطاعت کو ذریعہ نجات یقین کرتے ہو ئے رفقاء جما عت ( جماعت میں وقت لگائے ہو ئے عام مسلمان) اُن علماء کی ہر بات کو آ نکھیں بند کرکے تسلیم کرلیتے ہیں۔اسی لیے دوسرے گمراہ فرقوں کے ’’ذی استعداد کھلاڑی‘‘ تبلیغی جماعت میں گھس کر عوام میں اپنا اثر ونفوذ قائم کر کے علماء حق کے خلا ف محاذ آرائی میں کا میاب ہو رہے ہیں ۔ لہذااس وقت عوام اور علماء حق کے درمیان پیدا کیے جا رہے خلیج کو ختم کرنے کا ایک راستہ یہ بھی ہے کہ جما عت میں وقت لگانے کے لیے ملت کے اثریاء واغنیاء خاص طور پر علماء کے لیے سہولیات فراہم کریں ۔ ذی استعد علماء اگر جماعت میں وقت لگائیں گے تو اس سے تبلیغی جماعت کی گمرا ہی میں اضا فہ نہیں ہو گا؛ بلکہ گمراہ فرقوں نے تبلیغی جماعت کو جواپنی چراگاہ بنارکھا ہے، اس کی روک تھام کے ساتھ ہی فتنوں کے خلاف کام کرنے کے لیے علماء حق کو عام مسلمانوں سے عملہ فراہم ہو گا۔

*خلاصہ کلام یہ ہے کہ:*

۱۔چوں کہ عموما تمام فتنے علماء سے دوری کے نتیجے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔اس لیی علماء اورعوام میں قربت قائم کرنے کی ہر ممکن کو شش کی جائے ۔جس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ علمائے حق کو تبلیغی جماعت میں وقت لگانے کے وسائل اور ذرائع پیدا کیے جائیں ۔
۲۔ فتنوں کے دورمیں فتنوں سے حفاظت کے لیے دین دار علماء کے رابطے میں رہنا اور ان کی تقلید کرنا، اور دینی معاملا ت میں ان کا ہرطرح تعاون کرنا ضروری ہے۔
۳۔ امت میں متواتر اور متوارث اعمال کے خلاف کوئی شخص مسئلہ مسائل بتا ئے ؛تو ایسے شخص کو متوارث اعمال کی تعلیم دینے والے علماء کے سامنے حاضر کرکے مسئلہ کو منقح کرایا جائے۔ خاص طور پرنئے انداز کے مسائل بتا نے والے علماء کو ہر حال میں بحث ومباحثہ کے لیے آ مادہ اور مجبور کیا جائے۔
۴۔ متوارث مسائل اور احکام کے خلاف نئے انداز کے مسائل بتانے والے علماء اگر کتب احا دیث کو سامنے رکھ کر قدیم خیال کے علماء سے بالمشافہہ مبا حثہ اور غور وفکر کے لیے نہ تیار ہوں ، توان کا مقاطعہ اورتادیب کے ذریعہ ان کے اثر ورسوخ سے ملت کو بچانے کی فکر کی جائے۔

کتبہ : محمد اشرف قا سمی
خا دم الا فتاء شہر مہد پور
ضلع اجین ایم پی
[email protected]

مستقل پتہ: قاسمی منزل ؍پلاٹ نمبر26 ؍طہورا کالونی؍ عیدگاہ روڈ؍پن کوڈ456443.
شہر مہد پور ،ضلع اجین
(ایم پی)
E.mail: [email protected] m

Comments are closed.