راج ٹھاکرے کو ای ڈی کا نوٹس: شیر کے منہ میں ہاتھ!

تجزیہ ٔخبر: شکیل رشید
انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) حکمرانوں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی ہو یا نہ ہو پر جس طرح سے ای ڈی ایک کے بعد ایک اُن سیاست دانوں کو ’نوٹسیں‘ دے رہی ہے، جو مودی کی مرکزی سرکار کے سخت ناقد ہیں، اس سے حزب مخالف کے اس الزام کو تقویت ملتی ہے کہ ’ای ڈی کا استعمال سیاسی انتقام‘ کےلیے کیا جارہا ہے۔ تازہ ترین معاملہ راج ٹھاکرے کا ہے۔ راج ٹھاکرے ’مہاراشٹر نونرمان سینا (منسے) کے سربراہ ہیں ۔ اور نریندر مودی اور ان کی سرکار کے سخت ناقد۔ یہ راج ٹھاکرے ہی تھے جنہو ںنے ۲۰۱۹ کے لوک سبھا الیکشن سے قبل مہاراشٹر بھر میں ’مودی مخالف جلسے‘ لے کر مرکزی سرکار کی ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کے نعرے کی قلعی کھولنے کا کام کیا تھا۔ اور یہ عیاں کیا تھا کہ ۲۰۱۴ میں نریندر مودی اور ان کی سرکار نے جو وعدہ کیے تھے وہ وفا نہیں ہوئے۔۔۔ اور اب راج ٹھاکرے ایک اہم مہم چھیڑے ہوئے ہیں۔ ای وی ایم کے خلاف۔ اسے مہم نہیں بلکہ اگر تحریک کہاجائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ راج ٹھاکرے ایک طرح سے ای وی ایم کے ذریعہ الیکشن کے خلاف پورے اپوزیشن کو جوڑنے میں لگے ہوئے ہیں اور اس میں وہ کامیاب بھی ثابت ہورہے ہیں۔ ان کی او رمغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کی۔۔۔جو بذات خود مودی کی سخت ترین ناقد ہیں ۔۔۔ملاقات سیاسی حلقوں ہی نہیں عوام میں بھی اب تک موضوع گفتگو ہے، ایسا سمجھا جاتا ہے کہ اس ملاقات میں ای وی ایم کے خلاف کوئی مثبت لا ئحہ عمل طے پایا ہے۔ تو یہ راج ٹھاکرے جو ان دنوں مودی سرکار اور ای وی ایم کے خلاف تحریک چھیڑے ہوئے ہیں ای ڈی کے راڈار پر آگئے ہیں!
کانگریس اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) نے ای ڈی نوٹس کو ’انتقامی‘ کارروائی قرار دیا ہے۔ او ریہ کوئی پہلا موقعہ نہیں ہے جب اپوزیشن کی طرف سے ای ڈی کے ’سیاسی استعمال‘ کا الزام عائد کیاگیا ہے۔
الزام تو یہ بھی لگ رہا ہے کہ مرکزی سرکار اور بی جے پی کی ریاستی سرکاریں اپوزیشن کو کمزور کرنے کےلیے ای ڈی ، انکم ٹیکس ، سی بی آئی اور دیگر ایجنسیوں کا استعمال کررہی ہیں۔ حالیہ دنوں میں کانگریس او راین سی پی سے سینئر سیاست دانوں کی بی جے پی میں شمولیت کی جو ہوڑ لگی ہے اسے بھی ای ڈی کا ہی کمال کہاجارہا ہے۔ مہاراشٹر کے این سی پی کے ایک مسلم لیڈر حسن مشرف نے تو آن دی ریکارڈ یہ کہا ہے کہ ان سے رابطہ کرکے انہیں بی جے پی میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی اور جب انہوں نے یہ دعوت ٹھکرائی تو ان کے خلاف محکمہ انکم ٹیکس کو لگادیاگیا۔ حسن مشرف پر چھاپہ پڑا مگر وہ گنیش نائیک، سندیپ نائیک اور کانگریس کے وکھے پاٹل کی طرح بی جے پی میں شامل نہیں ہوئے۔
’منسے‘ کا کہنا ہے کہ ای ڈی کی نوٹس کو اس لیے ’انتقامی کارروائی‘ کہاجارہا ہے کہ کوہِ نور مل کی خریداری کے سلسلے میں راج ٹھاکرے کو جونوٹس دی گئی ہے وہ بہت پرانا معاملہ ہے اور راج ٹھاکرے ۲۰۰۸ ہی میںاس خریداری سے علاحدہ ہوگئے تھے، لہذا خریداری کے معاملے میں ان پر بے ضابطگی کا الزام لگا کرتفتیش بلانا سوائے ’انتقامی کارروائی‘ کے کچھ نہیں ہے۔ ’منسے‘ نے اس سلسلے میں جو پریس کانفرنس لی ہے اس میں اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ ساری کارروائی صرف اس لیے ہے کہ راج ٹھاکرے نے مودی اور امیت شاہ کی غلط پالیسیوں کی مخالفت کی ہے۔ کانگریس اور این سی پی نے اس معاملے میں راج ٹھاکرے کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا ہے۔ این سی پی اور کانگریس کے کئی سیاست داں بی جے پی میں شامل ہوئے ہیں، بلکہ اب بھی اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے لیڈروں کا بی جے پی میں جانے کا سلسلہ تھما نہیں ہے۔ این سی پی اور کانگریس کے قائدین کا یہ ماننا ہے کہ مودی سرکار اور بی جے پی کے ذریعے یہ اپوزیشن کو ختم کرنے کی کوشش ہے۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس کوشش کے خلاف نہ ہی تو کانگریس نے کوئی مزاحمت کی ہے اور نہ ہی این سی پی نے، لیکن سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ ’منسے‘ کا معاملہ کانگریس اور این سی پی سے الگ ہے۔ یہ ایک ایسی سیاسی پارٹی ہے جو ’ردّعمل کی سیاست‘ پر یقین رکھتی ہے۔ راج ٹھاکرے کو ۲۲ اگست کے روز ای ڈی کے سامنے حاضر ہونا ہے او رابھی سے ’منسے‘ نے اس روز تھانے او رپالگھر بند کا اعلان کردیا ہے۔ نیز یہ انتباہ بھی دیا ہے کہ اگر راج ٹھاکرے کو ہراساں کرنے کی کوشش بند نہ کی گئی تو شدید ترین تحریک چلائی جائے گی۔ اگر یہ کہا جائے کہ بی جے پی کی مرکزی اور ریاستی سرکار نے راج ٹھاکرے کو نوٹس دے کر شیر کے منہ میں ہاتھ ڈال دیا ہے تو شاید غلط نہ ہو۔

Comments are closed.