موجودہ حالات اور شیطانی چالیں( قسط 1)

از قلم : مونس قاسمی لہرپوری خادم مدرسہ عالیہ عربیہ مدینة العلوم اندرا نگر
ملک کے حالات اس قدر سراسیمگی کی آماج گاہ بنے ہوے ہیں کہ خوف و ہراس اور بد امنی کی وجہ سے انسانی زندگی بوجھل سی ہے، ہر طرف دلوں میں دہشت اور ڈر پایا جا رہا ھے اب تو نوبت یہاں تک آ پہونچی ھے کہ مسلم نوجوان سفر کرتے ہوے خود کو غیر محفوظ محسوس کرتا ھے استبداد وجبر کی داستان چہار سو پہیلی ہوئی ہے، ظلم وبربریت کا ننگا ناچ کھلی آنکھوں مشاہدہ میں آ رہا ہے ،آتش کدہ ظلم کا ایندھن لکڑیاں اور پتھر نہیں بلکہ بے گناہ اور معصوم مسلم نوجوان کا جسم بن چکا ھے
مسلمان کا خون اتنا سستا ہو گیا ھے کہ جو چاہےاور جب چاہے جہاں چاہے بہا دیتا ھے کبھی ہجومی تشدد، تو کبھی منصوبہ بند سازشوں کے تحت مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ لئے جاتے ہیں ،اور کبھی مذہب کے نام پر مشق ستم بنایا جاتا ھے ـ
غرض مسلمانوں کو ملک عزیز میں مختلف قسم کے سنگین حالات کا سامنا ہے، ملک عزیز ہی کی کیا تخصیص جہاں کہیں بھی مسلمان آباد ہیں وہاں فرقہ واریت اپنی جڑوں کو اس حد تک مضبوط کر چکی ہے کہ حکومتی طور پر اس خطرناک وسنگین جرم کرنے والے کی بر موقع گرفت بھی عمل میں نہیں آتی بلکہ حکومت تماشائی بنی رہتی ھے،
ایسے دلخراش اور ناگفتہ بہ حالات میں بحیثیت مسلمان ہونے کے ہر مسلمان یہ سوچنے پر مجبور ھے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے،
وہ کون سے اقدامات ہیں جو ہمیں خوف وہراس کی دلدل سے نکال سکتے ہیں؟
وہ کون سی تدابیر ہیں جو بـے جان جسم میں روح پہونک سکتی ہیں؟
ایسا کیا لائحہ عمل ہونا چاہئےجو حیاتِ مستعار کو بلند حوصلگی اور ہمت دے سکتا ھے؟
تو آئیے ہم قرآن کریم سے سبق لیتے ہیں اور اسے اپنے لئےمشعل راہ بناتے ہیں.
یہ بات یاد رہے کہ شیطان لعین ایمان والوں کا کھلا دشمن ھے یہ اور اس کے گروہ کا اولین مقصد ہی مسلمانوں کو دولت ِ ایمانی سے بالکلیہ محروم کر دینا ھے..
اگر اس میں کامیابی نہ ملے تو کم از کم شرک کی دلدل میں ایسا پھنسانا کہ بس ظاہر مسلمان کہا جاے اور نورِ ایمان سلب کرکے ضلالت اور خرافات کی راہ پر چھوڑ دیا جاے کی براے نام موحد بولا جاے اور توحید سے وابستگی رہ جاے اور احکامات الہیہ تعلیماے نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا رشتہ ختم کر دیا جاے کہ پہر نہ دعا کام آئیں اور نہ دوا، ایمانی تقاضوں سے منھ چرا لیا جاے-
دجل، فریب، مکر کو شیوہ بنا لیا جاے –
اب ذرا اس بات پر غور کرتے ہیں کہ شیطان ہمارے ایمان میں کمزوری کیسے پیدا کر رہا ھے
شیطانی چال سمجھنے سے پہلے یہ سمجھنا لابدی ھے کہ توحیدانہ تقاضے کیا کیا ہیں
تو آئیے مختصراً اسکو قرآنی تعلیمات کی روشنی میں دیکھتے ہیں
کہ مسلمان کو کیسا عقیدہ توحید رکھنا ضروری ھے؟
قرآن کریم میں اللہ رب العزت والجلال نے فرمایا
*وان يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ۚ يُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ*سورہ یونس آیت ۱۰۷
کہ نفع اور نقصان کا مالک فقط ذات باری تعالی ھے
۲…اسی طرح سورہ غافر آیت ۶۸ میں فرمایا گیا ھے
*هُوَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ فَإِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ*
کہ.موت وحیات اسی کے قبضہ قدرت میں ھے
سورہ منافقون آیت نمبر ۱۱میں موت کے وقت کا مقرر ہونا بتایا گیا ھے
*وَلَن يُؤَخِّرَ اللَّهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا ۚ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ*
کہ موت کا ایک وقت مقرر ھے نہ اس سے پہلے آ سکتی ھے اور نہ اسکے بعد بلکہ جب حکم خداوندی آجاے گا پہر چلنا ہوگا
۳..اسی طرح اللہ تعالی نے بہت سی جگہوں پر ایمان والوں سے ایک بنیادی چیز کا مطالبہ کیا ھے
جن میں سے سورہ بقرہ کی آیت کا ایک ٹکڑا ھے کہ جو بندہ کو ما سوی اللہ کے خوف سے باز رہنے کا مطالبہ کر رہی ھے
*وإِيّايَ فَارْهَبُوْن*
کہ مخلوقات میں خواہ کوئی کتنا ہی قوی اور طاقتور اور مادیات کا مالک کیوں نہ ہو لیکن موحد حقیقی فقط اللہ ہی کا خوف رکھتا ھے. اور خوف خلق کو دل میں ذرہ برابر بھی جگہ نہیں دیتا
۴..اسی طرح توحیدی انوار سے معمور قلب میں مخلوق پر نظریں جمانے کے بجاے مالک الملک کی قدرت کاملہ پر بھروسہ کرنے کا ایسا مطالبہ ھے کہ جسے اپنانے کے بعد بندہ بـے خوف ہوکر اللہ کے احکامات کو نہایت سکون واطمنان کے ساتھ ادا کر سکتا ھے
فرمایا گیا
*وَتَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ*
یہ اور ان جیسی آیات کا تقاضہ یہ ھے کہ مومن مسلمان کی شان توکل،
قلب ونظر خوف خداوندی سے لبریز،
مخلوق کو لاچار وکمزور سمجھنا کہ کسی کے بس کہ بات نہیں کہ مجھے ذرہ برابر بھی تکلیف پہونچا سکے ..یہ تھا وہ ایمانی تقاضہ اور وہ ایمانی دولت جسے کمزور کرنے کے لئے شیطان نے ایسی باریک چالیں چلیں کہ ہمارا عقیدہ توحید بھی متزلزل ہوا اور کلمہ طیب کے تقاضوں سے ہماری نظریں بھی ہٹا دی گئیں
اور اس کام کے لئے شیطان نے توحید کی اس دولت عظمی پر کاری ضرب لگاتے ہوے ایسے حالات برپا کرواے کہ مسلمانوں کے قلوب سے خوف خدا نکل گیا اور مادیات و مخلوق کا خوف ہمارے دلوں میں بیٹھ گیا اور وہ اس کام میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوا
قرآن کریم نے اس مسئلہ کو نہایت واضح الفاظ میں بیان کیا ھے
سورہ آل عمران میں آیت ۱۷۵ میں ھے
إِنَّمَا ذَٰلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
یہ خوف وہراس کا ماحول برپا کرنے میں شیطان تم کو اپنے اولیاء یعنی وہ لوگ جو جادہ مستقیم سے منحرف ہیں سے ڈر میں مبتلا کرتا ھے تو میرے بندوں تمہیں اس شیطان اور اسکے چیلے چاپڑ سے خوف کھانے کی بالکل ضروت نہیں ھے بلکہ مجھ سے ڈرو ـ
اس آیت کا پس منظر نہایت حساس ھے
اور موجودہ حالات کے تناظر میں بالکل واضح رہنمائی موجود ہے
اسلئے اسکا خلاصہ اور تقاضہ اگلی قسط میں پڑھیں
بروز ہفتہ بوقت ۱۱:۳۸ سن ۲۰۱۹ مطابق ۸ ذی الحجہ ہجر۱۴۴۰
جاری…….
Comments are closed.