Baseerat Online News Portal

جیٹلی ملک کے لیے بہت کام کرسکتے تھے!

 

نوائے بصیرت : شکیل رشید

ارون جیٹلی نہیں رہے!

یوں تو جب انہوں نے نریندر مودی کی نئی سرکار میں کسی وزارت کو لینے سے انکار کردیا تھا تب ہی یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ کسی ناقابل علاج بیماری میں مبتلا ہیں اس لیے اب کوئی ذمہ داری اپنے سر لینا نہیں چاہتے۔ وہ کئی بار علاج کےلیے بیرون ممالک جاچکے تھے اور ان کی صحت بھی کافی گر گئی تھی۔ انہیں دیکھ کر افسوس ہوتا تھا کہ ایک بے حد تیز وطرار اور صحت مند انسان کس طرح سے ’بجھ‘ گیا ہے۔ ارون جیٹلی صحیح معنوں میں تیز وطرار اور ذہین انسان تھے۔ طلبہ لیڈر کی حیثیت سے، ایک وکیل کی حیثیت سے اور پھر قومی سطح کے ایک سیاست داں اور مختلف سرکاروں میں مختلف وزارتوں کے سربراہ کی حیثیت سے ارون جیٹلی نے جوکام کیے، خوب کیے۔ وہ چار دہائیوں تک ہندوستان کی سیاست پر چھائے رہے۔ لیکن اگر کوئی مجھ سے یہ دریافت کرے کہ ان کااہم ترین کارنامہ کیا تھا تو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے میں یہ کہدوں گا کہ ’مودی سرکار کو سہارا دینا‘۔ ۲۰۱۴ میں جب نریندر مودی وزیر اعظم بنے تھے تب ان کی جیت او ربعد میں ان کی حکومت کی کامیابی میں جو نام سب کی زبان پر آتا تھا وہ امیت شاہ کا تھا لیکن ارون جیٹلی اگر مودی کے پیچھے نہ ہوتے تو شاید امیت شاہ، مودی سرکار کو مستحکم نہ کرسکتے تھے۔ وہ صحیح معنوں میں بی جے پی او رمودی کےلیے ’تھنک ٹینک‘ اور ’مرد بحران‘ تھے۔ کانگریس کےلیڈروں ، بالخصوص راہل گاندھی کے ذریعے رافیل معاملے میں مودی کو نشانے پر لیاجانا سب کو یاد ہے، اور سب کو یہ بھی یاد ہے کہ یہ ارون جیٹلی ہی تھے جو ایوان میں کانگریس کے سوال کا جواب اس طرح سے دیتے تھے کہ عام لوگوں کے ذہنوں میں اگر مودی اور ان کی سرکار کے بارے میں کسی طرح کا شک وشبہ بھی پیدا ہوتا تھا تو وہ صاف ہوجاتا تھا۔ ایک نہیں نہ جانے کتنے مواقع ایسے آئے جب جیٹلی نے تن تنہا ایوان میں متحدہ اپوزیشن کا سامنا کرکے مودی سرکار کا دفاع کیا۔

جیٹلی کی زندگی پر جب بھی نظر ڈالتا ہوں تو اس سوال پر ضرور غور کرتا ہو ںکہ ایمرجنسی کے دور میں لوک نائیک جے پرکاش نارائن کے ساتھ جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہنے او ر طلبہ ونوجوانوں کے لیے شری نارائن کی نیشنل کمیٹی کے کنوینر کے طو رپر خدمات انجام دینے کے باوجودہ وہ کیوں سوشلسٹ نظریات کے اثر میں نہیں آئے؟ جیل سے رہا ہونے کے بعد انہوں نے جن سنگھ یعنی آر ایس ایس کی رکنیت حاصل کرلی تھی۔ جے پرکاش نارائن جیسا سوشلسٹ اور سیکولر لیڈر بھی جیٹلی کو نہیں بدل سکا تھا!

شاید بچپن ہی سے ان کے ذہن کو ایک مخصوص نظریے کے تحت ڈھالا گیا تھا؟ وہ بی جے پی کی طلبہ یونین ’اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد ‘ کے سرگرم لیڈر تھے، ممکن ہے کہ انہیں سوشلسٹوں کے مقابلے ’بھگوائیوں‘ کی سرگرمیاں زیادہ بھائی ہوں، اور انہیں یہ لگا ہو کہ ’بھگوائی‘ ہی ملک کی باگ وڈور سنبھالنے کے زیادہ اہل ہیں؟ وجہ جو بھی رہی ہو، بی جے پی نے انتہائی ذہین جیٹلی کو ایک ایسے رنگ میں رنگ دیا تھا جو ملک کے ’کثرت میں وحدت‘ کے نظریے کے خلاف تھا۔ ایک ذہین شخص جو ملک میں بھائی چارے کی فضا کے قیام کےلیے اگر سرگرم ہوتا تو یقیناً کامیاب ہوتا، پر وہ کسی اور راہ پر چل پڑا تھا ایک ایسی راہ پر جس پر آگے چل کر اس نے اور اس کے ساتھیوں نے ’ہندوراشٹر‘ کے قیام کا ایک بلیو پرنٹ تیار کیا، وہ بلیو پرنٹ جس کی تکمیل کے لیے ۲۰۱۴ میں عملدرآمد شروع ہوا۔ جیٹلی اس ’تھنک ٹینک‘ کا اعلیٰ ترین دماغ تھے۔ طلاق ثلاثہ بل رہا ہو یا جے این یو پر حملے، یا پھر این آر سی، مسئلہ کشمیر اور بابری مسجد قضیہ، تمام معاملات میں جیٹلی جو کہتے اسے بی جے پی تو اہمیت دیتی ہی تھی سنگھ پریوار بھی نظر انداز نہیںکرتا تھا۔جیٹلی کی یہ خوبی تھی کہ جس نظریے کو انہوں نے درست سمجھا اس پر جمے رہے۔ کانگریسوں کی طرح نہیں رہے جو سیکولرازم کے نظریے سے ہٹ کر نرم ہندو توا کے نظریے سے چمٹ گئے ہیں۔جیٹلی کے نہ رہنے پر ان کےلیے بس اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ وہ ملک کی فلاح وبہبود اور بہتری وترقی کےلیے بہت سارے کام کرسکتے تھے مگر انہو ںنے جو کام کیے اس سے ملک کا بہت بھلا نہیں ہونے والا۔

Comments are closed.