Baseerat Online News Portal

ہاں میں نیا ٹریفک چالان سسٹم ہوں…..!

 

نازش ہما قاسمی

جی نیا ٹریفک چالان سسٹم ، جو یکم ستمبر ۲۰۱۹ سے ملک بھر میں نافذ ہوا ہے اور اتنی کم مدت میں ہی گاڑیاں چلانے والوں کے اوپر سوار ہوگیا ہے ۔ دہلی سے لے کر ممبئی تک، کولکاتہ سے لے کر بھوپال تک، بنارس سے لے کر گجرات تک ، پٹنہ سے لے کر ستنا تک، گوونڈی سے لیکر ممبرا تک۔ ہرجگہ لوگ خوف میں ہیں۔ پہلے پانچ ، دس اور پچاس روپیے چپکے سے دے کر چھوٹ جاتے تھے ، اب پانچ سو، دس ہزار ، بیس ہزار ، پچیس ہزار ،۳۵؍ہزار، اور ۵۹ ہزار روپئے دے کر بھی انہیں سکون نہیں ہے ۔ بے اطمینانی کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ سسٹم کےخلاف آواز بلند کررہے ہیں۔ دستاویزات گاڑیوں کے اوپر چپکا کر چل رہے ہیں۔ سیٹ بیلٹ لگانے کے بعد بھی خوف محسوس کررہے ہیں، سگنل کی پاسداری میں کھڑے ہوئے بھی ڈر رہے ہیں کہ کہیں ٹریفک حولدار نہ آجائے اور کچھ دستاویزات طلب کرے جونہ ہو اور ہزاروں کا چالان کاٹ دیاجائے۔ پہلے میرے چالان کی قیمت کم تھی اس لیے لوگ دھڑلے سے اس کی خلاف ورزی کرتے تھے اور ٹریفک توڑنا اپنی شان سمجھتے تھے ۔ فخریہ بیان کرتےتھے کہ میں نے ’ٹھلے‘ کو چکمہ دے کر سگنل توڑ دیا اور وہ پکڑ نہ سکا، لیکن اب میں جب سے نافذ ہوا ہوں لوگوں کے حواس پر سوار ہوں ۔ لوگ ڈرے ہوئے ہیں، گاڑیوں سے کنارہ کشی اختیار کررہے ہیں، بائک چھوڑ کر لوکل ٹرین کا سہارا لے رہے ہیں، سگنل توڑتے ہوئے خوف کھارہے ہیں، وہ بچے جو گاڑیاں لے کر سڑکوں، گلی اورمحلوں میں اودھم مچاتے تھے اب ۲۵ ہزار جرمانے سے اتنے خوفزدہ ہیں کہ سوتے ہوئے بھی ٹریفک سگنل اور وہائٹ کلر میں ملبوس حولدار کو دیکھ کر روپڑتے ہیں اور ماں کی گود میں سر رکھ کر دوبارہ خواب دیکھنے لگتے ہیں اور دوبارہ خواب میں بھی وہی ٹریفک، گاڑی، حولدار ، چالان انہیں نظر آتا ہے۔ میرے نفاذ کا عوام میں اس کا اتنا خوف ہے کہ وہ پیدل بھی ہیلمٹ پہن کر نکل رہے ہیں پھر بھی چالان سے ڈر ہے کہ کہیں گاڑی نہ ہونے کے جرم میں کہیں چالان نہ کاٹ دیاجائے ۔ لوگ اٹھتے ، بیٹھتے ، سوتے ، جاگتے ، ابھی صرف میرے ہی بارے میں سوچ رہے ہیں ۔ نئے نئے ہتھکنڈے اورحربے اپنا کر اس سے بچنے کی تدابیر اختیار کررہے ہیں ۔ لیکن پھر بھی زد پر آجاتے ہیں اور ان کا چالان کاٹ دیا جاتا ہے۔ میرے نفاذ سے گاڑی مالکان کو ایک بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ اب کوئی گاڑی مانگنے نہیں آتا ہے چالان کے خوف سے سوچتے ہیں کہ اگر اس کی گاڑی لے کر گیا اور چالان دینے کی نوبت آگئی تو دوگاڑیوں کانقصان ہوگا ایک تو چالان کی قیمت سے گاڑی خرید سکتا تھا دوسرے جس کی گاڑی لے کر آیا ہوں اسے بھی گاڑی خرید کردینی ہوگی ۔ اس لیے پٹرول ڈال کر دوستوں اور رشتہ داروں کی گاڑیاں لے کر سڑکو ں پر دھینگا مشتی کرنے کا چلن اب ختم ہونے کو ہے ۔

میرے اس نئے چالان سسٹم کے بارے میں تو علامہ منکول یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ جو لڑکا خود کا چالان بھرنے کی استطاعت رکھتا ہواسے رشتہ دینے میں کوئی حرج نہیں، اسے مالداروں کی فہرست میں رکھا جائے گا اور جو اپنی گاڑی کا چالان خود سے نہ بھر پائے اسے شادی کرنے کا کوئی حق نہیں۔ کیوں کہ جو گاڑی کو نہیں سنبھال سکتا ، گاڑی کا خرچ (نازو نخرا) نہیں برداشت کرسکتا وہ بیوی کے خرچ اور اس کے ناز ونخرے کو کیسے برداشت کر سکتا ہے؟ ویسے میرے اس نئے چالان سسٹم کو کچھ لوگ جتنے کی مرغی نہیں اس سے زیادہ کا مسالہ بتارہے ہیں اور اس کے رجحان بھی سامنے آرہے ہیں کہیں کوئی ٹریفک پولس والا سے ہاتھا پائی کررہا ہے تو کہیں کوئی اپنی ہی گاڑی کو آگ لگا کر گاڑی چھوڑ کر سائیکل سے یا پھر پیدل ہی ڈانڈی مار رہا ہے۔ حالانکہ میرا نفاذ ملک میں بہتری کے لیے ہونا تھا لوگ اس پر عمل کرتے، قانون کا خوف کھاتے ، لیکن یہاں اس کے خلاف ہورہا ہے ۔ لوگوں میں میرے تئیں نفرت بڑھ رہی ہے اور سسٹم سے نالاں ہیں ۔ ان کا سوال ہے کہ اگر ہم بائیک پر تین لوگ جارہے ہیں تو اس پر چالان ۔۔۔۔لیکن حکومت کے زیر انتظام ۷۲ سیٹ والے ٹرین کے ڈبوں میں دو دو ہزار مسافر سوار ہوں تو کوئی چالان نہیں ؟ اگر ہم ہیلمٹ نہ پہنیں تو جرمانہ ۔۔۔اگر پہن کر گھومیں تو انعام کیوں نہیں؟ حالانکہ یہ میری جان ہے حکومت فکر مند ہے لیکن اس کی قیمت اتنی نہ ہوجائے کہ جرمانہ بھر کر ہم جیسے غربت کے مارے عوام بھوکوں مرنے پر آجائیں۔ بعض لوگ تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ اس نئے ٹریفک سسٹم سے ملک کی گرتی جی ڈی پی کو عوام سے جبرا وصول کرکے سہارا دینے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے ۔ ایک چالان کی زد میں آیا ہوا شکار کہہ رہا تھا کہ عوام میں نفرت اتنی بھر گئی ہے چالان کے بڑھنے سے کہ وہ اب یہ سوچ رہے ہیں کہ گاڑیاں چلانا چھوڑ دیں ، نہ پیٹرول خریدنے کا ٹینشن ، نہ سڑک حادثے میں مرنے کا خوف ، نہ چالان بھرنے کی فکر ، اور نہ ہی اس سے فضائی آلودگی کا خطرہ ہوگا ۔ انتہائی سکون ہی سکون ۔۔۔میں بھی سوچ رہا ہوں کہ واقعی اگر پورے ملک کے عوام کی یہ سوچ بن جائے تو کمال ہی ہوجائے گا ۔ مہنگائی کے اس دور میں بچت ہی بچت ہوگی ۔۔۔لیکن شاید پھر ایسا ہوکہ کہیں میرے چالان سسٹم میں تبدیلی کےلیے کوئی نیا قانون بنادیا جائے کہ جولوگ دوہزار پندرہ سے گاڑی کے مالک تھے اگر وہ ہفتے میں پانچ لیٹر پیٹرول نہیں بھرواتے ہیں تو انہیں مجرم سمجھا جائے گا اور یہ ناقابل ضمانت جرم ہوگا ۔ جن لوگوں نے لائسنس بنوا رکھے ہیں اور گاڑیاں نہیں چلاتے ہیں انہیں تین سال کی جیل اور دس ہزار روپیہ جرمانہ دینا ہوگا، جن لوگوں کی عمر ۱۸؍ سے متجاوز ہوچکی ہے اور انکا ابھی تک لائسنس نہیں بنا ہے تو انہیں سڑکوں پر پیدل چلنے کا بھی حق نہیں ہوگا ۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو یہ اور مصیبت ہوجائے گی ۔۔۔ویسے اگر عوام چاہ لیں تو کچھ بھی ممکن ہے ۔۔۔لیکن ایسا ہونا مشکل ہی نظرآرہا ہے ۔۔۔عوام نے خود کے پائوں پر کلہاڑی ماری ہے ۔۔۔روزگار کی آس میں جمع پونجی بھی خوشی خوشی دینے کو تیار تھے جبھی تو میرا نیاسسٹم لاگو ہوا ہے۔

Comments are closed.