تعزیہ اور متعلقہ رسم و رواج علمائے امت کی نظر میں

عبد القادر فہمی
امام وخطیب مسجد علی المرتضیٰ ؓ گوونڈی ممبئی
۸۲۴۸۳۲۴۰۵۵
اللہ رب العزت نے انسان کی تخلیق کے بعد اسے زندگی گزارنے کے لئے شریعت مطہرہ نازل کرکے ہر طرح اس کی رہنمائی فرمائی کہ اس دنیا میں انسان کو کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے اس کو قرآن و حدیث اور ائمہ عظام کے ذریعہ واضح طور پر بیان کر دیا
اسلامی سال کا آغاز ماہ محرم الحرام سے ہوتاہے محرم الحرام حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جس کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے مِنہَا أربعةٌ حرمٌ ان میں لوٹ مار قتل و قتال خاص طور سے ممنوع ہے اور ان کے ادب و احترام کا تاکیدی حکم ہے
اسی محرم کی دسویں تاریخ کو نواسہ رسول سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو یزید کی فوج نے شہید کردیا تھا جو کہ بلاشبہ ایک الم انگیز واقعہ ہے بہت سے لوگ اس بات کو بنیاد بناکر محرم الحرام کے مہینے میں طرح طرح کے بدعات و خرافات کو وجود بخشتے ہیں جن میں تعزیہ داری کرنا ، گریبان چاک کرنا، سوگ منانا ، شادی بیاہ نہ کرنا ، وغیرہ ہے
تعزیہ داری اور متعلقہ رسم و رواج کے سلسلے میں مسلمانوں کے تین بڑے مکتبہ فکر کے علماء کرام ان تمام خرافات کی حرمت پر متفق ہیں اس سلسلے میں ان کے درمیان کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے تینوں مسلک کے علماء کرام کی اس موضوع پر مستقل کتابیں ہیں جو چیخ چیخ کر یہ اعلان کر رہی ہے کہ یہ تمام رسوم شرکیہ ہے انکا اسلام سے دور دور کا تعلق نہیں ہے اس کے باوجود مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اپنے علماء کی ہدایت کو نظرانداز کرکے اس موقع پر اہل تشیع کے شانہ بشانہ کھڑا ہو جاتا ہے اور اپنے آپ کو وعیدوں اور سزاؤں کا گویا مستحق ٹھہرا آتا ہے
تعزیہ داری بریلوی علماء کی نظر میں
یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ اعلحضرت مولانا احمد رضا خان صاحب تعزیہ داری اور اس کے متعلقہ رسم و رواج کے سخت خلاف تھے اس پر آپ کے دو مستقل رسالے ہیں (١) رسالہ تعزیہ داری (٢) اعالی الافادہ فی تعزیة الہند و بیان الشہادۃ
آپ اپنی مشہور کتاب فتاویٰ رضویہ سے لکھتے ہیں
تعزیہ جس طرح رائج ہے نہ صرف یہ کہ ایک بدعت ہے بلکہ مجمع بدعات ہے نہ وہ روضۂ مبارک کا نقشہ ہے اور ہو تو ماتم و سینہ کوبی اور تاشے باجوں کے گشت اور خاک میں دبانا یہ کیا روضۂ پاک کی شان ہے امام عالی مقام کی طرف اپنے ہوسات مخترعہ کی نسبت انکی توہین ہے اور اسے ضروری کہنا تو سخت افتراء اخبث ہے وہ بھی شرع مطہر پر
إنّ الذين یفترون علی الله الکذب لایفلحون
آگے لکھتے ہیں تعزیہ میں کسی بھی قسم کی امداد جائز نہیں ہے اللہ تعالی فرماتا ہے ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان
فتاویٰ رضویہ حصہ دوم ص ٢۰۷تا ٢٠٨
صدرالشریعہ مولانا امجد علی رضوی خلیفہ اعلی حضرت مصنف بہار شریعت اپنی کتاب بہار شریعت میں لکھتے ہیں
تعزیہ داری کہ واقعات کربلا کے سلسلے میں طرح طرح کے ڈھانچے بناتے ہیں اور ان کو امام حسین رضی اللہ عنہ کے روضہ پاک کی شبیہ کہتے ہیں اور دھول تاشے اور قسم کے باجے بجائے جاتے ہیں تعزیوں کا بہت دھوم دھام سے گشت ہوتا ہے آگے پیچھے ہونے میں جاہلیت کے سے جھگڑا ہوتے ہیں تعزیہ سے منتیں مانی جاتی ہیں اور پھول ، ناریل چڑھائے جاتے ہیں اور وہاں شربت مالیدہ وغیرہ پر فاتحہ دلواتے ہیں یہ تصور کرکے کہ امام حسین کے روضہ میں فاتحہ دلارہے ہیں اور پھر دسویں تاریخ کو مصنوعی کربلا میں لے جا کر دفن کرتے ہیں۔
یہ سب کے سب خرافات ہیں اور سب کے سب ناجائز اور گناہ کے کام ہیں
بہار شریعت ج ٤ ح ١٦ ص ٢٤٧
مفتی جلال الدین امجدی اپنی کتاب کتاب خطبات محرم میں ماہ محرم
کے مروجہ بدعات کو ناجائز حرام کہنے کے بعد لکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو امام احمد رضا بریلوی کی عقیدت کا دم بھرتے ہیں لیکن ہندوستان کی مروجہ تعزیہ داری حرام ہونے کے متعلق ان کا فتوی نہیں مانتے کچھ لوگ مزامیر کے ساتھ قوالی حرام ہونے کے بارے میں ان کی تحقیق تسلیم نہیں کرتے اور بعض وہ ہیں جو بات بات پر اعلی حضرت کا نام لیتے ہیں مگر جب عمل کی باری آتی ہے تو انکے فتویٰ کو سرے سے خارج کردیتے ہیں
دیوبندی علماء کی نظر میں
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب اصلاح الرسوم میں لکھا ہے کہ عشرہ محرم میں حدیث سے دو امرثابت ہیں نویں دسویں کا روزہ اور دسویں تاریخ کو اپنے گھر والوں کے خرچ میں قدرے وسعت کرنا جس کی نسبت وارد ہوا ہے کہ اس عمل سے سال بھر تک روزی میں وسعت رہتی ہے
باقی سارے امور حرام ہیں
آگے لکھتے ہیں تعزیہ بنانا، جس کی وجہ سے طرح طرح کا فسق و شرک صادر ہوتا ہے بعض جہلاء کا اعتقاد ہے کہ نعوذباللہ اس میں امام حسین رونق افروز ہیں اس وجہ سے اس کے آگے نذر ونیاز رکھتے ہیں جس کا وما اھل به لغیراللہ میں داخل ہوکر کھانا حرام ہے اس کے آگے دست بستہ تعظیم سے کھڑے ہوتے ہیں اس کی طرف پشت کرنے کو برا سمجھتے ہیں اس پر عرضیاں لٹکاتے ہیں اس قسم کے واہی تباہی معاملات کرتے ہیں جو کہ صریح شرک ہے ان معاملات کے اعتبار سے تعزیہ آیت کریمہ أتعبدون ما تنحتون کے مضمون میں داخل ہوکر سراسر کفر و شرک ہے
حضرت مولانا ظفر احمد تھانوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تعزیہ بنانا اور اس کو اپنے مکان میں رکھنا بدعت ضلالہ اور بہت بڑا گناہ ہے اور اس کی تعظیم و تکریم کرنا شرک ہے اسی طرح اس پر منت اور چڑھاوا چڑھانا حرام اور شرک ہے اور مسجد میں تعزیہ رکھنا ہرگز جائز نہیں ہے اور جس مسجد میں تعزیہ رکھا ہو اس میں تعزیہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا مکروہ ہے اور اہل مسجد کے ذمہ تعزیہ کا نکال دینا واجب ہے اور جو لوگ تعزیہ کو مسجد میں رکھنا چاہتے ہیں اور جو ان کے معاون ہیں وہ عند اللہ سخت گنہگار ہیں ان سے ملنا جلنا، سلام و کلام ترک کردینا چاہئے جب تک وہ اس گناہ سے توبہ خالص نہ کریں کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے
من أحدث حدَثًا أو آوٰی محدِثًا علیه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لايقبل الله صرفًا و عدلًا
اس حدیث کے موافق جو لوگ تعزیہ اپنے گھر میں یا مسجد میں رکھتے ہیں یا جو اس کے معاون ہیں اس پر خدا کی ، فرشتوں کی، اور سب مسلمانوں کی لعنت برستی ہے اور ان کی نماز روزہ تمام اعمال صالحہ خدا کے یہاں مردود ہیں کچھ قبول نہیں ہوتے
بحر الرائق میں ہے
ألنذر للمخلوق لایجوز لأنه عبادة والعبادة لاتکون للمخلوق
اس سے معلوم ہوا کہ تعزیہ کے لیے منت ماننا اور چڑھاوے چڑھانا حرام قریب بشرک ہے
اہل حدیث علماء کی نظر میں
مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں ہیں کہ اہل سنت والجماعت وہی آدمی ہو سکتا ہے جو نبی کریمﷺ اور صحابہ کی راہ پر چلتا ہو
اور وہ تمام امور جو حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محبت کو وسیلہ بنا کر محرم الحرام کے مہینے میں کیا جاتا ہے جیسے تعزیہ بنانا تعزیہ کو امام حسین کی قبر قرار دے کر اس کی تعظیم کرنا پھر اس پر شربت فالودہ مٹھائی وغیرہ چڑھانا اور تعزیہ کو باعث نجات سمجھتے ہوئے سجدہ کرنا اس سے مال و دولت اور اولاد مانگنا ڈھول بجانا ماتم اور سینہ کوبی کرتے ہوئے گلی کوچے میں پھرنا اور تعزیوں کو کندھوں پر اٹھا کر گریہ و زاری کرنا ہائے حسین ہائے حسین کے نعرے لگانا یہ سارے کے سارے افعال غیر مشروع ہیں نبی کریمﷺ صحابہ کرام اور ایمانداروں کی راہ نہیں ہے خدا کی ناراضگی کا باعث ہے جہنم میں داخل ہونے کا سبب ہے شاہ عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ نے ان امور کو اپنی تفسیر میں شرک کہا ہے کیونکہ لغة ً ہر وہ چیز جس کی اللہ کے علاوہ عبادت کی جائے نصب یعنی بت ہے صاحب مجالس الابرار نے اور علامہ جوہری نے بھی اس کی تصریح کی ہے شرح مواقف میں ہے سورج کو سجدہ کرنا کفر ہے ہمیں خود ہی سوچنا چاہیےکہ تعزیہ اور سورج میں کیا فرق ہے لہذا مسلمانوں کو ان امور بدعیہ سے بچنا چاہئے تاکہ صحیح مسلمان بن سکیں
آج ہمارا یہ ماحول ہر قسم کے توہمات و بدعات اور رسوم ورواج کی دہلیزوں میں غلطاں ہے، الحاد وزندیقیت کے اندھیرے اور فسق وفجور کی تاریکیاں چھائی ہوئی ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تعلیمات اور یوم عاشورہ میں کئے جانے والے شرمناک مظاہرے کا تقابلی جائزہ لینے سے دل شق ہوجاتا ہے، آنکھیں پرنم ہوجاتی ہیں، اور جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے، تعزیہ کے نام پر فحاشی، کبڈی کے کھیل، بے حجاب عورتوں کا ہجوم اور غیر شرعی حرکات کا سماں بندھا ہوا ہے۔
کہیں تعزیہ بنائے جاتے ہیں کہیں علم، کہیں سیاہ جھنڈے لہرائے جاتے ہیں تو کہیں حسین کے نام کی سبیلیں بنائی جاتی ہیں، کہیں نوحہ خوانی ہے تو کہیں سینہ کوبی، کہیں یا علی کی صدا ہے تو کہیں یا حسین کی۔ الغرض بانس اور کاغذ کا ٹھاٹھ تقدس و عظمت کا محور بنا ہوا ہے، حضرت حسین کی شخصیت جو خاک کے ذرّوں میں پنہاں ہے ، حاجت روا اور مشکل کشا مانی جاتی ہے
اللہ تعالیٰ ہمیں تمام بدعات وخرافات سے بچائے اور صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
Comments are closed.