Baseerat Online News Portal

گستاخ کملیش تیواری کا سیاسی قتل!

نوائے بصیرت : شکیل رشید

یہ تو کارنامہ ہوگیا!

جے این یو کے طالب علم نجیب کو نہ تلاش کرپانے والی پولس نے پلک جھپکتے ہی ہندوسماج پارٹی کے سربراہ کملیش تیواری کے قاتلوں کو دھر دبوچا! نہ صرف دھر دبوچا بلکہ ان میں سے تین لوگوں سے یہ اعتراف بھی کروالیا کہ ’ہاں کملیش تیواری کے قتل میں ہم ہی ملوث ہیں‘! جو افراد حراست میں لیے گئے ہیں (ان کی تعداد فی الحال دس ) وہ سب کے سب ’اتفاق‘ سے مسلمان ہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ کملیش تیواری کو کوئی ہندو تھوڑی مارسکتا ہے! تیواری کی ماں لاکھ چیختی چلاتی رہے کہ اس کے بیٹے کے قتل میں بی جے پی لیڈر شیو کمار گپتا کا ہاتھ ہے، وہ لاکھ کہے کہ رام جانکی مندر کی مقدمہ بازی میں گپتا نے اس کے بیٹے کو قتل کرنے کی دھمکی دی تھی، کون اس کی بات سنتا ہے۔۔۔!! بھلے ہی کملیش تیواری کا بیٹا ستیم لاکھ کہے کہ اسے یوگی سرکار کی انتظامیہ پر بھروسہ نہیں ہے اور جب تک این آئی اے ، حراست کنندگان کے قاتل ہونے کے پختہ ثبوت فراہم نہیں کردیتی وہ ان افراد کو قاتل نہیں مانے گا، یہ بے قصور بھی ہوسکتے ہیں۔ پر یوپی کے اعلیٰ پولس افسران کہاں اس کی بات سنتے ہیں، ان کی زبان سے جب یہ نکل گیا ہے کہ تیواری کے قاتل پکڑے جاچکے ہیں، تو پھر ماننا ہی پڑے گا کہ قاتل پکڑے جاچکے ہیں!!

ویسے یہ معاملہ جیسا نظر آرہا ہے ویسا ہی ہوگا اس میں شک ہے ۔۔ اب یہ دیکھ لیں کہ تیواری کے دونوں قاتل بھگوا لباس میں تھے، خیر اس کا جواز یہ کہہ کر دیاجاسکتا ہے کہ انہو ںنے بھیس بدلا تھا! لیکن وہ جس طرح گھنٹہ بھر تک تیواری کے پاس بیٹھے اس سے ہنس ہنس کر باتیں کرتے اور چائے پانی پیتے رہے اور جس طرح سے تیواری نے ان کی آمد پر خوش آمدید کہا تھا اس سےلگتا تو یہ ہے کہ وہ دونوں تیواری کے قدیم شناسا تھے۔ چلیے، یہ مان لیتے ہیں کہ قدیم شناسا نہیں تھے بس انہوں نے تیواری کو اپنی باتوں میں الجھا لیا تھا تب بھی سوال یہ ہے کہ تیواری کے ’محافظ‘ کیا کررہے تھے؟ پتہ چلا کہ ’محافظوں‘ کی تعداد گھٹا دی گئی تھی، ظاہر ہے کہ تعداد یوگی انتظامیہ نے ہی گھٹائی ہوگی، اور جو گارڈ وہاں موجود تھا وہ بھی سورہا تھا۔ گویا یہ کہ قاتلوں کے تیواری تک پہنچنے کا راستہ اگر کسی نے آسان کیا تھا تو وہ یوگی انتظامیہ تھی! مزید غور کریں کہ خود تیواری کو یہ احساس تھا کہ اس پر حملہ ہوسکتا ہے۔۔۔وہ حضرت محمدﷺ کی توہین کی ناپاک جسار ت کرچکا تھا۔۔۔لیکن اس نے یہ نہیں کہا تھا کہ اگر وہ قتل ہوگیا تو سمجھ لیاجائے کہ اسے مسلمانوں نے قتل کیا ہے بلکہ اس نے سیدھے ’یرقانیوں‘ پر انگلی اُٹھائی تھی اور کہا تھا کہ اس کی موت کی ذمہ دار بی جے پی ہوگی۔۔۔گپتا نامی لیڈر کا نام بھی سامنے آچکا ہے۔۔۔یہ سوال اُٹھ سکتا ہے کہ بھلا کملیش تیواری کے قتل سے ’یرقانیوں‘ یعنی بی جے پی اور یوگی سرکار کو کیا فائدہ پہنچ سکتا تھا؟ سیدھے سیدھے فائدہ ہے، یوپی کے ضمنی انتخابات میں وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا وقار دائو پر لگا ہوا ہے۔ او ریہ سب ہی جانتے ہیں کہ الیکشن جیتنے میں ایسی واردات اہم کردار ادا کرتی ہے۔ فضا میں نفرت پھیل جاتی ہے، فرقہ پرستی کے جراثیم پھلتے پھولتے ہیں اور وہ ووٹ بھی جو پہلے نہیں مل سکتے تھے وہ فرقہ پرستوں کو مل سکتے ہیں۔ تیواری کے قتل کے بعد لکھنو میں کشیدگی رہی، وہ گستاخ اور دریدہ دہن تھا، اس کے قتل کے بعد گستاخوں اور دریدہ دہنی کرنے والو ںنے سوشل میڈیا بالخصوص ٹوئٹر پر شان رسالت ﷺ میں زبانیں غلیظ کیں؛ مسلمانوں کو یقیناً دکھ ہوا ہوگا، ہونا بھی چاہئے کہ مسلمان ایسی گستاخی برداشت نہیں کرسکتے۔ لیکن یہ یرقانی، بھگوائی، بھاجپائی اور سنگھی ایسی ہی غلاظتوں سے ووٹ حاصل کرتے اور راج کرتے ہیں۔ لہذا اگر سوال یہ کیاجائے کہ کیا کملیش تیواری کا قتل سیاسی نہیں ہوسکتا؟ تو بہت ساری زبانوں سے جواب یہی نکلے گا ’بے شک یہ قتل سیاسی قتل ہوسکتا ہے‘۔ شاید یہی سچ ہے۔ جو لوگ حراست میں لیےگئے ہیں ایسا نہیں لگتا کہ وہ ’مجرم‘ ہیں ۔ وہ بے قصور ہوئے تو یقیناً جلد ہی بری ہوں گے اور سرخرو بھی ہوں گے کیو ںکہ انہیں جس نسبت سے پکڑا گیا ہے وہ نسبت سرخرو ہی کرتی ہے۔

Comments are closed.