معاشی بحران توجہ کا طالب

 

عبدالرحمان صدیقی

(نیوز ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)

مہاراشٹر اور ہریانہ کے چنائو نتائج سامنے آگئے ہیں دونوں جگہ بھگوا لہر کمزور ہوئی ہے۔ مہاراشٹر میں شیوسینا بی جے پی کی حکومت بنے گی لیکن ہریانہ میں کانگریس کےلیے جوڑ توڑ کے ذریعے حکومت سازی کی گنجائش بچی ہوئی ہے لیکن بہرحال بی جے پی وہاں بھی بھاری ہے۔ اس الیکشن کا واضح پیغام یہ ہے کہ بی جے پی آر ایس ایس یا مودی امیت شاہ کی جوڑی ناقابل شکست نہیں ہے دوسرے یہ کہ جارحانہ قسم کی وطن پرستی کا کارڈ بھی ایک حد تک ہی کھیلاجاسکتا ہے اس کے بعد سے تلخ حقائق جذبات پر غالب آجاتے ہیں یہ پیغام ان کےلیے بھی ہے اور اپوزیشن کےلیے بھی ۔بی جے پی کی کامیابی کی واحد وجہ فرقہ پرستی نہیں ہے اور سیکولرزم سے عوام کی بے زاری نہیں بلکہ یہ ہے کہ سیکولرزم کی دعویدار پارٹیوں نے اپنی نااہلی کرپشن اور انا پرستی کی وجہ سے عوام کی نظروں میں خود کو بے وقعت بنالیا تھا اور اس کا نتیجہ بی جے پی کی کامیابی کی شکل میں نکلا۔ ۲۰۱۴ میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی پورے پانچ سالوں میں کئی مواقع ایسے آئے جب حکومت کو موثر طریقہ سے گھیرا جاسکتا تھا ، نوٹ بندی ، جی ایس ٹی اور حکومت کے بعض اقدامات کی وجہ سے پیدا ہونے والی ناراضگی کا پورا فائدہ اپوزیشن کو نہیں مل سکا ، صدرجمہوریہ، نائب صدر جمہوریہ اور راجیہ سبھا کے ڈپٹی چیئرمین کے چنائو کے موقع پر اپوزیشن کا انتشار برقرار رہا۔

اگرچہ ہریانہ اور مہاراشٹر میں بی جے پی کو اسی طرح جھٹکا لگا ہے جس طرح کا جھٹکا گجرات اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کو لگا تھا۔ گجرات میں کانگریس کی پوزیشن پہلے سے بہتر ہے، ہریانہ او رمہاراشٹر میں بھی اپوزیشن کوحوصلہ ملا ہے اور مودی امیت شاہ کی جوڑی کا کرشمہ کم ہوا ہے او رجو بھی کامیابی ملی ہے اس میں بی جے پی کی کارکردگی سے زیادہ اپوزیشن کی شکست خوردہ ذہنیت کا ہاتھ ہے۔

ملک کی معیشت اس وقت بہت خراب ہے کسان حیران پریشان ہے جی ایس ٹی اور نوٹ بندی کی وجہ سے جن لوگوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے وہ اس ملک میں سنبھل نہیں پائے ہیں، حکومت نے نوجوانوں کو روزگار دینے کا جو وعدہ کیا تھا وہ پورا نہیں ہوا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سی صنعتی یونٹیں بند ہوچکی ہیں جس کی وجہ سے زبردست بے روزگاری پھیلی ہوئی ہے۔ معاشی بحران کی وجہ سے دنیا کے کئی ملکوں میں زبردست مظاہرے ہوئے ہیں ہمسایہ ملک پاکستان کی معیشت بری طرح چرمرائی ہوئی ہے، وہاں حکومت کے خلاف لانگ مارچ اور دھرنے کی تیاری ہورہی ہے عراق اور لبنان میں عوام سڑکوں پر ہیں ، چند روز قبل لاطینی امریکی ملک چلی سے مظاہروں کی خبریں آئی تھیں، چند ماہ قبل فرانس میں بھی پیلی جیکٹ کے نام سے پرتشدد مظاہرے ہوچکے ہیں۔

اگر چہ ہندوستان میں جمہوری نظام نہایت مستحکم ہے اور یہاں انتخابات بھی نہایت پابندی سے ہورہے ہیں اور اقتدار کی پرامن منتقلی کا عمل بھی جاری ہے اس کے باوجود معاشی بحران غریبی اور بیروزگاری کی وجہ سے عوام کے ایک بڑے طبقہ میں بے چینی بھی پھیلی ہوئی ہے اور اس بے چینی کا علاج سول کوڈ اور دفعہ 370 جیسے معاملات میں زیادہ دنوں تک الجھایا نہیں جاسکتا ، خراب معاشی حالات کی وجہ سے عوام میں جو بے چینی پیدا ہوئی ہے اس کا ادنی سا اظہار بی جے پی کو لگنے والے انتخابی جھٹکے سے ہوا ہے یہ جہاں بی جے پی کےلیے وارننگ ہے وہیں اپوزیشن کےلیے یہ پیغام بھی کہ وہ شکست خوردگی کےخول سے باہر نکلے پروپیگنڈہ کی طاقت کے بل پر الیکشن سے پہلے ہی پورے ملک میںایسی فضا بن گئی تھی کہ مہاراشٹر اور ہریانہ میں بی جے پی کی بھاری اکثریت سے حکومت بننے والی ہے پولنگ کے دن شام کو بھی ایگزٹ پول کے ذریعہ یہی تاثر دینے کی کوشش کی گئی ۔ بی جے پی کو جو جھٹکا لگا ہے اس کا پیغام یہی ہے کہ کوئی بھی پارٹی عوام کی بنیادی ضروریات کو نظر انداز کرکے نہ اقتدار میں رہ سکتی ہے نہ اقتدار میں آسکتی ہے۔

Comments are closed.