تحریر و تقریر میں طعن و تشنیع سے بچئے

 

مولانا محمد قمرالزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

 

حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی اپنی کتاب میرے والد۔ میرے شیخ میں تحریر فرماتے ہیں :

حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ (مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے تھے کہ آغاز شباب میں دوسروں کی تردید کے لئے بڑی شوخ اور چلبلی تحریر لکھنے کا عادی تھا اور تحریری مناظروں میں میرا طرز تحریر طنز و تعریض سے بھر پور ہوتا تھا اور ختم نبوت (مولانا کی کتاب ) میں نے اسی زمانے میں لکھی تھی ،لیکن اس کے شائع ہونے کے بعد ایک واقعہ ایسا پیش آیا جس نے میرے انداز تحریر کا رخ بدل دیا اور وہ یہ کہ میرے پاس ایک قادیانی کا خط آیا جس نے لکھا تھا کہ آپ نے اپنی کتاب ختم نبوت میں جو دلائل پیش کئے ہیں، بنظر انصاف پڑھنے کے بعد وہ مجھے بہت مضبوط معلوم ہوتے ہیں، اس کا تقاضا یہ تھا کہ میں مرزا صاحب کی اتباع سے تائب ہو جاوں لیکن آپ نے اس کتاب میں جو اسلوب بیان اختیار کیا ہے وہ مجھے اس اقدام سے روکتا ہے ،میں سوچتا ہوں کہ جو لوگ حق پر ہوتے ہیں وہ دلائل پر اکتفا کرتے ہیں، طعن و تشنیع سے کام نہیں لیتے ،اس لئے میں اب تک اپنے مذہب پر قائم ہوں اور آپ کے طعن و تشنیع نے دل میں کچھ ضد بھی پیدا کر دی ہے ۔

حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے تھے یہ تو معلوم نہیں کہ ان صاحب نے یہ بات کہاں تک درست لکھی تھی لیکن اس واقعے سے مجھے یہ تنبہ ضرور ہوا کہ طعن و تشنیع کا یہ انداز مفید کم ہے اور مضر زیادہ ،چنانچہ اس کے بعد میں نے ختم نبوت پر اس نقطئہ نظر سے نظر ثانی کی اور اس میں ایسے حصے حذف کردئے جن کا مصرف دل آزاری کے سوا کچھ نہ تھا اور اس کے بعد کی تحریروں میں دل آزار اسلوب سے مکمل پرہیز شروع کر دیا ۔

مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے تھے کہ ہمیں انبیاء علیھم السلام کے طریق کار سے سبق لینا چاہیے کہ وہ ہمیشہ گالیوں اور طعنوں کے جواب میں پھول برساتے رہے ہیں ۔ انہوں نے کسی بھی سخت کلامی کا جواب بھی نہیں دیا مثلا حضرت ہود علیہ السلام سے ان کی قوم کہتی تھی کہ :

انا لنراک فی سفاهة و انا لنظنک من الکذبین بلا شبہ ہم آپ کو بے وقوفی میں مبتلا پاتے ہیں اور آپ کو جھوٹا سمجھتے ہیں ۔

اس فقرے میں انہوں نے بیک وقت جھوٹا ہونے اور بے وقوف ہونے کا طعنہ دیا ہے اگر آج کا کوئ مناظر ہوتا تو جواب میں ان کے باپ دادا کی بھی خبر لے لیتا ،لیکن سنئے کہ اللہ کا پیغمبر کیا جواب دیتا ہے ؟

یقوم لیس بی سفاهة ولکنی رسول من رب العالمین

اے قوم ! میں بے وقوفی میں مبتلا نہیں ہوں بلکہ میں تو پروردگار کی طرف سے پیغمبر بن کر آیا ہوں ۔

دعوت کا کام انبیاء علیہم السلام کی وراثت ہے،اس لئے اس میں غصہ نکالنے ،طنز کے تیر و نشرر چلانے یا فقرہ کس کر چٹخارے لینے کا کوئ موقع محل نہیں، اس کام میں نفسانیت کو کچلنا پڑھتا ہے اور اس کے لئے دوسروں کی گالیاں کھا کر بھی دعائیں دینے کا حوصلہ چاہیے ۔ ( میرے والد ۔ میرے شیخ اور ان کا مزاج و مذاق صفحہ ۱۱۰ از مولانا محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی)

تحمل برداشت اور نبوی مزاج و مذاق اور اخلاق و کردار کا ایک واقعہ ہم مفتی صاحب رح کی تحریر کے حوالے سے ہی پیش کرتے ہیں :

مولانا لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت شاہ اسمعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ وعظ کہنے کے بعد جامع مسجد کی سیڑھیوں سے اتر رہے تھے کہ اتنے میں مخالفین میں سے کوئ سامنے آیا اور اس نے مولانا کی تحقیر و تقریر کی غرض سے کہا :

مولانا میں نے سنا ہے کہ آپ حرام زادے ہیں؟

تصور تو فرمایئے کہ یہ بات اس شخص سے کہی جارہی ہے جو ایک طرف علم و فضل کا دریائے بیکراں ہے اور دوسری طرف خاندانی طور پر مسلم شہزادہ اور جس نے دین کی خاطر اپنے سارے شاہی ٹاٹھ باٹھ کو تج کر رکھ دیا ،اور پھر یہ بات اس وقت کہی جا رہی ہے جب وہ وعظ کہہ کر اتر رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ اس وقت ان کے کچھ نہ کچھ معتقدین یا ہم خیال حضرات بھی ساتھ ہوں گے ،آج اگر کسی واعظ سے ایسے ماحول میں یہ بات کہی جائے تو واعظ صاحب برافروختہ ہوکر اس کے حسب و نسب کو معرض بحث میں لے آئیں گے اور ان کے رفقاء یقینا ایسے شخص کو سلامت نہ جانے دیں گے لیکن بے نفسی کی انتہا دیکھئے کہ حضرت شاہ صاحب نے جواب میں فرمایا :

جناب! آپ کو کسی نے غلط خبر پہنچائ ہے میری والدہ کے نکاح کے گواہ تو اب تک دہلی میں موجود ہیں۔

اور اس طرح حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے معترض کے اس فقرے کو جو صرف گالی کے لئے بولا گیا تھا ایک علمی مسئلہ بنا کر سنجیدگی سے جواب دے دیا ۔ یہی وہ طرز عمل تھا جس نے سنگدل انسانوں کو موم کیا اور جس کی بناء پر دعوت حق کی فضا ہموار ہوئ۔ ( ماخوذ و مستفاد میرے والد ۔ میرے شیخ ص: ۱۱۱_۱۱۰)

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو ایک سفر میں وعظ سے پہلے کسی کا خط موصول ہوا ۔جس میں لکھا تھا کہ آپ کافر ہیں اور جلاہے ہیں ۔ اور یہ کہ اگر آپ نے یہاں وعظ میں اختلافی مسائل چھیڑے تو آپ کی خیر نہیں ۔ حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ نے اس خط پر مشتعل ہونے کے بجائے آغاز میں لوگوں کو وہ خط پڑھ کر سنایا اور اس کے بعد فرمایا:

اس خط میں تین باتیں کہی گئی ہیں، پہلی بات تو یہ کہ میں کافر ہوں ،اس کا جواب تو یہ ہے کہ میں آپ کے سامنے کلمہ پڑھتا ہوں، اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمدا رسول اللہ اب اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ میں کافر ہوں یا نہیں؟ آپ کو معلوم ہے کہ اس کلمہ کی بدولت ستر برس کا کافر بھی مسلمان ہوجاتا ہے ۔ لہذا اگر بالفرض خدا نخواستہ میں کبھی کافر تھا بھی تو اس کلمہ کے بعد مسلمان ہوگیا،لہذا اس بحث کی ضرورت نہیں، دوسری بات یہ کہی گئی ہے کہ میں جلاہا ہوں ،اس کا جواب یہ ہے کہ میں یہاں کوئی نکاح کا پیغام لے کر نہیں آیا جس کے لئے اس تحقیق کی ضرورت ہو ،اگر بالفرض میں جلاہا ہوں مگر دین کی کوئ صحیح بات بتاتا ہوں تو محض جلاہا ہونے کی وجہ سے اسے رد نہیں کرنا چاہیے، ویسے اگر کسی کو واقعی میرے نسب کی تحقیق مقصود ہو تو تھانہ بھون کے لوگوں سے خط لکھ کر تحقیق کرلے ۔ تیسری بات یہ کہی گئی ہے کہ میں وعظ میں کوئ اختلافی مسئلہ بیان نہ کروں، سو اس کا جواب یہ ہے کہ میں یہاں وعظ کہنے کے لیے خود نہیں آیا، مجھے اس مقصد کے لیے بلایا گیا ہے ،اگر اس مجمع میں سے کوئ ایک صاحب بھی اٹھ کر مجھے وعظ کہنے سے منع فرما دیں گے تو میں وعظ نہیں کہوں گا اور وعظ میں میری عادت اختلافی مسائل کو موضوع بنانے کی نہیں ہے،لیکن اگر اثناء وعظ میں کوئ اختلافی مسئلہ آجاتا ہے اور اس کی وضاحت ضروری ہوتی ہے تو پھر اس کے بیان میں رکتا بھی نہیں یہی عمل اس وقت بھی ہوگا،اب اگر آپ بات سننا چاہیں تو میں شروع کروں، ورنہ رک جاؤں.

(میرے والد ۔ میرے شیخ ۱۱۲۔۱۱۱ )

اس انداز کلام کا نتیجہ یہ نکلا کہ کسی ایک شخص نے بھی وعظ میں رکاوٹ نہ ڈالی اور پھر جب وعظ شروع ہوا تو اس میں اتفاق سے بہت سے اختلافی مسائل بھی وضاحت کے ساتھ بیان ہوئے اور بہت سے مخالفین اتنے متاثر ہوئے کہ ہم خیال بن گئے ۔

غرض یہ کہ اگر ہم صحیح اور درست موقف پر ہیں جمہور کی راہ پر ہیں تو اپنی اس رائے اور موقف پر مضبوطی سے قائم رہیں لیکن اس کے ساتھ کسی باطل نظرئے کی تردید میں طعن و تشنیع اور دل آزار اسلوب بیان سے بالکل پرہیز کریں اور اس کے بجائے ہمدردی و دلسوزی اور نرمی و شفقت سے کام لے کر ذہنوں کو بدلنے اور فکر کو موڑنے کی کوشش کریں ۔ لیکن اس نرمی کا یہ مطلب بھی نہیں کہ حق کو حق کہنے میں مداہنت اور بزدلی سے کام لیں کیونکہ غلط کو غلط اور کفر کو کفر کہنا ہی پڑتا ہے ۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت کے ضروری اظہار کے بعد محض اپنی نفسانیت کی تسکین کے لئے فقرہ بازی نہ کریں ۔ کیونہ داعی حق کی مثال ریشم جیسی ہونی چاہیے کہ اس کو چھو کر دیکھو تو اتنا نرم و ملائم کہ ہاتھوں کو حظ نصیب ہو لیکن اگر کوئ توڑنا چاہے تو اتنا سخت کہ تیز دھار بھی اس پر پھسل کر رہے جائے ۔

اب ہم سب کو غور کرنا ہے کہ کیا تقریر و تحریر میں ہم اس طرز اور اسلوب کو اپناتے ہیں ؟ کیا ہم طعن و تشنیع والی زبان اور گفتگو سے پرہیز کرتے ہیں؟ کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ ہم ایسے موقع پر نفسانیت میں مبتلا ہوکر انبیاء کرام کے اسلوب و طرز سے ہٹ کر عام لوگوں کی سطح پر آجاتے ہیں ۔ عوام کو تو جانے دیجئے خواص اس مرض میں ان سے زیادہ مبتلا ہیں ۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو ان حقائق کو سمجھنے کی اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔

Comments are closed.