سمت سفر کا شعور

فیروز عالم ندوی
معاون اڈیٹر ماہنامہ پیام سدرہ، چنئی
تبدیلی اور تغیر کوئی انوکھی اور نئی بات نہیں، ہم اس دار الحوادث میں رہتے ہیں جہاں ہر آن چھوٹی بڑی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں ، کبھی یہ ہمارے توقع کے مطابق اور کبھی خلاف ۔ بحیث مسلم امت ہماری یہ خصوصیت ہونی چاہیے کہ ہم ان تبدیلیوں کو محسوس کریں اور سمجھیں ۔ نئے امکانات کا جو وجود میں آگئے ہوں ان سے فائدہ اٹھائیں اور تازہ خطرات سے بچنے کی راہیں نکالیں ۔ تغیرات اور تبدیلیوں کے تجزیے کے اس عمل کے دوران ہمیں اس بنیادی حقیقت کو نہیں بھولنا چاہیے کہ اس دنیا میں حقیقی اقتدار محض اللہ تعالیٰ کا ہے ۔ انسا نوں کو جو کچھ اختیار اور اقتدار حاصل ہے وہ محدود بھی ہے اور ناپا ئید ار بھی ۔ دوسری حقیقت جو امت کے سامنے رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ ہر قسم کے حالات میں دینِ حق پر عمل کرنا اور انسانوں کو حق کی طرف بلانا ہماری دائمی ذمہ داری ہے ۔ یہ ذمہ داری کسی حال میں ساقط نہیں ہوتی خواہ حالات سازگار ہوں یا ناسازگار ۔
بحیثیت ہندوستانی مسلمان ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم حالات کے عالمی اور ملکی، دونوں پہلوؤں کا نوٹس لیں ۔ عالمی حالات پر نظر ڈالیں تو چند حقائق نمایاں نظر آتے ہیں۔
(الف) علم و فن اور فکر و نظر کے میدان میں مادی افکارونظریات کی حکمرانی ہے۔
(ب) حدود قیود سے آزاد سرمایہ داری کا تسلّط ہے۔
(ج) عالمی استعمار کا عروج ہے۔
(د) عالمی ذرائع ابلاغ منفی کردار ادا کر رہا ہے۔
(ہ) عالم اسلام میں اسلامی تحریکات کے نمایاں اثرات کے باوجود مسلمانوں کی باہمی کش مکش میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
(و) ملکوں کی خارجہ پالیسیاں بین الاقوامی تجارتی اداروں کی خدمت کے لیے وقف ہیں ۔
اب ایک نظر اندرون ملک واقع ہونے والی تبدیلیوں پر ڈال لینا چاہیے تاکہ صورت حال پوری طرح واضح ہو جائے۔
قومیت :
ہمارے ملک میں عام انتخابات 2014 کے ذریعے جو تبدیلی آئی ہے اس میں مندرجہ بالا عالمی عوامل نے بھی اپنا رول ادا کیا ہے۔ ان سارے عوامل کا اثر منفی ہے۔ جو افکارو نظریات دنیا پر غالب ہیں ان میں نیشنلزم ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ دنیا کے بیش تر ممالک اس تصور کے مطابق اپنی حکومتوں کو نیشن اسٹیٹ کہتے اور سمجھتے ہیں ۔ نیشنلزم کے دو مضر پہلو بالکل عیاں ہیں۔ یہ تصور انسانوں کی عالمی برادری کے تصور کی نفی ہے اور وحدتِ آدم کے بجائے قوموں کے درمیان رقابت اور کش مکش اس کا فطری نتیجہ ہے۔ نیشنلزم کے تصور کی دوسری مضرت یہ ہے کہ اس کو بآسانی کلچرل نیشنلزم کا رنگ دیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ دنیا کے مختلف ممالک میں کلچرل نیشنلزم کا رجحان مقبول ہورہا ہے ۔ یہ رجحان محض حکومت کی سرگرمیوں کو متأثر نہیں کرتا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر پورے ملکی سماج کو جبراً ایک کلچر کے رنگ میں رنگنا چاہتا ہے، اور اس مقصد کے لیے نظامِ تعلیم، نظامِ قانون اور ذرائع ابلاغ کو بے دریغ استعمال کرتا ہے۔ ہندوستان کی تازہ تبدیلیوں نے اس اندیشے کو بڑھا دیا ہے ۔
ترقی کا غیر واقعی پیمانہ :
ہندوستان کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر ترقی کا نعرہ استعمال ہوا ۔ دنیا کے تجربات بتاتے ہیں کہ ٹیکنالوجی، صنعتی اور معاشی ترقی کے باوجود دنیا کے بیش تر حصوں میں غربت کا ازالہ نہیں ہو پایا بلکہ اکثر اوقات غریبوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ سرمایہ دارانہ نظام کا مقبولِ عام معاشی تصوریہ تھا کہ کسی ملک کی پیداوار بڑھے گی تو خود بخود سب کو اس کے ثمرات سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا۔ جس طرح سماج کے مالدار طبقے اس سے مستفید ہوں گے اسی طرح غرباء بھی اس ترقی سے فائدہ اٹھائیں گے۔ سمجھا جاتا تھا کہ یہ صورتحال معاشی ترقی کا فطری نتیجہ ہوگی اور اس کے لیے حکومت اور معاشی اداروں کی جانب سے کسی شعوری کوشش کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ ترقی کے ثمرات کے محروم طبقات تک خود بخود پہنچ جانے کا یہ تصور ایک واہمہ ثابت ہوا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے احیاء نے دنیا کے عوام کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔ ترقی کے نعروں کی گونج میں یہ تذکرہ عام انتخابات کے دوران سننے میں نہیں آیا کہ ترقی کے ثمرات کو عوام تک پہنچنا چاہیے۔ ترقی کے اس یک رخے تصور کے پروپیگنڈے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جس طرح سابقہ حکومت کا طرزِ عمل، عالمی سرمایہ دارانہ نظام سے ہم آہنگ تھا، اسی طرح نئی حکومت کا بھی ہوگا۔
خارجہ پالیسی کی تبدیلی :
ہندوستان کی تحریک آزادی کی قیادت کرنے والی نسل جو ملک پر حکومت کر رہی تھی، آہستہ آہستہ دنیا سے رخصت ہوگئی۔ بعد میں آنے والے حکمرانوں کے اندر وہ وسعتِ نظر، بلند حوصلگی اور جرأت نہ تھی جو آزادانہ خارجہ پالیسی کی بنیاد بن سکتی۔ یہ تبدیلی تو ملک کے اندر ہوئی۔ دوسری طرف روسی بلاک دنیا کے نقشے سے غائب ہوگیا اور یک قطبی نظام کی شکل میں استعماری طاقتوں کا بالواسطہ تسلط پوری دنیا پر بلاشرکت غیرے قائم ہونے لگا۔ اس بدلے ہوئے تناظر میں ملک کی خارجہ پالیسی کے تمام مثبت پہلو معدوم ہوگئے۔ اسرائیل کو باضابطہ تسلیم کرلیا گیا اور ہندوستان سے اس کے تعلقات میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہونے لگا۔ گرچہ فلسطین کے عوام کے حقوق کا رسمی تذکرہ بھی جاری رہا لیکن تحریک آزادی کی سرگرم تائید ختم ہوگئی۔ اس کے ساتھ ملک کی خارجہ پالیسی پر امریکہ کے اثرات میں اضافہ ہونے لگا۔
سماجی انصاف کا خاتمہ :
تقریباً نصف صدی قبل ہمارے ملک کی فضا میں سوشلزم کا چرچا عام تھا۔ اب یہ اصطلاح کہیں نہیں سنی جاتی۔ ذرائع ابلاغ کے اندر ہونے والی بحثوں اور سیاسی جلسوں میں معاشی عدل وانصاف کا موضوع شامل نہیں ہوتا۔ جس وقت سوشلزم کا نعرہ لگایا جاتا تھا، اس وقت بھی اس نعرے کے لگانے والے، سب کے سب مخلص نہ تھے لیکن کم از کم سرمایہ دارانہ نظریے کے مقابل ایک چیلنج موجود تھا۔ پچھلی نصف صدی میں یہ صورتحال بدل گئی ہے۔ اب سیاسی میدان میں مقابلہ آرائی کرنے والے قابل ذکر سارے فریق سرمایہ دارانہ نظام کے وفادار ہیں۔ پچھلے دور میں وزیر اعظم اندرا گاندھی نے’’ غریبی ہٹاؤ‘‘ کا نعرہ دیا تھا۔ غریبی ہٹ نہیں سکی لیکن گفتگو کا موضوع ضرور بنی لیکن اب نعرے بدل چکے ہیں۔ ’’غریبی ہٹاؤ‘‘ کے بجائے ’’ترقی‘‘ کی بات کی جارہی ہے لیکن اس ترقی سے غریب بھی فائدہ اٹھاسکیں گے، اس یقین دہانی کا فقدان ہے۔ اس اعتبار سے سیاسی تبدیلی جو ملک میں واقع ہوئی ہے، وہ عالمی سرمایہ داری کے علمبرداروں کے عزائم اور تمناؤں سے ہم آہنگ ہے۔ چنانچہ ان کی جانب سے اس تبدیلی کا خیر مقدم غیر متوقع نہیں ۔
اسلاموفوبیا :
ہندوستان کے عام انتخابات میں جس گروہ کو حکومت حاصل ہوئی ہے اس کی انتخابی جیت میں ذرائع ابلاغ نے اہم رول ادا کیا ہے۔ یہ معاملہ تو ملک کے اندر موجود ذرائع ابلاغ کا ہے لیکن ایک اہم رول سوشل میڈیا پر ہونے والے مباحث کا بھی ہے۔ان مباحث کا دائرہ صرف ملک تک محدود نہیں ہے۔ اس میں اظہار خیال کرنے والے ملک کے اندر بھی ہیں اور باہر بھی۔ باہر کے شرکاءِ مباحثہ میں ہندوستانی شہری بھی شامل ہیں اور دیگر افراد بھی۔ اس وقت اس بحث کے ایک خاص پہلو کا تذکرہ مقصود ہے اور وہ ہے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف پائی جانے والی فضا اور اسلام مخالف نیز مسلم مخالف پروپیگنڈا۔
کردار کشی :
پوری دنیا میں کچھ حلقوں نے لاعلمی اور غلط فہمی کے سبب اور کچھ نے ماضی و حال کے واقعات کی بنا پر بننے والے متعصبانہ ذہن کی بنا پر ایک عرصے سے اسلام اور مسلمانو ں کے خلاف پروپیگنڈا شروع کر رکھا ہے۔ پچھلی ربع صدی سے مسلمانوں پر لگائے جانے والے الزامات میں ایک نئے الزام ’’دہشت گردی‘‘ کا اضافہ ہوگیا ہے۔ ایک گروہ کا خیال یہ ہے کہ اسلام تو دہشت گردی نہیں سکھاتا البتہ مسلمان دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ضرور ملوث ہیں۔ دوسرا گروہ جو نسبتاً اپنی رائے میں شدید تر ہے، یہ خیال ظاہر کرتا ہے کہ مسلمانوں کی دہشت گردی کا اصل سبب خود اسلام کی تعلیمات ہیں چنانچہ دنیا میں امن کے قیام کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسلام کے اثرات کو مٹایا جائے اور مسلمانوں کو دبا کر رکھا جائے۔ سوشل میڈیا میں یہ رائیں بڑی بے تکلفی کے ساتھ ظاہر کی جارہی ہیں اور بعض شرکاء مباحثہ اس سلسلے میں جو زبان استعمال کرتے ہیں وہ ناگوار حد تک غیر مہذب اور ناشائستہ ہوتی ہے۔
اس نقطہ نظر کے رکھنے والوں کا خیال یہ ہے کہ دہشت گرد سب کے سب مسلمان ہیں اس لیے دہشت گردی کے خلاف مضبوط اقدام کے معنی یہ ہیں کہ مسلمانوں کو دبایا جائے اور کمزور بنایا جائے۔ اس طرزِ فکر نے تازہ سیاسی تبدیلی کے لیے راہ ہموار کرنے میں قابل لحاظ رول ادا کیا ہے۔
مسلمانوں کا روز افزوں انتشار :
مسلمانوں کی باہمی کش مکش ایک افسوسناک حقیقت ہے ۔ فرقہ، مسلک اور رجحان کے فرق کی بنا پر پوری دنیا میں مسلمانوں کے درمیان کش مکش برپا ہے۔مسلمانوں کے اندر موجود مندرجہ بالا اختلافات کی تاریخ پرانی ہے اور ماضی میں ان کے اسباب تلاش کیے جاسکتے ہیں البتہ تنظیموں اور اداروں کے اختلافات اور ان کی باہم رقابت ایک نیا مظہر ہے جو پچھلی صدی میں سامنے آیا ہے ۔ اس نے مسلمانوں کے انتشار کی وسعت اور شدت میں اضافہ کیا ہے ۔ برصغیر کے مسلمان ان سب تفریقوں کے علاوہ برادریوں اور ذاتوں میں بھی بٹے ہوئے ہیں اور وحدتِ آدم کے تقاضوں کو عملاً فراموش کرچکے ہیں ۔ پڑوسی ملک پاکستان میں صوبائی اور لسانی عصبیت موجود ہے ۔ بیش تر عرب ممالک میں قبائلی عصبیت اور عرب و عجم کی تفریق پائی جاتی ہے ۔
ہماری تنگ نظری :
مسلکی و اعتقادی اختلافات کے تئیں ہمارا یہ رجحان ہے کہ ان اختلافات کو حل کرنے کے لیے طاقت کا استعمال رَوا اور درست ہے ۔ چنانچہ مسلمانوں کے مختلف گروہ جو کسی معاملے میں اپنے نقطہ نظر کو درست اور مخالف نقطہ نظر کو غلط سمجھتے ہیں، محض اظہارِ خیال پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ طاقت کے ذریعے اپنے رجحان کو مخالفین پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرح اختلافِ رائے آگے بڑھ کر تصادم اور قتل و غارت گری کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔مسلکوں اور تنظیموں کے باہم تصادم کی یہ کیفیت اکثر ممالک میں دیکھی جاسکتی ہے۔
کمزور سیاسی ادارے :
مسلمانوں کی حکومتیں کمزور ہیں اور مسلمان ممالک کے سیاسی ادارے عدم استحکام کی زد میں ہیں چنانچہ مسلم ملکوں کی حکومتیں مسلمانوں کے مختلف گروہوں کو قانون کا پابند بنانے اور بنائے رکھنے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ پھر یہ حکومتیں آزاد بھی نہیں ہیں بلکہ بیرونی طاقتوں کی پیہم مداخلت کا شکار ہیں اور اتنی قوت اور حوصلہ نہیں رکھتیں کہ اس بیرونی مداخلت کو روک سکیں۔ چنانچہ رفتہ رفتہ عالمِ اسلام سے امن رخصت ہوتا جارہا ہے اور گروہوں کی کش مکش ایسی شکل اختیار کر رہی ہے جو قانون کی حکمرانی کے بجائے انارکی کے زیادہ قریب ہے۔ یہ ممالک اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ غیر مسلم ملکوں میں رہ رہے مسلمانوں کی فریاد سن سکیں ۔
سمت سفر کیا ہو؟
ہندوستان کے مسلمان پریشان ہیں۔ یہ پریشانی فطری ہے البتہ حقیقت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان ملک میں موجود اس صورتحال کا جائزہ لیں جس کے تحت وہ زندگی گزار رہے ہیں اور اس مجموعی کیفیت کے مثبت ومنفی پہلوؤں کا ادراک کریں ۔ اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ اس صورتحال میں واقع ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھیں ۔ تجزیے کے بعد ان تبدیلیوں کی مزاحمت کریں جو کسی اعتبار سے منفی پہلوؤں کے فروغ کا باعث ہوں اور اسی طرح ان تبدیلیوں کو خوش آمدید کہیں جو مثبت پہلوؤں کو تقویت پہنچا سکیں ۔ ہندوستان کی صورتحال سے ربط رکھنے کا یہ کام، فعال طریقے سے انجام پائے تو دور رس نتائج پیدا کرسکتا ہے ۔ حالات سے پریشان ہونے کے بجائے حالات کو بدلنے کا عزم لے کر اٹھنا چاہیے۔
(1) ہمارے ملک میں پائے جانے والے حالات کی مجموعی کیفیت کا ایک رخ افکار ونظریات ہیں۔ جہاں تک عام سماج کا تعلق ہے وہ شرک سے متأثر ہے نظامِ تعلیم پر بھی دیومالائی اثرات پائے جاتے ہیں لیکن نظامِ قانون وسیاست میں مغربی افکار کا رنگ نمایاں ہے۔ ذرائع ابلاغ میں کیفیت ملی جلی ہے، مشرکا نہ تصورات کے اثرات بھی محسوس ہوتے ہیں اورمغربی افکار کے بھی، ان کے درمیان فطری طورپر تصادم پایا جاتا ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے ان کے لیے شرک بھی ناقابل قبول ہے اور مغربی مادیت بھی۔ حکمت، صبر اور استدلال کے ساتھ شرک اور مادی افکار کی تردید اور ان کے بالمقابل تو حید اور وحدتِ بنی آدم کی جانب دعوت مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ حالات نے اس ذمہ داری کی ادائیگی کو اور زیادہ ضروری بنادیا ہے۔ اسلام اور مسلم مخالف پروپیگنڈے کے باوجود حق کی دعوت کو عام کرنے کے راستے کھلے ہوئے ہیں۔ بلکہ بعض ذہنوں کو خود منفی پروپیگنڈے نے اسلام کی جانب متوجہ کیا ہے۔ دعوتِ حق کا کام سنجیدگی، منصوبہ بندی اور محنت کا طالب ہے۔ حالات کے اندر صحت مند تبدیلی لانے میں بنیادی رول دعوت کا ہے۔ اس سے غفلت برتی جائے تو کوئی اور کام اس کی تلافی نہیں کرسکتا۔
(2) موجود صورتحال کا ایک پہلو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پایا جانے والا تعصب ہے۔ غالباً ملک کا کوئی خطّہ اور غیر مسلم آبادی کا کوئی عنصر ایسا نہیں ہے جس میں یہ تعصب، کم یا زیادہ، موجود نہ ہو۔ تعصب کے اسباب متعدد ہیں جن میں ناواقفیت، غلط فہمی، دین آبائی سے محبت، اپنی قوم کی سربلندی کا جذبہ، دین کا جاہلی تصور، غرور وتکبر اور وطن پرستی کے جذبات شامل ہیں ۔ ان اسباب کا ازالہ کرنے کے لیے مسلسل رابطہ، مدلل اور بے لاگ گفتگو، حق گوئی وبے باکی، حق پر استقامت اور انسانوں کے حقوق کی ادائیگی کی ضرورت ہے ۔ ان میں سے ہر نکتہ تفصیل طلب ہے اور اس کی وضاحت کے لیے اسلامی لٹریچر کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے ۔ البتہ یہ کہنا ضروری ہے کہ مثبت کوششوں سے تعصب میں کمی یقیناًلائی جاسکتی ہے۔ تعصب کا مقابلہ کرنے کاکام، دعوتِ حق سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ ربط وگفتگو کے ذریعے دونوں مقاصد حاصل ہوتے ہیں، تعصب دور ہوتا ہے یا اس میں کمی واقع ہوتی ہے اور دعوتِ حق بھی انسانوں تک پہنچتی ہے۔
(3) ہندوستان کی صورتحال کا ایک اہم پہلو یہاں کا سماجی نظام ہے جو عدم مساوات کی بنیاد پر قائم ہے۔ اس نظام کی جڑیں ذہنوں میں اتری ہوئی ہیں اور اسے دیومالائی تصورات کی تائید حاصل ہے۔ اس غیر منصفانہ سماجی نظام کے اساسی تصورات کا تقابل توحید، وحدتِ بنی آدم اور تکریم انسانیت کے ان تصورات سے کیا جاسکتا ہے جو دینِ حق پیش کرتا ہے۔ مسلمانوں نے تقابل کا یہ کام انجام نہیں دیا ہے جو ان کی بڑی غفلت ہے۔ دوسری طرف جن لوگوں نے غیر منصفانہ سماجی نظام پر گرفت کی ہے وہ دین حق سے واقف نہیں تھے چنانچہ مسئلے کے ادراک کے باوجود وہ اس کا حل پیش نہیں کرسکے۔
ضرورت ہے کہ مسلمان محض اس میدان پر نظر نہ رکھیں جسے میدان سیاست کہا جاتا ہے بلکہ ہندوستانی سماج کے اہم مسائل پر بھی توجہ کریں۔ اہم سما جی مسئلہ انسانوں کے درمیان تفریق اور عدم مساوات ہے۔ ضرورت ہے کہ مسئلے کی تفہیم اور حل کی پیش کش کاکام مسلمان انجام دیں۔
(4) ہندوستان کی صورتحال کا ایک پہلو’’قانون کی حکمرانی‘‘ کا تصور ہے۔ اس اصول کے معنی یہ ہیں کہ حکومت کے اداروں (عدلیہ، منتظمہ وغیرہ) کا طرزِ عمل، اداروں کے چلانے والے افراد کے رجحانات اور جذبات کا تابع نہ ہو اور افراد میں پائے جانے والے تعصبات سے متأثر نہ ہو بلکہ قانون کے مطابق ہو۔ یہ بڑا اہم اور قابلِ قدر تصور ہے۔ انارکی اور جنگل راج کے بجائے قانون کا نفاد کسی ملک میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے ناگزیر ہے اور عدل و انصاف کے قیام کی راہ ہموار کرتاہے۔ ملک کی موجودہ فضا میں قانون کی حکمرانی کا اصول خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔
بسا اوقات ہمارے ملک میں ایک خطرناک بات کہی جاتی ہے۔ ایک شخص پر کوئی جرم ثابت نہیں ہوا، محض الزام لگایا گیا ہے اور ثبوت کی فراہمی ابھی نہیں ہوسکی ہے لیکن اسے ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے دیا جاتاہے۔ ذرائع ابلاغ یہ راگ الاپنے لگتے ہیں اور کبھی کبھی عدالتیں تک ایسے افراد کو دہشت گرد کہنے لگتی ہیں۔ یہ سارا شور و غوغا، قانون کی حکمرانی کے اصول کی نفی ہے۔ اِسی طرح یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص پر جرم ثابت نہیں ہوتا لیکن اس کو انتہائی سنگین سزا دے دی جاتی ہے محض اس لیے کہ ’’عوامی جذبات کا تقاضا یہی ہے۔‘‘ یہ صریح ظلم، قانون کی حکمرانی کے اصول کی خلاف ورزی ہے۔
مسلمانوں کو اِس اصول پر اصرار کرنا چاہیے کہ ملک پر قانون کی حکمرانی ہو، جذبات اور رجحانات کی حکمرانی نہ ہو۔ ریاست کے تمام ادارے اپنے کو قانون کے حدود کا پابند اور اس کے نفاذ کا ذمہ دار سمجھیں اور حکمراں پارٹی کے رجحانات کا پابند نہ سمجھیں۔
(5) ہندوستان میں ہونے والی قانون سے متعلق بحثوں میں یہ بات اب تسلیم کی جانے لگی ہے کہ قانون کو منصفانہ ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں اسلام کا رجحان واضح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا قانون (جسے شریعت کہا جاتاہے) نازل ہی اس لیے کیا ہے کہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔ اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ قانون کے منصفانہ ہونے کے اصول کی پر زور تائید کریں۔
ملک کے سامنے یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ کوئی قانون محض اس لیے صحیح قرار نہیں پاسکتا کہ اسمبلی یا پارلیمنٹ کی اکثریت نے اس کی تائید کردی ہے بلکہ وہ اس وقت صحیح قرار پائے گا جب وہ حق و انصاف کے مطابق ہو۔
رہی یہ بات کہ ’’کسی معاملے میں حق و انصاف کا تقاضا کیا ہے؟‘‘ تو اس سلسلے میں مخلص اہلِ علم و فکر کو غور کرکے رائے قائم کرنی چاہیے اور پھر اس رائے کو ذرائع ابلاغ کے ذریعے ملک کے سامنے لانا چاہیے ۔ مسلمانو ں کے منصب کا تقاضا ہے کہ وہ اس بحث کی رہنمائی کریں اور اسے صحیح رخ دیں۔
(6) ہندوستان کے موجودہ نظامِ حکومت کی بنیاد دستورِ ہند پر ہے۔ اس میں اساسی تبدیلی لانا کسی گروہ کے لیے آسان نہیں ہے۔ وہ ایسا کرنا چاہے تو اسے بڑے پیمانے پر اور ایک عرصے تک عوامی تحریک چلانی ہوگی البتہ وہ دستور میں ایسی تبدیلیاں لاسکتا ہے جو بظاہر چھوٹی نظر آئیں مگر دور رس نتائج رکھتی ہوں۔ نئی حکومت کی پشت پر ایک خاص گروہ ہے اس لیے یہ اندیشہ بے جا نہیں ہے کہ دستورِ ہند میں تبدیلی کرنے کی کوشش کی جائے گی اور یہ تبدیلی اس مقصد کے لیے ہوگی کہ بعض گروہوں کو ان کے جائز حقوق سے محروم کردیا جائے۔ اس طرح کی کوششوں کی مزاحمت کرنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔
اس کام کے لیے ان کو عوام و خواص سے ربط قائم کرنا ہوگا۔ خواص میں ذرائع ابلاغ سے متعلق افراد اور اسمبلیوں و پارلیمنٹ کے ممبران خصوصی توجہ کے مستحق ہیں۔ ہندوستان کے نظامِ حکومت کو براہِ راست چلانے والے ادارے مقنّنہ، انتظامیہ اور عدلیہ ہیں۔ دیگر ادارے (مثلاً ذرائع اِبلاغ) نظامِ حکومت کو متأثر کرتے ہیں۔ ملکی انتخابات سے عدلیہ اور انتظامیہ میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ ان اداروں میں تبدیلی کے لیے سماج کو بدلنا ہوگا اس لیے کہ جیسا سماج ہوتا ہے اسی مزاج کے افراد ان اداروں میں پہنچتے ہیں۔ انتخابات کی جو کچھ بھی اہمیت ہے وہ مقننہ کی حد تک ہوتی ہے۔ انتخابات کے ذریعے حکمراں پارٹی بدل جاتی ہے اور حکمراں پارٹی مقننہ کے فیصلوں کا رخ متعین کرسکتی ہے۔ البتہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ حکمراں پارٹی اس سلسلے میں بالکل آزاد نہیں ہے بلکہ دستورِ ہند اور پارلیمانی روایات کی پابند ہے۔
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
اگر ہم ملک کی صورتحال میں صالح تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو انتخابات کو غیر ضروری اہمیت دینے کے بجائے ہمیں افکار و خیالات، معاشرہ ، سماجی اداروں اور ذرائع ابلاغ کو اہمیت دینی چاہیے۔ سنجیدگی، منصوبہ بندی اور محنت کے ساتھ ان محاذوں پر توجہ دی جائے تو حالات بدل سکتے ہیں ۔

Comments are closed.