دیوالی کی مبارکبادی ناجائز ہے

محمد امداد اللہ قاسمی
مدرسہ اصلاح المومنین راگھونگر بھوارہ مدھوبنی
اسلام ساری انسانیت کے لئے دین رحمت ہے،اس کے ہر حکم میں پوری انسانیت کے لیے خیر خواہی ہے۔اسلام صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی نہیں عام انسانوں کے ساتھ بلکہ جانوروں تک کے ساتھ محبت کی اور بہتر سلوک کی تعلیم دیتا ہے اور ظلم سے روکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
اِرْحَمُوْا مَنْ فِی الْاَرْضِ یَرْحَمکُمْ مَنْ فِی السَّمَاءِ۔
’’زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا خدا تم پر رحم فرمائے گا۔‘‘
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اپنے، پرائے بلکہ اللہ کی ہر مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کی آئینہ دار ہے۔
اسلام دوسرے مذاہب کا احترام سکھاتا ہے اور رواداری کی تعلیم دیتا ہے،اسلام کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی کی تعلیم نہیں دیتا۔ یہ تمام باتیں اپنی جگہ بالکل درست ہیں لیکن ان سب کے ساتھ یہ بھی درست ہے کہ اسلام بہت سختی کے ساتھ اپنے ماننے والوں سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے دین پر پوری مضبوطی سے عمل کریں۔اپنے عقائد کو اور دین و مذہب کو کسی طرح بھی مشرکانہ و کافرانہ اعمال سے گندہ نہ کریں۔ہمیشہ اپنے مذہب کے تئیں بیدار رہیں اور اس میں کسی طرح کا سمجھوتہ نہ کریں۔من جملہ ان تعلیمات کے ایک اہم تعلیم جس کی طرف اس وقت توجہ دلانا مقصود ہے؛ یہ ہے کہ غیر مسلم کے کسی تہوار دیوالی ہو یا کوئی اور؛ اس میں کسی مسلمان کا شریک ہونا یا مبارکبادی دینا جائز نہیں ہے۔
دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے:
Fatwa ID: 274-228/B=2/1435-U
"غیرمسلموں کی ہولی، دیوالی یا ان کے کسی اور مذہبی تہوار کے موقع پر ان کو مبارکبادی دینا مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے، چنانچہ فتاوی تاتارخانیہ میں ہے کہ: ”اجتمع المجوس یوم النیروز فقال مسلم: ’خوب رسمے نہادہ اند‘، أو قال: ’نیک آئیں نہادہ اند‘ یخاف علیہ الکفر“․ الفتاوی التاتارخانیة: ۷/ ۳۴۸،”
ہم ہندوستانی مسلمان اپنے غیر مسلم بھائیوں کے ساتھ حسن سلوک اور رواداری کا معاملہ ضرور کریں مگر یاد رکھیں غیر مسلم بھائیوں کے ساتھ رواداری یا حسن سلوک کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ مسلمان دیوالی میں، ہولی میں یا غیر مسلموں کے کسی تہوار میں شریک ہوں اور ہندو عید میں، بلکہ حسن سلوک یا رواداری کا سادہ مطلب بس اتنا ہے کہ مسلمانوں کو جس طرح عید منانے کی اجازت اور چھوٹ ہوتی ہے اسی طرح ہندؤں کو ہولی منانے کی اجازت اور چھوٹ ہونی چاہیے۔ہر مذہب کا ماننے والا اپنے طور پر اپنے مذہب پر عمل کرے۔اس میں کوئی مداخلت نہ کرے ہندوستان سیکولر اور جمہوری ملک ہے اس کا بھی یہی تقاضہ ہے۔
مگر کچھ مسلمان جو اپنے کو ماڈرن اور روشن خیال کہتے اور سمجھتے ہیں؛ اس معاملے میں ان کا رویہ حد درجہ افسوسناک ہے۔
وہ غیروں کے مذہبی تہوار کی مبارک بادی دیتے ہیں اور ان میں شریک بھی ہوتے ہیں۔فیا للاسف۔۔۔۔۔
خدا کے واسطے اپنے دین و ایمان کی اور اپنے عقیدے کی حفاظت کیجئے۔
غیر مسلم بھائیوں کے ساتھ رواداری اور حسن سلوک کے ہزاروں ذرائع ہیں ۔ آپ ان کے ساتھ خیرخواہانہ معاملہ رکھئے، ان کی ضرورتوں کی تکمیل میں ان کا ساتھ دیجیے ، ان کے پریشانیوں کو حل کرنے میں ان کی مدد کیجئے۔ اس سے ہندو مسلم ایکتا اور قومی یکجہتی کو فروغ ملے گا ، یہ سب وہ کام ہیں جس سے اسلام بھی نہیں روکتا بلکہ اس کی تعلیم دیتا ہے ۔مگر غیروں کے مذہبی تہوار میں شرکت اور مبارکبادی اسلام اسے پسند نہیں کرتا بلکہ اس سے روکتا ہے۔
میں اپنی اس تحریر کا اختتامیہ حضرت والد محترم مدظلہ کے ایک ملفوظ پر کرتا ہوں جو وہ اکثر سناتے ہیں:
"مسلمان عملی طور پر کمزور تو ہوسکتا ہے مگر عقیدہ کے اعتبار سے کبھی کمزور نہیں ہو سکتا بلکہ اس کا عقیدہ توحید بالکل روشن ہوتا ہے” جس کی وجہ کر اسے تمام مشرکانہ و کافرانہ اعمال سے اتنی نفرت ہوتی ہے کہ اسے کرنا تو دور اس کے قریب جانا بھی گوارا نہیں کر تا۔
Comments are closed.