خود کا زخم دوسروں کا زخم دکھلاتا ہے__!!!

محمد صابرحسین ندوی
[email protected]
7987972043
انسان جب تک خود درد میں مبتلا نہیں ہوتا تب تک اسے دوسروں کے درد کا احساس نہیں ہوتا، اپنا درد عزیز ہوتا ہے، زخم تکلیف دیتا ہے، سینہ چھلنی کرتا ہے، تبھی کسی اور کا زخم بھی اس کے دل کو لگتا ہے، دل کی دنیا آباد ہوتی ہے، انسان جذبہ ترحم اور انسانیت سے لبالب ہوجاتا ہے، چونکہ انسان کی تخلیق میں انسیت کا مادہ ضرور ہے؛ لیکن اس کا خمیر ان عناصر اربعہ سے بنتا ہے، جو اسے خود غرضی اور خود پسندی پر ابھارتا ہے، وہ بلندی اور نفس پرستی کا خو گر ہوتا ہے، لیکن اگر اس میں دوسروں کے بھی کیف و سرور اور غم و نم مل جائیں؛ تو انسان کامل و مکمل بن جاتا ہے، وہ زخم دراصل ایک کھلا ہوا دروازہ بنتا ہے، ایک کھڑکی اور روشن دان بن جاتا ہے، جس سے انسانوں کا زخم کھل کر نظر آتا ہے، وہ اسے محسوس کر سکتا ہے، اپنا غم ہلکا کرتے ہوئے دوسروں کیلئے مداوا بن سکتا ہے، وہ خود دوا اور تشفی کا ذریعہ ہوجاتا ہے، لوگ اس سے تسکین پاتے ہیں، اس کی زبان میں اپنے درد کا بیان پاتے ہیں، اس کے دل میں اپنا دل اور سوز میں اپنا سوز پاتے ہیں، اور یوں گونگے کو زبان مل جاتی ہے، زخم کے دہانے کھل کر سامنے آجاتے ہیں، پھر یہی اس کا سامان، سرمایہ اور اثاثہ کل بن جاتا ہے، اس کی دولت دوسروں کا درد ہوتا ہے، بلکہ وہ خود کے درد کا پھایہ ہی ان ناشنیدہ درد اور زخم کو بنالیتا ہے، مرحوم کلیم عاجز صاحب کا بھی یہی ماننا تھا، اور انہوں نے اپنی زندگی کے عظیم سانحات میں بھی دوسروں کا سانحہ ہی ملا کر سب کچھ بیان کیا ہے، وہ بھی کہتے ہیں کہ اگر خود کا ہی زخم ہوتا اور دوسروں کا زخم نظر آتا تو یہ دیوان اور داستان کہاں پائے جاتے__ یہ قصہ خود کلیم عاجز صاحب مرحوم ہی کی زبانی پڑھتے جائیے!
” تعمیر آرٹ کا بنیادی مقصد ہے۔ انسانیت کے گھاو دیکھے نہیں جاتے۔ میں نے اپنھ گھاو کے آئینہ مین دنیا کے گھاو دیکھے، دونوں کی ہم آہنگی نے مجھے رلایا۔ اگر مجھے گھاو نہ لگتے تو شاید مجھے دنیا کے گھاو نظر نہیں آتے۔ مجھے اپنے گھاو سے پیار ہے، لیکن دنیا کے گھاو سے دکھ ہے۔ جی چاہتا ہے سارے گھاو مجھے لگ جائیں، دنیا کا چہرا صاف ستھرا ہو کر نکھر آئے۔
مرے دل کو ہے جنوں سے بڑی اعتقاد مندی
تیرے سامنے اسی نے مجھے جرات سخن دی
یہی احساس فن ہے، لیکن یہ احساس فن کیسے بنتا ہے، اور کیسے بنا، یہ مجھے پتہ نہیں___ اگر اپنا ہی زخم شعر بن سکتا ہے، تو ۱۹۴۶ء کے بعد میں فورا شعر کہنے لگتا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ درمیان میں پانچ چھ سال کا وقفہ ہے۔ اس زخم نے مجھے آنکھیں عطا کیں اور وہ نظریں بخشیں جن سے میں اوروں کے زخم دیکھنے کے قابل ہوا، اور زخموں نے آپس میں رابطہ پیدا کیا اور یہ فن کیلئے راستہ بنا۔ اسی ترتیب کا نام غم دل اور گم دوراں کا امتزاج، غم جاں اور غم جاناں کا اشتراک، غم عشق اور غم روزگار کا اتحاد ہے۔ بغیر اس امتزاج، اشتراک اور اتحاد کے دیر پا فن وجود میں نہیں آسکتا۔ یہ باتیں میں ایک سخن شناس اور سخن فہم کی حیثیت سے کہہ رہا ہوں۔ شاعر کی حیثیت سے نہیں۔ جب میں شعر کہتا ہوں تو مجھے یہ سب کچھ یاد نہیں رہتا۔ شعر کہتے ہوئے نہ میرے ذہن میں کوئی مقصد رہتا ہے، نہ موضوع نہ کوئی منزل۔ بس ایک کشمکش رہتی ہے، ایک کرب رہتا ہے، ایک خوشگوار کرب۔ ایک تڑپ رہتی ہے، ایک خوش آہنگ تڑپ، دل کے جوڑوں میں ایک اینٹھن رہتی ہے۔ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں”_ (وہ جو شاعری کا سبب ہوا___: ۱۷۴_۱۷۵)
27/10/2019
Comments are closed.