میں نہ کہتا تھا…………

 

تحریر : مسعود جاوید

 

پچھلے پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے آسام میں آل انڈیا یونایٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ(بدرالدین اجمل) کے ساتھ اتحاد نہ کرنے کی جو غلطی کی تھی اس کا خمیازہ بھگتنے کے بعد آسام کانگریس کے لیڈر اور سابق وزیر اعلی رنجن گگوءی نے اعتراف کیا اور یو ڈی ایف کے ساتھ اتحاد کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔۔۔۔۔ دیر آید درست آید

ادھر بہار میں ہندوستانی عوام پارٹی "ہم” کے سربراہ نے مجلس اتحاد المسلمین کی فتحیابی کو خوش آمدید کہا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ یہ جیت دلت مسلم اتحاد کی راہ ہموار کرے گی۔۔۔ بالفاظ دیگر مجلس اب بہار میں اچھوت فرقہ پرست بی جے پی کی بی ٹیم نہیں رہی۔

ایک عرصے سے میں یہ لکھتا رہا ہوں کہ یو ڈی ایف اور ایم آئی ایم زمینی کام کر رہی ہیں دیر یا سویر sooner or later نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو ان مسلم پارٹیوں کو نظر انداز کرنا آسان نہیں ہوگا۔۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ برساتی مینڈک کی طرح انتخابات کے موسم میں اچانک ظہور پذیر ہونے کے بجائے شمالی ہند کے مسلمان سیاسی سماجی اور تعلیمی میدان میں ایماندارانہ جائزہ لیں اور احتساب کریں کہ کیا واقعی وہ قیادت کے مستحق ہیں۔ کیا دہلی کی سیاسی راہداریوں میں گشت اور اپنی شناخت بنانا عوامی مقبولیت سے ہمکنار ہونے کے لئے کافی ہے؟ سیاسی شناخت اور مقبولیت کے لئے اولین ضرورت ان کا اپنے حلقہ انتخابات میں عوام سے جڑنا آن کے دکھ درد کو سمجھنا سرکاری دفاتر اور پولیس محکموں میں ان کی پیروی کرنا سرکاری اسکیموں سے مستحقین کو روشناس کرانا ان مستحقین کو اسکیموں کا فائدہ اٹھانے میں مدد کرنا وغیرہ وغیرہ ہے

یہ زعم کہ ہمارے آباء و اجداد قیادت کی چوٹی پر رہ چکے ہیں اس لیے اجمل اور اویسی ہمارے یہاں قابل تقلید نہیں ہیں، دانشمندانہ رجحان نہیں ہے۔ Born to lead کا خواب دیکھنا بند کریں اور بدلتے وقت کے مزاج کو سمجھیں۔ ایک مخصوص طبقے کی کوشش تھی کہ آپ کو بے وقعت بنا دیا جائے لیکن جن لوگوں نے سیاسی شعور اور استقامت کو اپنایا انہوں نے اپنا سکہ منوا لیا اپنی حیثیت کا اعتراف کرالیا مگر جو لوگ دوسروں کے چھتر چھایا میں جینے کیے عادی ہو چکے ہیں انہیں قیادت کی سطح پر کبھی آنے نہیں دیا جائے گا دوسروں کے جھنڈے اٹھاتے رہنا ان کا مقدر ہے وہ دوسروں کے لیے اسٹیج سجاتے ہیں مگر ڈائس پر ان کو جگہ نہیں ملتی بینر میں ان کے فوٹو نہیں ہوتے ۔ وہ زمانہ لد گیا جب انہیں نمایاں مسلم چہروں کی تلاش ہوتی تھی اب تو آپ کا نام آپ کے مساءل کا ذکر کرنے سے بھی

بعض سیکولر لیڈر ڈرتے ہیں کہ کہیں اکثریت ناراض نہ ہو جائے۔ سیکولر فرقہ وارانہ رواداری اور انسان دوست غیر مسلموں کے ساتھ مل کر ملک و ملت کے مفاد میں تنظیم کی تشکیل ہو اور بلا تفریق مذہب و برادری خدمت کر کے اپنی پہچان بنانے سے ہی آپ سیاسی طور پر باوقعت ہوں گے۔

Comments are closed.