جمعہ نامہ : بیدار قیادت وبے لوث اطاعت اور انبیائی حکمت واللہ کی نصرت

 

ڈاکٹر سلیم خان

امت کی آزمائش پر گفتگو میں اکثر مکی واقعات پیش کیے جاتے ہیں حالانکہ ان میں شعب ابی طالب کا مقاطعہ کے علاوہ اکثر انفرادی نوعیت کےمظالم ہیں۔ اجتماعی سطح پر امت پرسب سے مشکل وقت غزوۂ احد اور احزاب کے درمیان کا زمانہ تھا۔ اس وقت کے سخت حالات کا اندازہ منافقین کے اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے کہ :’’ ہم سے وعدے تو قیصر و کسریٰ کے ملک فتح ہو جانے کے کیے جا رہے تھے ،اور حال یہ ہے کہ ہم رفع حاجت کے لیے بھی نہیں نکل سکتے۔‘‘ قرآن حکیم میں یہ کیفیت یوں بیان کی گئی ہے کہ ’’وہ اس طرح دیدے پھرا پھرا کر تمہاری طرف دیکھتے ہیں جیسے کسی مرنے والے پر غشی طاری ہو رہی ہو‘‘۔جنگِ اُحْد میں تیر اندازوں کی غلطی نے لشکر اسلام کی فتح کے شکست میں بدلنے سے یہ صورتحال رونما ہوئی تھی۔

نبیٔ کریم ﷺ نےاس ناکامی کے نفسیاتی اثرات کو زائل کرنے کی خاطر جو اقدامات کیے ان میں قائدین ملت کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ قریش جب احد سے پورافائدہ اُٹھائے بغیر لوٹنے لگے تو آپ ؐ نے اسے عافیت سمجھنے کے بجائے ۳۶۰ صحابہ کے ساتھ تعاقب فرمایا ۔ دشمنانِ اسلام تک یہ پیغام پہنچانے کے لیے کہ شکست کے باوجود ہمارے حوصلے بلند ہیں یہ اقدام ضروری تھا ۔ دور الرَّوحأ پہنچ کر ابو سُفْیان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اس نے پلٹنے کا ارادہ کیا مگر تعاقب دیکھ کر لوٹ گیا ۔ آپ ؐ نے حَمْرأالاسد میں ۳روز تک قیام فرمایا۔ ابوسفیان آئندہ سال بدرکے مقام پر مقابلہ کا چیلنج کرکے لوٹ گیا۔ اس کے جواب میں مفاہمت کی سعی کرن کےے بجائے شعبان ۴ ھ میں آپؐ پندرہ سو صحابہ کے ساتھ میدانِ بدرپہنچ گئے اور ۳ ہفتہ قیام فرمایا نتیجتاً ابو سُفیان کو اپنے دو ہزار کے لشکر سمیت مُرَّالظَّہران سے لوٹ گیا ۔ اس طرح امت کا کھویا ہوا اعتماد بحال ہوگیا اور دشمن پر دوبارہ دھاک بیٹھ گئی۔

مسلمانوں کی شکست نے دیگر قبائل کا حوصلہ بڑھا دیا ۔ دو ماہ بعد نجد کے قبیلۂ بنی اَسَدْ نے مدینہ طیّبہ پر چھاپا مارنے کی تیاریاں کیں مگر نبی کریم ﷺ نے ا س کی سر کوبی کے لیے سَرِیَّۂ ابو سَلَمہ کا اہتمام فرمایا ۔۴ھ میں ۶مبلغین اسلام پرقبیلۂ ھُذَیل نے شب خون مارا جس میں ۴ مسلمان شہید ہوئے اور ۲ کوغلام بناکر دشمنان اسلام کے ہاتھ مکّہ معظمہ میں فروخت کردیا گیا نیز بنی عامر کی طرف جانے والے ۴۰انصاری مبلغین کو بنی سُلیم کے قبائل عُصَیَّہ ، رِعْل اور ذکْو نے کو شہید کر دیا۔یہودی قبیلہ بنی النَّضِیر نےربیع الاوّل ۴ ھ نبی ﷺکو شہید کر نے کی سازش کر ڈالی۔محاصرے کےبعد انہیں ملک بدر کردیا گیا۔جمادی الاولیٰ ۴ھ میں بنی غَطَفان کے دو قبیلوں ، بنو ثَعْلَبَہ اور بنو مُحَارِب نے مدینہ پر حملے کی تیاریاں کیں تو نبی کریم ﷺ نے خود انہیں روکنے کے لیے ۴۰۰ کے لشکر کی قیادت فرمائی ۔

اس تناظر میں غزوۂ خندق برپا ہوئی اور تین ہزارمومنین کے ساتھ خندق کی آڑ میں دس بارہ ہزارکےقریشی لشکر سے مدافعت کی گئی ۔ بنو قریظہ اور ان کے درمیان پھوٹ پڑنے کے بعد جب سخت آندھی نے ان کے خیمے الٹ دیئے اور افراتفری کے عالم میں وہ راتوں رات لوٹ گئے تو نبی ﷺنے میدان کو دشمنوں سے خالی دیکھ کر ارشاد فرمایا:’’اب قریش کے لوگ تم پر کبھی چڑھائی نہ کر سکیں گے۔ اب تم ان پر چڑھائی کرو گے ‘‘۔ منافقین سے برعکس اس معرکہ میں مومنین کی کیفیت اس طرح بیان ہوئی ہے کہ ’’ جب انہوں نے حملہ آور لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ یہ وہی چیز ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا، اللہ اور اُس کے رسولؐ کی بات بالکل سچّی تھی۔ اِس واقعہ نے اُن کے ایمان اور ان کی سپردگی کو اور زیادہ بڑھا دیا۔ ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے ۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے ‘‘۔بیدارقیادت، بے لوث اطاعت ، انبیائی حکمت اور اللہ کی نصرت سے حالات بدلتے ہیں ۔ شاعر دعا کرتا ہے؎

لا پھر ایک بار وہی بادہ و جام اے ساقی

ہاتھ آجائے مجھے میرا مقام اے ساقی

Comments are closed.