جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات : حقائق و امکانات

 

 

امجد صدیقی

رکن بصیرت آن لائن

 

حالیہ مہاراشٹر و ہریانہ کے اسمبلی انتحابات کے نتائج آتے ہی کئی طرح کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں

آج ہی الیکشن کمیشن نے جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات کی تاریخ اور مراحل بھی مقرر کردئے ، اسی مہینے کی 30 تاریخ سے ووٹنگ شروع ہوکر 20 دسمبر کو اختتام پذیر ہوگی ، اور نتائج کا اعلان 23 کو ہوگا

الیکشن کمیشن نے کن مصلحتوں کے پیش نظر پانچ مراحل میں صرف 81 اسمبلی سیٹوں کو تقسیم کیا ہے ، وہ ان کا معاملہ ہے ، حالانکہ اتنے مراحل اس چھوٹی سی ریاست کے لئے کچھ ہضم نہیں ہوئے ، لیکن مصلحت تو ضرور ہوگی

جھارکھنڈ میں کل 81 اسمبلی سیٹیں ہیں ، جن میں دو کروڑ چھبیس لاکھ رائے دہندگان ہیں ،گزشتہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی اکثریت کے ساتھ سورین حکومت کا تختہ پلٹ کر حکمراں بنی، جو پہلی بار جھارکھنڈ میں غیر قبائیلی ہوئی،

اب پھر آزمائش کی گھڑی آگئی ہے ، یہ آزمائش عوام اور حکمراں دونوں کے لئے ہے ، بی جے پی اپنی پانچ سالہ ناقص کارکردگی کو یاد دلانے کی ناکام کوشش کر رہی ہے ،

اپوزیشن میں بھی بڑی پارٹیاں اپنی روشن و تابناک تاریخ کے ساتھ عوام کے مابین وجود کو تسلیم کرانے میں ایڑی چوٹی کے زور لگا رہی ہے

ایک طرف جھارکھنڈ مکتی مورچہ جو سیکولر ہونے کا یقین دلاتے ہوئے کامیاب ہوچکی ہے کہ وہ سیکولر ہے ، عوام کی نظر میں بھی غالبا وہ سیکولر ہے ، پھر اتحاد بھی ایسی پارٹی سے کیا ہے جس کی سیکولرزم خاندانی ، تاریخی، اور موروثی شناخت ہے ، اتنی وضاحت کے بعد شاید نام لینے کی ضرورت محسوس نہ ہو کہ وہ کانگریس ہے ،

گزشتہ الیکشن میں کانگریس کا جھارکھنڈ میں جو حال ہوا تھا وہ تو صرف باعث افسوس ہی ہے ، اس بار کانگریس کے سامنے پوری صورت حال موجود ہے اسلئے دوبارہ وہ غلطی اگر دہراتی ہے تو وہ کھلی حماقت ہوگی ، جے وی ایم ، بھی ایک با اثر اور بڑی بارٹی ہے جس کے پاس ووٹ بینک کے ساتھ ساتھ سیکولر نظریاتی بینک بھی ہے ، کئی مرتبہ عوام کو اپنے اوپر کے دانت دکھاکر ، بعد میں نیچے والے دانت نکال کر تنہائی میں مسکرائی بھی

آجسو بھی با اثر ہے لیکن ، اپنے بے اثر اور پھیکے پن کو محسوس کرتے ہوئے بی جے پی سے ہاتھ ملا چکی ہے ،

لیکن اس مرتبہ جھارکھنڈ کے اسمبلی انتخابات کچھ زیادہ ہی سرخیاں بٹورنے میں لگے ہیں ، اس لئے کہ اس بار ایم آئی ایم بھی اپنے امیدوار اتارنے کا فیصلہ کیا ہے ،

جو واقعی دلچسپ اور پر لطف ہوگا

چند روز قبل رانچی کے ایک انتخابی اجلاس میں شرکت کے لئے آئے ایم آئی ایم صدر اسد الدین اویسی نے اس طرف اشارہ بھی کیا ہے ،

اس اجلاس میں اسد الدین اویسی صاحب کی شرکت اور اجلاس میں اویسی صاحب کے مداحوں کے جم غفیر کو دیکھکر محسوس ہوا تھا ، کہ جھارکھنڈ میں اویسی صاحب کے شاندار استقبال سے امکانات پیدا ہوئے ہیں ، اب یہ امکانات کب حقائق کی شکل میں تبدیل ہوتے ہیں وقت پر چھوڑ دیجئے،

امکانات تو پیدا ہوتے ہی ہیں ، اور ہوں گے

اویسی صاحب کے رانچی عوامی اجلاس کا خطاب بہت شاندار اور معتدل ومتوازن تھا ، آدیواسی ، و مسلم اور دلتوں کے تئیں اپنی ہمدردی کا اظہار کیا تھا ، جو میرے نزدیک بہت بہتر اقدام ہے ،

لیکن یہاں جاکر میرے ذہن و قلب میں وسوسے پیدا ہورہے ہیں کہ صرف ایک عوامی جلسے ، اور ایک سفر ہی سے جھارکھنڈ کے عوام کا رجحان کا اندازہ لگانا شاید درست نہ ہو ، پھر ساتھ میں یہ امکان بھی پیدا ہورہا ہے کہ کہیں فرقہ پرست پارٹیوں کو اویسی صاحب سے فائدہ نہ مل جائے ، اور بی جے پی کے ایجنٹ والا الزام صحیح ثابت نہ ہوجائے ،

ابھی اویسی صاحب کا جھارکھنڈ میں امیدوار اتارنا شاید جلدبازی ہورہی ہے، اب اتارتے بھی ہیں یانہیں اس پر حتمی فیصلہ ابھی باقی ہے ، لیکن میں تو کہتا ہوں کہ پہلے انہیں عوام کو اپنے اعتماد میں لینا تھا ، راستے ہموار کرنے تھے ، قیادت کو مضبوط کرنا تھا ، جو طویل وقت کے متقاضی ہے ، بہرحال اسد الدین اویسی صاحب کی جھارکھنڈ میں انٹری سیاسی پیچ و خم میں کچھ نہیں تو ،خم کا اضافہ ضرور کرے گی ،اگر مسلمانوں کے ساتھ آدیواسی ،دلتوں کا اعتماد اویسی صاحب کے لئے بحال ہوجائے تو ، سیکولر پارٹیوں کا، نقاب سیکولر فاش ہوجائے گا

حالیہ مہاراشٹر انتخابات میں دو سیٹوں ، اور کشن گنج کی ایک سیٹ میں فتح ملتے ہی حوصلہ بڑھا ہے ، اور یہی جیت جھارکھنڈ کے لئے عزم سفر کا سبب بن سکتی ہے، جھارکھنڈ میں تقریبا آبادی کا 15 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے

اس پندرہ فیصد کا اتحاد فیصلہ کن ثابت ہوسکتا ہے

لیکن جھارکھنڈ کے مسلمانوں میں ، تعلیم ، اقتصادیات، معاشیات ، کے بہتر اور مضبوط ہونے کے باوجود سیاسی شعور کا فقدان رہا ہے ،

جس پر افسوس مستقل ایک طویل مضمون میں کیا تھا

جہاں تک حکمراں پارٹی بی جے پی کا تعلق ہے ،تو اپنی ناقص کارکردگی سے ہی مطمئن ہے ،

عوام کے سامنے لانے کےلئے ان کے پاس کوئی مضبوط ایجنڈا نہیں ہے ، جس سے اپوزیشن کو فائدہ مل سکتا ہے

اپوزیشن کے لئے موب لینچنگ کی کثرت بہترین ایجنڈا ثابت ہوسکتی ہے ،

اس لئے بی جے پی کی حریف پارٹیوں کے لئے امکانات کچھ بہتر ہیں ، جے ایم ایم اور کانگریس کا اتحاد کارگر اور مفید ثابت ہوسکتا ہے ،چونکہ گزشتہ انتخابات میں سورینی پارٹی دوسری سب سے بڑی پارٹی ثابت ہوئی تھی ،پھر سابق میں نہایت ہی شان ،بان سے یہ حکومت بھی کر چکی ہے ، لہذا کانگریس سے اس کا اتحاد سیکولر ووٹوں کی تقسیم سے بچاؤ کا سبب بن سکتا ہے

لیکن یہاں پر اسد الدین اویسی صاحب کو بھی دور اندیشی سے کام لینا پڑے گا

اور اس کا الٹا

یعنی کانگریس اور جے ایم ایم کو بھی دور اندیشی کے ساتھ انانیت کو ختم کرنی پڑے گی ،

ورنہ تو سیدھا فائدہ رگھورداس کو ملنے والا ہے

یاد رکھیں ، سیاست کا تعلق ہر شعبے سے ہے ، ہم سمجھتے ہیں کہ سیاست سے صرف تعلیمی ،اقتصادی اور معاشی متعلقات ہی وابستہ ہیں

حالانکہ بہتر سیاسی سمت سے ،مضبوط اور مستحکم حکومت کی بنیاد پڑتی ہے ، اور حکومت کا تعلق سماج کی ہر خیر و شر سے ہے

بہتر حکومت سے سماجی و ملکی ترقیات کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے ،مسلکی و مذہبی منافرت سے پاک حکومت کے قیام میں پر امن فضااور پر سکون سماج کے قیام کی بنیاد مضمر ہے.

[email protected]

Comments are closed.