Baseerat Online News Portal

حوصلہ افزائی، تملق و مدح سرائی : شرعی حدود و احکام

 

مفتی شکیل منصور القاسمی

 

انسانوں میں اللہ تعالی نے خوبیاں بھی رکھی ہیں اور خامیاں بھی! فألهمها فجورها وتقواها.

عام انسان، بشری جبلت کے بموجب غلطیاں بھی کرتا ہے، اس سے گناہ اور قابل ذم امور بھی صادر ہوتے ہیں اور اسی سے خیر، صلاح وفلاح اور قابل مدح وستائش کام بھی انجام پاتے ہیں ۔

انسانوں کی نیت، قلبی کیفیت، باطنی احوال اور ایمانی اوصاف پہ اطلاع وآگہی ذات باری کے سوا کسی بھی انسان کو ہر گز نہیں ہے، ظاہری حرکات وسکنات، باطنی کیفیات کو چانچنے اور پرکھنے کی علامات محضہ ہیں ، حقیقی معیار وتھرمامیٹر ہرگز نہیں !

انسان طبعی طور پر اپنی تعریف وتوصیف سن کر خوش ہوتا ہے، اور نقد وذم سے شکستہ ورنجور!

اگر یہ معلوم ہو کہ سامنے والا شخص اپنی مدح سرائی سے خود پسندی اور عجب نفس میں مبتلا ہوکر کوتاہی عمل کا شکار نہ ہوجائے تو اس اطمنان کے وقت اچھا کام کرنے پر صدق نیت سے سادہ لفظوں میں ایسے شخص کی اچھائیوں اور خوبیوں کی تعریف کرنا، تحریک عمل اور نشاط پیدا کرنے کے لیے اس کی ہمت افزائی کرنا اور اس کے حق میں مبالغہ آرائی، کذب وریاء سے پاک توصیفی کلمات کہنا ، نہ صرف جائز ؛ بلکہ سنت رسول سے ثابت ہے اور مستحسن عمل ہے ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متعدد صحابہ کرام کی تعریف وتوصیف کرتے ہوئے فرمایا ہے :

"نِعْمَ الرَّجُلُ أَبُو بَكْرٍ نِعْمَ الرَّجُلُ عُمَرُ نِعْمَ الرَّجُلُ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ نِعْمَ الرَّجُلُ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ نِعْمَ الرَّجُلُ ثَابِتُ بْنُ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ نِعْمَ الرَّجُلُ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ نِعْمَ الرَّجُلُ مُعَاذُ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ” (سنن الترمذی 3810، و 7107،باب مناقب معاذ بن جبل )

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی تعریف بھی آپ نے اس طرح بیان فرمائی:

"نِعْمَ الرَّجُلُ عَبْدُ اللَّهِ لَوْ كَانَ يُصَلِّى مِنَ اللَّيْلِ”. قَالَ سَالِمٌ فَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بَعْدَ ذَلِكَ لاَ يَنَامُ مِنَ اللَّيْلِ إِلاَّ قَلِيلاً. [صحیح البخاری 1083، کتاب الجمعہ، ومسلم 4633، کتاب فضائل الصحابہ، باب من فضائل عبد اللہ بن عمر )

چونکہ کسی انسان کو دوسرے انسان کے باطنی اور قلبی احوال و کیفیات کا حقیقی علم وادراک یقینی طور پر معلوم ہے نہیں ، اس بابت وہ جو کچھ بھی کہے گا ظن وتخمین پر ہی مبنی ہوگا، اس لئے اس مسئلے میں بھی شریعت نے اپنے پیروکاروں کو شتر بے مہار کی طرح ، مادر پدر آزاد نہیں چھوڑدیا ؛ بلکہ ہدایت یہ فرمائی ہے کہ تعریف کرتے وقت یہ نہ کہے کہ فلاں یقینا ایسے ہیں ویسے ہیں ؛ بلکہ یوں کہے کہ میرا خیال ہے کہ فلاں ایسا ہے یا آپ ایسے ہیں ۔

عن عبد الرحمن بن أبي بكرة، عن أبيه، قال: أثنى رجل على رجل عند النبي صلى الله عليه وسلم ، فقال: «ويلك قطعت عنق صاحبك، قطعت عنق صاحبك» مرارا، ثم قال

«من كان منكم مادحا أخاه لا محالة، فليقل أحسب فلانا، والله حسيبه، ولا أزكي على الله أحدا أحسبه كذا وكذا، إن كان يعلم ذلك منه»

«صحیح البخاری/الشہادات 2662 ) ، الأدب ۹۵ ( ۶۱۶۲ ) ، صحیح مسلم/الزہد ۱۴ ( ۳۰۰۰ ) ، سنن ابی داود/الأدب ۱۰ ( ۴۸۰۵ ) ، ( تحفة الأشراف : ۱۱۶۷۸ ) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ۵/۴۱ ، ۴۶ ، ۴۷ ، )

(جناب ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک آدمی کی تعریف کی تو آپ نے فرمایا: ”افسوس! تم نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی“، اس جملہ کو آپ نے کئی بار دہرایا، پھر فرمایا: ”تم میں سے اگر کوئی آدمی اپنے بھائی کی تعریف کرنا چاہے تو یہ کہے کہ میں ایسا سمجھتا ہوں، لیکن میں اللہ تعالیٰ کے اوپر کسی کو پاک نہیں کہہ سکتا“

یعنی میں یہ نہیں جانتا کہ حقیقت میں اللہ کے نزدیک یہ کیسا ہے ؟ میرے نزدیک تو اچھا ہے)

 

ممدوح کی حقیقی حوصلہ افزائی، سادہ لہجے، معتدل ومتوازن اسلوب، پیار بھرے انداز میں کرنا (بشرطیکہ اسے عجب وغرور میں مبتلا ہوجانے کا گمان غالب نہ ہو ) تو جائز، بلکہ باعث اجر وثواب ہے، کیونکہ اس سے مایوس وہمت شکستہ افراد کو حوصلہ ملتا، ڈھارس بندھتی اور تحریک وتقویت عمل پیدا ہوتی ہے ؛ لیکن کسی کی خوشامد، مدح خوانی، قصیدہ گوئی، جسے حدیث رسول میں "ملق ” تمادح ” کہا گیا ہے، ہم لوگ اپنی زبان میں اسے تملق وچاپلوسی کہتے ہیں، یعنی کسی شخص کی تعریف وتوصیف میں زمین وآسمان کے قلابے ملادینا اور اسے ایسے اوصاف سے متصف کرنا جن کا ممدوح میں نام ونشان تک نہ ہو ، صریح جھوٹ، ریاء ومنفافقت ہے اور گناہ کبیرہ ہے ۔

ایسی مواقع پہ تعریف وتوصیف میں اٹکل پچو کے تیر چلائے جاتے، ذاتی مفادات ومراعات کے حصول کے لئے محبت کے لمبے چوڑے دعوے کئے جاتے ہیں جبکہ دل محبت سے خالی ہوتا ہے ، یوں اس میں نفاق اور ریاء کاری دونوں پائے جاتے ہیں، ممدوح بھی اپنی تعریف سن کر پہول جاتا ، خود کو قابل مدح سمجھنے لگتا اور اعمال خیر میں کوتاہی عمل کا بری طرح شکار ہوجاتا ہے ؛ اس لئے تملق وچاپلوسی وخوشامد کی حرمت میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے۔

حوصلہ افزائی میں حقیقی مقصد، حق گوئی اور پیار بھرا اسلوب ہوتا ہے، ممدوح میں اس سے خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے؛ اس لئے یہ جائز ہی نہیں ،مستحسن بھی ہے

جبکہ بیجا مدح سرائی اور خوشامد میں کذب بیانی، ریاء کاری، نفاق ، خود غرضی، اور بہروپیا پن ہوتا ہے، اس سے ممدوح میں عجب وکبر پیدا ہوجاتا ہے؛ اس لئے یہ ناجائز اور حرام ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شنیع حرکت سے سختی سے منع کرتے ہوئے اسے ممدوح کے لئے "ذبح "قرار دیا ہے :

إياكم والتمادح فإنه الذبح، ابن ماجہ 3743

(خوشامد سے بالکل بچو ،کیونکہ ذبح کردینے کے برابر ہے )

 

وإيَّاكُم والتَّمادحَ فإنَّهُ الذَّبحُ وروَى ابنُ ماجَه منهُ : إيَّاكُم والتَّمادحَ فإنَّهُ الذَّبحُ

أخرجه البخاري (3116)، ومسلم (1037) أوله في أثناء حديث، وابن ماجه (221، 3743) مفرقاً، وأحمد (16846) واللفظ له

 

یہ اتنا گھٹیا اور گھنائونا عمل ہے جو کسی مسلم سے صادر ہی نہیں ہوسکتا :

ليسَ مِن أخلاقِ المؤمنِ التَّملُّقُ، ولا الحسَدُ، إلا في طلَبِ العلمِ

(عن معاذ بن جبل. السيوطي.الجامع الصغير. الرقم: 7652.والحدیث ضعيف.)

 

خلاف واقعہ مبالغہ آمیز مدح سرائی ، منبع اوصاف وکمالات، وجہ تخلیق کون ومکان، محبوب باری، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے لئے بھی منع فرمادی ہے، پہر عام انسانوں کے لیے یہ کیسے گورا کی جاسکتی ہے ؟، ارشاد نبوی ہے:

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ سَمِعَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، يَقُولُ : عَلَى الْمِنْبَرِ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ ، فَقُولُوا : عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ.

( میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مجھے میرے مرتبے سے زیادہ نہ بڑھاؤ جیسے عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کو نصاریٰ نے ان کے رتبے سے زیادہ بڑھا دیا ہے۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں، اس لیے یہی کہا کرو ( میرے متعلق ) کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں- ( صحیح البخاری : ٣٤٤٥ )

اس حدیث میں غیر واقعی چیزوں پہ تعریف کرتے ہوئے مبالغہ آرائی اور حضور کی جانب ایسی چیزیں منسوب کرنے سے منع کیا گیا ہے جو حضور میں موجود نہیں

جیسے حضور کے لئے علم غیب ، حاضر وناظر یا اختیار کلی جیسی چیزیں منسوب کردینا ،

کیونکہ یہ چیزیں صرف اللہ کی خصوصیات ہیں

حضور باوجود جملہ خصوصیات کے لوگوں کے ان دعاوی محضہ سے متصف نہیں ،جیسے عیسی ابن مریم جملہ معجزات کے علی الرغم ابنیت خداوندی سے متصف نہیں ہیں

حضور نے اس حدیث میں خود اپنے لئے بیجا مدح سرائی اور تعریف وتو صیف میں حدود سے تجاوز کر جانے کو منع فرمایا ہے ، حقیقی چیزوں کی تعریف کی ممانعت نہیں ۔

 

ایک آیت کے عموم سے تملق وچاپلوسی پہ خوش ہونے والے شخص کے لئے عذاب جہنم کی سخت وعید بھی ثابت ہوتی ہے:

لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوا وَّيُحِبُّونَ أَن يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُم بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( اور (کہہ دیجئے) ان لوگوں کو جو اپنے کرتوت پر اتراتے ہیں اور کیا (کچھ بھی) نہیں۔ اور (اس پر) خواہشیں کرتے ہیں کہ ہماری تعریف ہو۔ سو ان کی نسبت یہ نہ سمجھنا کہ انہوں نے عذاب (دوزخ) سے رستگاری حاصل کرلی ہے (بلکہ) ان کے لئے (تو) عذاب دردناک (تیار ) ہے، تفسیر حقانی

آل عمران 188)

 

*آج کا اخلاقی وسماجی ناسور:

خوشا مد ، مدح سرائی، تملق، قصیدہ گوئی آج معاشرے کا اخلاقی ناسور بن گیا ہے، سوشلستان میں لائک وکومنٹس کی شکل میں اس مرض کا تعدیہ کچھ زیادہ ہی ہورہا ہے، خود ستائشی کا مزاج ایسا بنتا جارہا ہے کہ اگر کسی کی تخلیقات وتحریرات پہ توصیفی تبصرے نہ کئے جائیں تو تعلقات میں بد مزگی تک پیدا ہوجارہی ہے، جبکہ شریعت اسلامیہ نے اس کے انسداد کا تاکیدی حکم دیاا اور اس کے سنگین نتائج بد سے آگاہ بھی کیا ہے، حقیقی خوبیوں پہ حوصلہ افزا کلمات کہنا بلاشبہ جائز ہے، اس میں جادوئی اثر انگیزی مخفی ہوتی ہے ، اس سے حوصلے جواں ہوتے، عزم کو پختگی ملتی ہے، صلاحیتیں نکھرتی ہیں، جبکہ خوشامد وچاپلوسی سفید جھوٹ ، مبالغہ آرائی اور ریاء ونفاق ہے، یا ان چیزوں کی آمیزش ہوتی ہے۔ اس میں مدٌاح کی ذاتی منفعت چھوڑ کے باقی سب کے لئے عظیم نقصانات ہیں، تواضع وللہیت کو کام میں لاتے ہوئے اس سرطان سے بچا جاسکتا ہے، واگرنہ اس کے مہلک جراثیم بالکل سبک گامی سے ہمارے دین وایمان میں سرایت کر اس کا تیا پانچا کرکے ہی چھوڑیں گے ، اللہ تعالی ہماری اس سے مکمل حفاظت فرمائے ۔آمین

Comments are closed.