ماہ ربیع الاول کا پیغام – امت مسلمہ کے نام

 

مولانا محمد قمرالزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

 

ماہ ربیع الاول عالم انسانیت کے لئے موسم بہار اور فصل ربیع کا مہینہ ہے ۔یہ وہ مقدس ،محترم اور متبرک مہینہ ہے جس کی بارہ تاریخ کو (اور بعض روایت کے مطابق نو تاریخ کو) انسانیت کے سب سے بڑے مسیحا، محسن ،غم خوار یعنی حضور اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نبی و رسول داعی و مبلغ بن کر اس دنیا میں تشریف لائے ۔ چونکہ اللہ تعالٰی کو آپ کو آخری رسول و نبی بنانا تھا اور آپ کو خاتم النبیین بنا کر سلسلئہ بنوت کو آپ پر ختم کرنا تھا اور پھر نبوت و رسالت کی اس عظیم ذمہ داری، فرض اور کام کو آپ کے جانشین علماء کے سپرد کرنا تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پروش اور نشو و نما ایک خاص ماحول ، مخصوص انداز اور طریقہ سے ہوئ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا *ادبنی ربی فاحسن تادیبی* میرے رب نے مجھے ادب سکھایا اور کیا ہی خوب ادب سکھایا ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے پہلے کی زندگی اور آپ کے اعمال و افعال اور کردار و اخلاق بھی پوری انسانیت کے لئے نمونہ ہے آپ سے نبوت سے پہلے بھی کبھی ایسا عمل صادر نہیں ہوا جو تہذیب و معاشرت اور انسانیت کے خلاف ہو، آپ ہمیشہ لوگوں کی نگاہ اور نظر میں نبوت و رسالت ملنے سے پہلے بھی امین و صادق تھے لوگ اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھا کرتے تھے اور آپ سے بڑھ کر وہاں یعنی عرب سوسائٹی اور معاشرہ میں کوئ معتمد اور امین و صادق نہیں تھا ۔ ہجرت مدینہ کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس لئے روکا تھا تا کہ لوگوں کی امانتیں آپ کے پاس ہیں وہ ان تک ایک ایک کرکے واپس کردیں ۔

چالیس سال کی عمر میں اللہ تعالی نے آپ کو نبوت و رسالت سے سرفراز کیا اور آپ کی رسالت و نبوت پر ختم رسالت اور ختم نبوت کی مہر لگا دی ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فرض منصبی کو زینت بخشی اس کو سنبھالا اور ایک عالمی نبی اور رسول کے طور پر عالمی دعوت و تبلیغ کے مشن کو عام کیا اور توحید و رسالت کی حقیقت کو انسان کو بتانا شروع کیا۔ انسان کو اس کے مقصد تخلیق سے واقف کرایا۔ تو دوسری طرف سماج سے ظلم و ستم تشدد و نفرت اور اونچ نیچ کے ماحول کو ختم کیا ۔ انسانیت جو سسک رہی کراہ رہی تھی اور وہ طبقہ جو ظلم و ستم کا تختئہ مشق بنا ہوا تھا ان مظلوم و بے سہارا انسانوں کو سہارا دیا اور ان کے لئے نجات دہندہ ثابت ہوئے اور غلام اور طبقئہ نسواں جو سب سے مظلوم طبقہ تھا ان کے لئے آپ سہارا بنے اور سماج میں ان کو کھویا ہوا مقام و مرتبہ دلایا ۔

غرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں انسانیت کو شرک و بت پرستی کے بھیانک دلدل سے نکالا اور جام توحید سے سرشار کیا وہیں مظلوم و بے سہارا انسانیت کے لئے آپ دنیا کے سب سے بڑے مسیحا ثابت ہوئے ۔ شاعر نے کیا حقیقت کی ترجانی کی ہے :

 

خود نہ تھے جو راہ پہ اوروں کے ہادی بن گئے

کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کر دیا

 

ماہ ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے اور آج اس کی ۵/ تاریخ ہے اس مہینہ کو مسلمان رسمی انداز میں بڑی گہما گہمی میں گزارتے ہیں ۔ سیرت کے موضوع پر جلسے و جلوس ہوتے ہیں اکثر شہروں قصبوں اور دیہاتوں میں اعلی پیمانہ پر جلوس محمدی نکالتے ہیں ۔ نعتیہ مشاعرے ہوتے ہیں میلاد النبی کی محفلیں قائم ہوتی ہیں بلکہ بہت سی جگہ تو لوگ نادانی اور جہالت میں ڈھول اور تاشے کے ساتھ قوالیوں کی بھی محفلیں سجاتے ہیں مٹھائیاں بھی تقسیم کی جاتی ہیں سیرت کے جلوس نکلتے ہیں پانی اور مشروبات کی سبلیں لگائ جاتی ہیں ۔ مسلمان یہ سارا کام اس لئے کرتے ہیں کہ بارہ ربیع الاول کو پیارے آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے اور بارہ ربیع الاول کو ہی آپ اس دنیا سے تشریف لے گئے ۔

اس حیثیت سے یقنیا بارہ ربیع الاول کی بڑی اہمیت ہے مگر اس اہمیت کا یہ مطلب نہیں کہ ہم صرف جلسے جلوس کرلیں اور خوشیوں کا اظہار کرلیں محفل نعت و پیام قائم کرلیں بلکہ اس ماہ کا اصل پیغام یہ ہے کہ ہم سیرت طیبہ کا مطالعہ کرین ۔آپ کی لائ ہوئ تعلیمات کو عام کریں ان پر عمل کریں آپ کے اعلی اور ارفع اخلاق سے امت کو واقف کرائیں اور آپ کی پاکیزہ زندگی کو ہم سب نمونہ اور آئڈیل بنائیں ۔

آج دنیا میں جو فساد و بگاڑ اور ظلم و کرپشن ہے وہ صرف اس سے دور ہو سکتا ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو دنیا اپنا لے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی گزارنے کا ہمیں مکمل طریقہ سکھایا ہے ۔ ایک دوسرے کے حقوق بتائے ہیں اچھے اخلاق سکھائے ہیں بری اور گندی باتوں سے بچنے کی تدابیر بتائ ہیں ۔

آج سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیرت کے پیغام کو پوری ذمہ داری کے ساتھ عام کیا جائے ۔ لوگوں کو اپ کی تعلیمات سے روشناس کرایا جائے کیونکہ آپ کی تعلیمات اور پیغام ہی سے ہمارے سماج و معاشرہ اور سوسائٹی کا بگاڑ و فساد اور کرپشن دور ہو سکتا ہے :

جسے فضول سمجھ کر بجھا دیا تم نے

وہی چراغ جلاو تو روشنی ہو گی

افسوس کہ ہم مسلمان صرف جلسے جلوس نعتیہ مشاعرے منعقد کرکے آپ کا حق ادا کرنا چاہتے ہیں حقیقت میں پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم پر حق ہے اور آپ نے پوری امت پر جو عظیم احسان فرمایا ہے اس کو ہم اسی وقت ادا کرسکتے ہیں جب آپ کی تعلیمات کو اپنائیں آپ کے بتائے ہوئے طریقے پر چلیں آپ کا پیغام دوسروں تک پہنچائیں ۔

Comments are closed.