Baseerat Online News Portal

بابری مسجد؛ قانون کی جیت ہوگی یا انصاف کا قتل

 

غلام مصطفی عدیل قاسمی

ایسوسی ایٹ ایڈیٹر بصیرت آن لائن

 

یہ امر تو بالکل واضح ہے کہ اب ملک کا قانون اور ملک کی سلامتی محفوظ ہاتھوں میں نہیں ہے، جہاں ایک طرف مرکزی حکومت کے نمائندے اشتعال انگیز بیانات جاری کر رہے ہیں وہیں مرکزی حکومت کی آئی ٹی سیل علی دستور و قانون کی دھجیاں اڑا کر علی الاعلان قانونی اداروں کا مذاق بنا رہے ہیں، ان کی انہی اوٹ پٹانگ کی حرکتوں سے ایسا لگتا ہے کہ ملک کا سیکولرازم اب ہم سے الوداع ہوا چاہتا ہے، میں یہ نہیں کہتا ہے ملک سے قانون کی بالادستی ختم ہو گئی اور نہ ہی میں نا امید ہوں کہ ملک کا سیکولر طبقہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے لیکن بھارت کی موجودہ صورتحال نے عجیب کشمکش میں مبتلا کر رکھی ہے کہ اگلے پانچ دس سال میں ملک کے قوانین و دستور سلامت رکھے جائیں گے یا سب کچھ بدل دئیے جائیں گے۔۔!

شاید اقبال مرحوم نے ایسے ہی حالات کی عکاسی کرتے ہوئے کہا تھا کہ

نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

لیکن ہماری مٹی کب نرم ہوگی اور کب زرخیزی سے کب لہلہائے گی اس کی کوئی علامت و نشانی دور دور تک نظر نہیں آ رہی ہے،

ملک کے باشندے نہایت خوف و ہراس کی کیفیت سے دوچار ہے، قضیہ بابری مسجد کا فیصلہ اور اس کے بعد شورش برپا ہونے والے اندیشوں سے سیکولر طبقہ کے بیچ مختلف چیں میگوئیاں چل رہی ہے ہر ایک کی زبان ہے ہے کہ بابری مسجد مقدمہ میں آیا انصاف کی جیت ہوتی ہے یا یار، اب یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ عدالت سے "انصاف کی جیت ہوگی یا انصاف کا قتل”۔۔!

فیصلہ جو بھی ہو اسے ماننا تو چاہیے لیکن سوال یہ ہے کہ بابری مسجد کے حق میں فیصلہ ہونے پر کیا برادران وطن اسے قبول کریں؟؟؟

بھاچپا کی آئی ٹی سیل کی نقل و حرکت کچھ اور پیغام دے رہی ہے، آئے دن بلا ناغہ نفرت انگیز و توہین آمیز ٹیویٹر ٹرینڈ کے ذریعہ زہر افشانی کر کے ملک میں انارکی پھیلانے اور ملک کی فضا کو مکدر کرنے کا کام زور و شور سے کر رہی ہے، کبھی "boycott Allah اور کبھی رام مندر ہی بنے گا” جیسے خالص مذہبی منافرت ٹرینڈ سے مسلمانوں کو مشتعل کر رہی ہے، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی نظر میں ملکی قانون و دستور کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔۔!

اس لیے قانونی اداروں کو چاہیے کہ قانون کی پاسداری اور سمودھان کی بالادستی کو جلد یقینی بنانے کے لیے ان بے لگام اور نفرت کے پجاریوں پر سخت لگام کسے، تاکہ ملک کی فضا مزید خراب ہونے سے بچ سکے،

یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ قضیہ بابری مسجد کے سلسلے میں برادران وطن کے دلائل بالکل پھسپھسے نکلے اور مسلم فریق کے دلائل و شواہد مضبوط رہے، اس کے باوجود اگر صرف آستھا کی بنیاد پر رام مندر کے حق میں فیصلہ آتا ہے تو یہ سراسر ملک ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں انصاف کی ہار ہی نہیں بلکہ انصاف کا سر مونڈھ دینا تصور کیا جائے گا۔ اور پوری دنیا میں ہماری عدلیہ کی ساخت و شبیہ خراب ہو کر رہ جائے گی۔! پھر ہندوستانی تاریخ کے اوراق میں انصاف کا قتل جلی حرفوں میں لکھا جائے گا۔۔! اس لیے عدالت کو سوچنا چاہیے کہ کورٹ کسی بھی مسئلہ میں آستھا کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کرتا بلکہ دلائل و شواہد کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہے۔ اس کے باوجود اگر فیصلہ آستھا کی بنیاد پر کیا جاتا ہے تو یہ بھی ہندوستانی تاریخ کا ایک اور سیاہ باب رقم ہوگا۔

[email protected]

Comments are closed.