Baseerat Online News Portal

ضمیر کے بھی کچھ فیصلے ہوتے ہیں!

 

مکرمی!

آراضی کے حوالگی کے فیصلے کے بعد رام بھگتوں میں امید سے کم اور بھت کم چینلوں اور شوشل میڈیا پے جو جوش ہونا چاھئیے تھا،

وہ دکھ نہیں رہا ہے،، بالکل خاموشی کا پورے ملک میں ایک ماحول ہے

کئ متشدد فرقہ پرست کے انٹر ویو کوسننے کا موقع ملا انکے لب ولہجہ میں اصلاحی پہلو اور امن وامان کا عنصر غالب نظر آرہاہے،

میں نے بہت غورکیا اور اس پر وجہ سمجھنے کی بہت کوششیں کیں، تو ایڈوانی کا اسٹیٹ مین پڑھا،اور اس میں جناب کھتے ہیں کہ یہ فیصلہ کسی خواب کے پورا ہونے سے کم نہیں ہے

جس سے اندازہ ہوا ہیکہ

انصاف پسند غیرمسلم،

اور فرقہ پرست ذہنیت رکھنے والوں کے ضمیروں میں یہ بات انکو کسی قدر ملامت کررہی ہے،

امید ھیکہ یہ ملامت انکو ایک ڈراونا خواب کیطرح بے چین کریگا، جیسے دلبیر سنگھ محمد عامر بن گئے،،اور نہ جانے کتنے کے قبول اسلام کا یہ ذریعہ بنیگا

جسکا لازمی نتیجہ یہ ہوسکتا ہے کہ وہ آراضی خود ان کے درمیان مستقبل میں متنازع بن جائے، مخالف فریق کا دعوی عصیبیت کی بنیاد پے فرضی تھا، اسکا اعتراف تو ان کےبیشمارمذھبی پیشوا کرچکے ہیں،گرچہ حال کی نسلوں کے جذبات کیساتھ کھیل کرآپ نے وہ سب کچھ کرلیا جو کرنا چاھتے تھے،مگر ضمیر اور شرافت والی طبعیت کو آپ زیادہ اور تا دیر مطمئن نھیں کرسکتے ہیں،،

کل سےمختلف مذھبی متشدد اھل ھنود کے رہنماء جیسے بہاگوت، پاترا،رام دیو وغیرہ جنکو جیت میں پتہ نھیں وہ لذت دیکھنے کو نہیں مل رھی ہے، انکے چہرے کی کیفیت اور لب ولہجہ سے بہت کچہ اندازہ ہورہا ہے کہ اس متنازعہ حصے پے کچہ مسلمانوں کو بھی مسجد بنانے کی آراضی فرا ہم کی جانے چاھیئے کی سونچ انکو جھنجوڑ رہی ہے، تبہی انکے آتماکو کامل شانتی کی خوشی میسر ہوگی، جذباتی اور طاقت کے زوروں پے جیتے ہوئے معرکے کی خوشیوں کی عمریں بہت قلیل ہوا کرتی ہے،،

 

ایک فریق اس آراضی کو مکمل تو نھیں، البتہ بقدر تعمیر مسجد مسلمانوں کو آراضی دئیے جانے کی فطرتا طبعا شرافتا ضد اور وکالت کرسکتا ہے

چونکہ بین الاقوامی سطح پر یہ مندر بدنامی کا ہی باعث بنیگا،،

 

Comments are closed.