Baseerat Online News Portal

مسلمانوں کو اظہارِ غم کی بھی اجازت نہیں!

شکیل رشید

قومی سلامتی کے مشیر (این ایس اے) اجیت ڈوبھال سے کسی کا ملنا کوئی جرم نہیں ہے۔ ان پر ملک کی سلامتی کی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کےلیے وہ جس سے ملناچاہیں یا جسے بلاناچاہیں یا جو بھی ان سے ملناچاہے، جائز ہے، لہذا ،۹؍نومبر کو ’بابری مسجد کی زمین رام مندر کو سونپنے‘ کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مسلمانوں کے مذہبی، سماجی اور سیاسی قائدین کی ان سے ملاقات کو غلط قرار نہیں دیاجاسکتا۔ لیکن مسلم قائدین او رڈوبھال کے درمیان ملاقات کو جائز قرار دینے کے باوجود بھی چند سوالات ایسے ہیں جن کے جوابات سے ان مسلمانوں کو ، جن کی قیادت کا دعویٰ کرتے ہوئے مسلم قائدین نے ڈوبھال سے ملاقات کی تھی، واقف کرانا ضروری ہے۔ پہلا سوال یہ کہ جب ۹؍نومبر کو ملک کے چیف جسٹس نے مسلمانوں کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے بابری مسجد کی زمین رام مندر کے لیے سونپ دی تھی اور سارے ملک میں مسلمان ’پرامن‘ تھا، تب امن کے نام پر ان قائدین کو ڈوبھال سے ملنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا یہ نہیں کہاجاسکتا تھا کہ ابھی تو فیصلہ آئے ہوئے ایک دن بھی نہیں گزرا ہے، ان کا حالات پر نظر رکھنے کےلیے اپنے اپنے علاقوں میں رہنا ضروری ہے، لہذا وہ ملاقات کےلیے فی الحال نہیں آسکتے؟ ایک سوال یہ بھی اُٹھتا ہے کہ جب ڈوبھال نے کہاکہ آپ لوگ (یعنی مسلم قائدین) امن وامان برقرار رکھیں، تو کسی نے کیوں نہیں دریافت کیا کہ ۹؍نومبر کو فیصلہ آیا، ایک دن بیت گیا بھلا کہاں کسی مسلمان نے امن میں خلل ڈالا؟ ایک سوال مزید اُٹھتا ہے، جیسا کہ ملک کی انگریزی کی معروف خاتون صحافی رعنا ایوب نے کہا ہے کہ ایودھیا فیصلہ کے خاتمے کی بات چھوڑئیےمسلمان تو یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ کس قدر غمزدہ ہیں! ، بھلا کسی مسلم قائد نے کیوں ڈوبھال سے یہ سوال دریافت نہیں کیا کہ مسلمانوں کو کیوں اظہار غم کی بھی اجازت نہیں ہے، کیوں اسے یہ کہنے پر مجبور کیاجارہا ہے کہ وہ اس فیصلے سے مطمئن ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ جب بابری مسجد کی قانونی لڑائی کے اہم چہروں نے ڈوبھال کی ’دعوت‘ قبول کرنے سے معذرت کرلی تھی تب کیوں ان قائدین نے ، جن کا بابری مسجد کی قانونی لڑائی سے دور دور تک کچھ لینا دینا نہیں تھا، ’دعوت‘ کو قبول کرنے سے معذورت نہیں کی؟ کیا کچھ قائدین کا ڈوبھال سے ملنا اور کچھ کا نہ ملنا مسلم قائدین، تنظیموں اور جماعتوں کے درمیان تال میل کے فقدان کا ثبوت نہیں ہے؟ جب قائدین ہی میں تال میل نہ ہو، یا کسی ایک معاملے پر اختلاف رائے ہو تو امت او رملت میں عدم اتحاد پر کوئی بات کیسے کی جاسکتی ہے؟ ڈوبھال سے ملاقات کی جو تصویریں سامنے آئی ہیں وہ ’’منہ بولتی ہیں‘‘ مثلاً ایک قائد کی تصویر لے لیں وہ دل کھول کر ہنس رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے کہ بابری مسجد کے جانے کا ’غم‘ ہنسی میں اڑارہے ہوں!ایک مولوی صاحب تو فیصلے پر ایسے جوش میں آئے کہ کہنے لگے ’ہندوستان سب کا باپ ہے‘۔ اور تصویریں کھنچوانے کےلیے، تاکہ مستقبل کی تاریخ جب بھی لکھی جائے تو ان کے چہرے دمکتے ہوئے نظر آئیں، جو ہوڑ مچی، اس کا اندازہ تصویروں کو دیکھ کر ہی ہوجاتا ہے۔ ایک قائد نے اس موقع پر این ایس اے کو یاد دلانے کی ضرورت محسوس کی کہ ابھی تو وارانسی او رمتھرا کی مسجدیں بھی ہیں اور این آرسی کا بھی معاملہ ہے، ابھی تو کئی ملاقاتیں آپ سے ہوں گی۔ ایک اور دلچسپ خبر یہ تھی کہ لذت کام ودہن کے بعد ایک قائد کی زبان سے بڑے خلوص سے نکلا کہ ’بھائی ڈوبھال نے کھانا تو خوب کھلایا‘!پتہ چلا کہ بنارس کا کوئی معروف شیف تھا ’نان ویج‘ بنانے کا ماہر۔

اس ملاقات پر صرف اتنا کہنا ہے کہ مسلم قائدین کیلئے ایک بہترین موقع تھا کہ وہ ڈوبھال کے سامنے ملک کے تمام مسلمانوں کی بات رکھتےلیکن انہوں نے وہ موقع کھودیا۔ سچ یہی ہے کہ آر ایس ایس کے چیلے چپاٹوں کی سرکار میں فیصلہ رام للا کے خلاف نہیں ہوسکتا تھا۔ بابری مسجد گزشتہ چار صدی سے کھڑی تھی، مالکانہ حقوق کے دستاویزات تھے، پھر بھی زمین رام مندر کےلیے دے دی گئی! مسلم قائدین غیر منصفانہ فیصلے کے باوجود ’بھگوائیوں‘ کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے تو نظر آئے، ریٹائرڈ جسٹس گنگولی کی طرح یہ بھی نہیں کہہ سکے کہ ’’ایودھیا میں مسجد گرادی گئی، جب ہمارا آئین وجود میں آیا تب وہاں نماز پڑھی جاتی تھی، وہ جگہ مسجد تھی بھلا اس جگہ کو سپریم کورٹ نے مندر کےلیے دینے کا فیصلہ کیسے کرلیا، آئین کے ایک طالب علم کی حیثیت سے مجھے دقت کا سامنا ہے اور یہ فیصلہ میری سمجھ سے بالاتر ہے‘‘۔ چونکہ قائدین یہ نہیں کہہ سکے اس لیے انہوں نے قائد ہونے کا حق کھودیا ہے۔ وہ صرف اور صرف خود ساختہ قائد کہلانے کے مستحق ہیں۔

Comments are closed.