Baseerat Online News Portal

ہاں میں ضمیر فروش ہوں….. !

 

نازش ہما قاسمی

جی ضمیر فروش، چاپلوس، جعل ساز، چالباز،منافق، دو منہ والا، بے غیرت، رو سیاہ، خائن، بے وفا، بدچلن، بدخواہ، کاسہ لیس،دروغ گو، ، جھوٹی تاولیں کرنے والا،بد عہد، معاہدہ شکن،بدزبان، بدکلام، مارآستین، شرم وحیا سے عاری، ذاتی مفاد کے لیے قوم کا سودا کرنے والا، قوم کو دھوکہ دینے والا، قوم کی امیدوں پر نہ اترنے والا، اپنے مطلب کی تکمیل کے لیے کسی بھی حد تک جانے والا، بادشاہ وقت کو سجدہ کرنے والا، چند ٹکوں کی خاطر پوری قوم کو رسوا کرنے والا، قوم کو بیچ منجدھار میں چھوڑ کر اپنا فائدہ ڈھونڈنے والا، قوم کو الو بنانے والا، اسے بےوقوف سمجھ کر پیٹھ میں چھرا گھونپنے والا، مسجد کا سودا گر، خانقاہوں کی حرمت کو پامال کرنے والا، تنظیموں کے مقاصد کو سبوتاژ کرنے والا، مدارس کی عظمت پر حرف پیدا کرانے والا، حاکم وقتکا تلواچاٹنے والا ضمیر فروش ہوں۔

ہاں میں وہی ضمیر فروش ہوں جس کے افراد ہر تنظیم میں ہیں، ہر این جی او میں ہیں، ہر ادارے میں ہیں، مدارس میں ہیں،مکاتب میں ہیں، یونیورسٹی میں ہیں، خانقاہ میں ہیں ۔ جی ہاں میں مسلمانوں کے ہر مسلک اور ہر مکتبہ فکر کاضمیر فروش ہوں۔ابتدائے اسلام سے ہی مجھ جیسی فطرت والے افراد نے اسلام اور مسلمانوں کو دھوکہ دیا۔ کبھی حضور ﷺ کو دھوکہ دیا، کبھی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے ساتھ غداری کی، کبھی تبع تابعین کے ساتھ فراڈ کیا، کبھی صلاح الدین ایوبی کو سازش کا شکار بنایا، حتی کہ ہر دور میں اسلام اور مسلمانوں کو دھوکہ دیا، یہ ہم ضمیر فروشوں کی فطرت ہے اور اس فطرت میں تبدیلی ممکن نہیں۔ ہندوستان میں بھی ہم نے ضمیر فروشی کا کام جاری رکھا۔ بلکہ اسے یہاں پروان چڑھایا۔ مسلمانوں کے مختلف گروہوں میں اتحاد نہ ہونے دیا، انہیں منتشر کرکے اپنا فائدہ نکالا، کبھی مغلوں کی انگریزوں سے جاسوسی کی، ان کے اقتدار کو چھینا، کبھی ٹیپو سلطان کے ساتھ غداری کی، انہیں شہادت کے رتبے تک پہنچایا، کبھی سراج الدولہ کے ساتھ بیوفائی کی، ہاں میں عبد اللّٰہ بن اُبی ابن سلول، میر جعفر اور میر صادق جیسے ضمیر فروشوں کے قبیل سے ہوں۔ مجھے خوشی ہے اس بات پر کہ ہم کیوں قوم کی طرح کسمپرسی میں رہیں، وقتی فائدے کے لیے ہم نے اپنی اولادوں کو بھی اس راہ پر لگادیا ہے، ہمیں دین سے نہ کوئی مطلب نہ کوئی سروکار، ہم نام کے مسلمان ہیں اور مسلمانوں کو دھوکہ دینا واجب العین سمجھتے ہیں اگر ہم انہیں دھوکہ نہ دیں تو ہماری دکان نہ چلے، اگر ہم ان کا سودا نہ کریں تو ہمارا کوئی خریدار نہ ملے، اگر ہم انہیں نہ بیچیں تو کوئی ہم سے سودا نہ کرے اور پھر ہماری روزی روٹی نہ چلے، ہمارے جبہ ودستار کا بوسہ نہ لیاجائے، ہماری ٹائی کوٹ کو سلام نہ کیاجائے، ہماری ٹوپی وکیپ کی عزت نہ رکھی جائے ۔ اسی لیے ہم اپنی دنیاوی جاہ و حشمت کےلیے قوم کا سودا کرتے ہیں، قوم کو رسوا کرتے ہیں، قوم کو ذلیل کرتے ہیں، ان کی مسجد کی جگہ مندر کی حمایت کرتے ہیں، ان کے غم پر خوشی مناتے ہیں، شور و شرابہ کرتے ہیں۔ منافق بن کر، بے غیرت بن کر، سودا کرکے ، رسوا کرکے، بیچ کر، خرید کر ہم ضمیر فروشوں کو خوشی ملتی ہے اور اسی خوشی کی تکمیل کےلیے مزید سودے ہوں گے، مزید ضمیر فروشی ہوگی، مزید کاسہ لیسی ہوگی، مسلمانوں کو اگر نہ بکنا ہے، نہ رسوا ہونا ہے، نہ ذلیل ہونا ہے تو بہت جلد اپنا اپنا احتساب کریں، جبہ ودستار میں ملبوس حقیقی قائد کو پہنچانیں، ٹائی کوٹ میں ملبوس رہبر کو سمجھیں، جعلی و فراڈ قائد سے بچیں، قائد کے ظاہری جلال سے دھوکہ نہ کھائیں، علم سے مرعوب نہ ہوں، اگر ہم ضمیر فروش خود کو محدث کہتے ہیں تو حدیث کی روشنی میں ہمارے محدث ہونے کا احتساب کریں، آنکھ بند کرکے ہم ضمیر فروشوں پر ایمان نہ لائیں، اگر ہم برسوں سے حدیث پڑھا رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم سودےبازی نہیں کرسکتے، اگر ہم خانقاہ میں بیٹھتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم دنیا دار نہیں، اگر ہم اعلیٰ خاندان سے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم نے دشمن سے سانٹھ گانٹھ نہ کی ہو گی،آپ تاریخ اُٹھا کر دیکھیں، کس طرح ہم ضمیر فروشوں نے قوم پر شب خون مارا ہے، کس طرح انہیں رسوا کیا ہے، کس طرح انہیں ذلیل کرکے ہمیں سکون میسر ہوا ہے، کس طرح ان سے امن کی درخواست کرکے ہم نے اپنی دکانیں چمکائیں ہیں، کس طرح انہیں بے گھر کرکے ہم نے اے سی روم میں ان کے غم میں آنسو بہائے ہیں، لگژری گاڑی میں بیٹھ کر کس طرح انہیں پیدل چلتا دیکھ کرخوشی محسوس کی ہے، گول میز کانفرنس کرکے کس طرح ان کے دکھوں کا سودا کیا ہے۔ بیرون ممالک جاکر کس طرح ان کی کسمپرسی پر پیسے اینٹھے ہیں، ان کو مظلوم بتا کر کس طرح ریال ولیرا حاصل کیا ہے، ڈالر و روپیہ جمع کیے ہیں۔ ہم ضمیر فروشوں نےاعلیٰ و ارفع خانوادے سے ہونے کے باوجود اپنی کلاہ بیچ دی، دستار کی لاج نہ رکھی، امیر شہر کو سجدہ کرنے میں فخر محسوس کیا۔ارباب اقتدار کے سامنے ہم اتنا جھک گئے کہ دستار کی عظمت پامال ہوگئی، قوم کے صبر پر لعنت بھیجی، ملامت کی، انہیں حوصلہ دینے کے بجائے ان کی حوصلہ شکنی کی۔ اور اسی میں ہماری خوشی کا راز پوشیدہ ہے۔ اگر قوم کو ہم جیسے زہریلے ناگ سے بچنا ہے تو وہ بہت جلد ہمیں پہچان لے؛ ورنہ تمہاری داستاں نہ ہوگی داستانوں میں۔ ہماری مٹی تو پلید ہوگی ہی؛ لیکن پہلے تمہاری پلید ہوگی؛ کیوں کہ ہم تمہیں پورا کا پورا بیچ چکے ہیں۔ بین بج رہا ہے، ہم ضمیر فروش سانپوں کی طرح ایک ایک کرکے قوم کے سامنے ظاہر ہورہے ہیں۔ اسی لیے ہم سے ہوشیار ہوجائیں۔ علمائے سوء اور علمائے حق کی پہچان کرتے ہوئے اپنے ملک ، اپنے دین،اور اپنی حفاظت کے سامان پیدا کریں۔ اللہ تمہیں ہمارے شر سے اور ہماری اولادوں کے شر سے بچائے۔ (آمین)

Comments are closed.