نظرثانی درخواست – خوش آئند اقدام!!!

شکیل منصور القاسمی
بیگوسرائے، بہار
سپریم کورٹ کے فیصلے یا فیصلے کے لئے اپنائے گئے طریق کار پہ درست لب ولہجہ میں تنقید کرنا ہر شہری کا حق ہے ، سپریم کورٹ کے ججز بھی بشر ہی ہوتے ہیں ، وہ لغزشوں سے مبرا نہیں ہوتے ، یوں سپریم کورٹ کا فیصلہ “حتمی “ تو ہوتا ہے ؛ لیکن “ بے خطا “ نہیں ہوتا۔اس پہ تنقید بھی کی جاسکتی اور اس کی فروگزاشتوں کی نشاندہی کرکے اس کی تصحیح وتعدیل کی گزارش بھی کی جاسکتی ہے ۔
نظر ثانی درخواست کا مطلب ہوتا ہے فیصلہ صادر کرنے والے ججز سے اپنے فیصلے میں غور کرنے کی استدعا کی جائے
نظر ثانی درخواست میں کیس کی از سر نو سماعت نہیں ہوتی ؛ بلکہ فیصلے یا اس کے طریق کار میں نشان زد سنگین غلطی کا ملکی آئین و قانون کی روء سے دوبارہ درست جائز لیا جاتا ہے
سپریم کورٹ کی دیرینہ روایت یہی رہی ہے کہ عموماً نظر ثانی درخواست کی وہی بینچ سماعت کرتا ہے جو اصل کیس کو سنا ہے ۔عدالت کا رجسٹرار نظر ثانی درخواست اصل کیس کی سماعت کرنے والے بینچ پر ہی پیش کرتا ہے ۔ویسے نظر ثانی درخواستوں کا عدالت کی جانب سے قابل سماع قرار پانا ہی اولیں مسئلہ ہوتا ہے ۔ اگر درخواست قابل سماعت قرار پا بھی جائے تو بہت کم ایسا ہوا ہے کہ نظر ثانی درخواست کا فیصلہ کیس کے اصل فیصلہ سے مختلف ہو ۔ یعنی ننانوے فیصد نظر ثانی درخواست غیر موثر ہی ہوتی ہے ۔ ایودھیا تنازع کا حالیہ فیصلہ ماہرین قانون و سابق ججز کے بیان و تجزیئے کے مطابق ، قانونی کم ، اور سیاسی مضمرات کا حامل زیادہ لگ رہاہے، ماہرین کے مطابق فیصلے میں تضادات وتناقضات کی بھرمار بھی ہے ۔
اسی لئے اس فیصلے کی شفافیت پہ غیر جانبدار آئینی حلقوں کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے ۔اور ہر گزرتے دن اس کی مزید خامیوں کی نشاندہی کی جارہی ہے۔
یہ خوش آئند اقدام ہے کہ پرسنل لاء بورڈ نے اس حوالے سے نظر ثانی درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ، آخری حد تک ہر قسم کی قانونی چارہ جوئی متاثرہ فریق کا دستوری و جمہوری حق ہے ، جس سے روکنے کا حق بھی کسی کو حاصل نہیں ،ہم حصول انصاف کے لئے ہر ممکن حد تک صرف سعی وکوشش کے ہی مکلف ہیں ، مطلوبہ نتائج و فیصلے کا حصول ہمارے بس میں نہیں ہے ۔
مایوس کن قیاس آرائیوں اور حوصلہ شکن تخمینات پیش کرنے اور مایوسی پہیلانے کا یہ وقت نہیں ہے ، ہمارے قائدین دل شکستہ ہوکے بیٹھنے والے ہیں نہ ہمت ہارجانے والے ، حصول انصاف کے لئے وہ عالمی عدالت انصاف تک بھی جائیں گے ان شاء اللہ ۔
ضرورت ہے کہ اس موقع سے بورڈ وجمعیت کے فاضل وکلاء فیصلہ کی سنگین غلطیوں اور خامیوں کی نشاندہی کرنے پر پورا زور صرف کریں اور فیصلہ کو غلط ثابت کرنے کی مکمل کوشش کریں ۔
جب تک فیصلہ کو آئینی روء سے غلط ثابت نہیں کیا جاتا
نظر ثانی درخواست پہ کوئی نیا فیصلہ نہیں آسکتا
بورڈ وجمعیت کے بروقت اقدامات کی تائید و تحسین کرنے اور زر خرید میڈیا کے منفی پراپیگنڈوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ؛ تاکہ ملی قیادت سے متنفر اور بدظن کردینے کی کوئی “سازشی تھیوری “کامیاب نہ ہوسکے ۔
Comments are closed.