آنے والے طوفان کی تیاری

 

فیروز عالم ندوی

معاون ایڈیٹر ماہنامہ پیام سدرہ، چنئی

پارلیمنٹ کے سرمائی نشستوں کا آغاز ہونے ہی والا ہے ۔ اس سیشن میں حکومت جہاں بہت ساری بل لانے والی ہے وہیں ایک بل "شہریتی ترمیم” کے تعلق سے بھی لانے جا رہی ہے ۔ اس کا مقصد یہ ہوگا کہ مسلمانوں کے علاوہ باقی سارے مذاہب کے لوگوں کو این آر سی میں راحت دی جائے ، یعنی ان کے لیے شہریت ثابت کرنے کا مسئلہ نہیں ہو گا ۔ اس کے بعد صرف اور صرف مسلمانوں کے لیے یہ ہو گا کہ وہ اپنی شہریت ثابت کریں یا پھر تمام شہری حقوق سے محروم ہو جائیں۔

اس طرح کا کوئی بل یا آرڈینینس غیر قانونی، غیر انسانی اور غیر اخلاقی ہو گا کہ خاص مذہب کے نام پر شہریت ثابت کرنے کا مطالبہ کیا جائے ۔ مگر حکومت کو ان باتوں سے کوئی سروکار نہیں، وہ چند مذہبی متشدد تنظیموں کی آلہ کار کے طور پر کام کر رہی ہے ۔

گزشتہ مہینوں میں وزیر داخلہ ہند متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ ہم شہریتی ترمیمی بل لانے کے بعد باضابطہ این آر سی کا عمل شروع کریں گے ، اس ترمیمی بل کے متعلق وہ بڑی وضاحت سے کہہ چکے ہیں کہ اس میں کن کن مذاہب کے لوگ شامل ہوں گے اور باقی کو”گھسپیٹھی” تصور کرتے ہوئے اپنی شہریت ثابت کرنی ہوگی۔

جب جنگل کا راجہ شیر کسی بکرے کو کھانے کی ٹھان لے تو اس بکرے کی کون سی منت و سماجت کام آسکتی ہے ، ظاہر ہے بہر صورت اسے خوراک بننا ہی ہے ۔ آسام میں این آر سی نافذ کر کے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی مگر چال الٹی ہو گئی اور خود انھیں کے ہمنواؤں کی بڑی تعداد پھنس گئی ہے لہذا انھوں نے اب ایک غیر دستوری بل لا کر ایک خاص اقلیتوں کو نشانہ بنانے کا ٹھان لیا ہے ۔

ایسا کوئی بھی بل جس میں ایک خاص طبقہ کے لوگوں کو مظلوم بنانے کی کوشش کی جائے دستور ہند کی روح کے منافی ہے ، ہمارا دستور اس کی اجازت نہیں دیتا ۔ یہ قدم عالمی قوانین کے خلاف بھی ہو گا ۔

بہر حال حکومت پوری طرح سے تیار ہے اور سابقہ بلوں کی طرح اسے بھی اچانک اور بڑی خاموشی سے پاس کرا لیا جائے گا ۔ منافق سیکولر جماعتیں اس کو کامیاب بنانے کے لیے پارلیمنٹ سے غائب ہو جائیں گی ۔ لہذا جو کچھ بھی کرنا ہے مسلمانوں کو خود ہی کرنا ہوگا ۔ اس کے لیے ابھی سے مسلم جماعتوں اور تنظیموں کو پوری طرح تیار ہو جانا چاہیے کہ ہم اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا کیا کر سکتے ہیں؟ ۔

اپنے معاملات کے حل میں خود اپنے اوپر اعتبار کرنے کا رویہ ہی سب سے بہتر طریقہ ہے ، لہٰذا ہمیں سر جوڑ کر سوچنا چاہیے کہ اس صورت حال میں کس طرح کے اقدامات کرنے چاہئیں ؟ کیا لائحہ عمل اور اسٹریٹجی بنایا جائے ؟

میری ناقص رائے کے مطابق ہمیں اس بل کے پاس ہو تے ہی اس کی موضوعیت کا انکار کر دینا چاہیے ، دوسرے انصاف پسند لوگوں اور تنظیموں کو اعتماد میں لیکر سب کے ساتھ سڑک پر اتر جانا چاہیے ، سوشل میڈیا کا استعمال کر کے اس معاملے کو بین الاقوامی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔

اگر آنے والے بل پر ہم صرف بکریوں کی طرح منمنا کر رہ گئے تو ہمارے ساتھ بھی انھیں کی طرح معاملہ کیا جائے گا ، باری باری سے ہمیں ذبح کر کے ظلم کے دسترخوان پر پروسا جائے گا اور ہم بغیر کسی کسمساہٹ کے ان کے لیے نوالہ بنتے رہیں گے ۔

 

 

Comments are closed.