بابری مسجد پر سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخی مگر…….

 

محمد عظیم فیض آبادی

دارالعلوم النصرہ دیوبند

9358163428

ـــــ ـــــ ـــــ ـــــ ـــــ

سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ تاریخی ضرور ہے لیکن صرف اس لئے نہیں کہ یہ ملک کا دومذہب سے جڑی ہوئی عبادت گاہ کا طویل ترین مقدمہ ہے بلکہ اسلئے کہ عدالت وکورٹ کی دنیامیں پہلی بار آستھاوعقیدے کو بنیاد بناکر دلائل ثبوت کو بالکل نظرانداز کرتے ہوئے اتنے بڑے جمہوری ملک کی سب سے بڑی عدالت نے فیصلہ دیاہے اس لئے بھی یہ تاریخی ہے

ـــــ ـــــ ـــــ ـــــ ـــــ

بابری مسجد کا تاریخی مگر غیرمنصفانہ فیصلہ جس طرح توقع کے خلاف آیااور مسلمانوں پر برق بن کر گرا اور مسلمانوں نے جس طرح صبر وتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کو ایک بار پھر جھلسنے سے بچایا وہ قابل تعریف ہی نہیں قابل تقلید بھی ہے اور اسلام ومسلمانوں کے امن عالم کے علمبردار ہونے کا بین ثبوت بھی ہے دنیاکی کوئی بھی قوم اتنے پڑے صبر آزماں حالات کا مقابلہ اتنے امن وچین کے ساتھ کرنے کی اپنے اندر ہمت نہیں رکھتی کہ اس کی عظیم تاریخی عبادت گاہ انصاف کا گلاگھونٹ کر چھین لی جائے اور وہ آہ بھی نہ کرے

خود وطن عزیز کے اندر آر ایس ایس بجرنگ دل، وشوہندو پریشد، شیوسینا، کرنی سینا کے حالات وطرز عمل سے ہم خوب واقف ہیں کہ معمولی معمولی بات پر کس طرح ملک کے امن وامان کو غارت کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے اور وطن کو آگ وخون کے حوالے کیاجاتاہے ابھی گذشتہ سالوں میں پدماوت فلم کو لے کر کرنی سینا کے ذریعہ پورے ملک خصوصا راجستھان میں جس طرح توڑ پھوڑ اورآگ زنی ہوئی ہے وہ تمام مناظر امن پسند لوگوں کے سامنے ہیں

لیکن ابھی اجودھیا کے(تاریک )فیصلے پر مسلمانوں کی طرف سے اس طرح کی کوئی بدامنی کے مظاہرے کی کوئی مثال نہیں ملتی امن پورے طرح قائم رہا اس کا سہرہ بھی مسلمانوں کے سر ہی سجتاہے

مستقبل کا مؤرخ اس بات کو قلمبند کرے گا کہ مسلمان اپنے صبروتحمل اور ملکی ان وامان کو برقرار رکھنے میں ضرور کامیاب رہا مگر ملک کی سب سے بڑی عدالت نے آستھاکی بنیاد پر فیصلہ دے کر عدالت پر مسلمانوں کے اعتماد کو بحال کر نے میں کامیاب نہ ہوسکی اس فیصلے نے نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کے اعتماد کو متزلزل کیا بلکہ انصاف کی دیوی کو شرمندہ اور انصاف کے مندر کے وقار کو مجروح کیا

جو لوگ عالمی خبرناموں ، اورعالمی میڈیا پر نظر رکھتے ہیں یا تجزیہ نگار حضرات کو اندازہ ہوگا کہ مختلف مواقع پر خصوصااس بابری مسجد کے مسئلے پر ہمارے عدالتی نظام کی جو رسوائی ہوئی اور پوری دنیامیں جو لےدے ہورہی ہے وہ رہی سہی عزت بھی ملیا میٹ ہوگئی خود ملک کےماہرین قانون نے بھی اس فیصلے پرحیرت کا اظہار کیاہے ، یہ عدل و انصاف کے تضاضوں پر و پورانہیں اترتا ، یہ فیصلہ مصالحتی بلکہ سیاسی کہاجائےتو بجاہوگا پھر یہ فیصلہ واقعی سپریم کورٹ کا ہی ہے یا پہلے سے تحریرشدہ فیصلہ سپریم کورٹ میں صرف پڑھاگیاہے اس کا جائزہ ان شاء اللہ اگلی قسط میں لیا جائے گا لیکن یہ طے ہے کہ اس فیصلے میں ثبوت وشواہد کو درکنار کردیاگیاہے

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ فیصلہ ایک تاریخی فیصلہ ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ صرف فیصلہ ہے انصاف نہیں کیونکہ فیصلہ اور انصاف دو الگ الگ چیزیں ہیں جب دلائل وثبوت کو بالائے طاق رکھ دیاجائے توہ صرف فیصلہ ہی ہوسکتاہے انصاف نہیں یہ فیصلہ ایساہی ہے جیسے کسی کےذاتی مکان پرکچھ غنڈے موالی دھاوابول کر اسے مسمار کردیں اور اس پر اپنے حق کا دعویٰ کردیں اس کے لئے لڑنے مرنے پر اترائیں اور مقدمے کی سنوائی کرتے ہوئے عدالت یہ تسلیم کرے کہ اس مکان کی مسماری غلط اور غیرقانونی ہے مگر غنڈوں سے ہمیشہ کا جھگڑاختم کرنے ،امن وامان برقرار رکھنے کے لئے یہ مکان انھیں لوگوں کو دیاجاتاہے اور مالک مکان کو اس کے بدلے دوسری جگہ مکان بنانے کی اجازت ہے

سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ تاریخی ہے صرف اس لئےنہیں ہے کہ ملک کا قدیم ترین مقدمہ ہونے کے ساتھ ساتھ دوقوم کی مذہبی عبادت گاہ سے جڑاہواطویل ترین مقدمہ ہے بلکہ اس لئے بھی یہ تاریخی ہے کہ عدالت وکورٹ کی دنیامیں پہلی بار آستھاوعقیدے کو بنیاد بناکر دلائل وثبوت کو بالکل نظر انداز کرتے ہوئے اتنے بڑے جمہوری ملک کی سب سے بڑی عدالت نے یہ فیصلہ دیاہے ورنہ تو ساری دنیا میں عدالتوں کے فیصلے کی بنیاد آستھانہیں بلکہ دلائل ، ثبوت شواہد ، آئین وقانون ہی ہواکرتے ہیں اس بات کو ہمیشہ تاریخ اپنے دامن میں محفوظ رکھے گی

Comments are closed.