عقیدہ ایمان کا رشتہ ہر رشتہ پر غالب ہونا چاہیے

مولانا محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ
اس کو مطلوب ہیں کچھ قلب و جگر کے ٹکڑے
جیب و دامن نہ کوئی پھاڑ کے دیوانہ بنے
آج سے پچیس چھبیس سال قبل کی بات ہے راقم اس وقت ندوہ میں عالمیت کے کسی سال میں( زیر تعلیم) تھا غالبا آخری سال تھا۔ ششماہی کی چھٹی میں گھر آیا تھا۔ والد صاحب منجھلے چچا اور بڑے چچا جو کچھ سالوں پہلے مشترکہ خاندان سے علاحدہ ہوئے تھے تقسیم مکان کے سلسلے میں والد صاحب کا بڑے چچا سے اختلاف ہوا اور آپس میں تو تو میں میں ہونے لگی والد صاحب کی زبان سے چچا کے تئیں کچھ سخت کلمات نکل گیے ۔ اپنے بڑے بھائی کی شان میں کچھ نازیبا کلمات کہہ دئیے اور گستاخی کردی۔ بتا دوں کہ میرے بڑے چچا مولانا محمد ادریس صاحب عاصی( سابق پرنسپل مدرسہ حسینہ تجوید القرآن دگھی گوڈا جھارکھنڈ) میرے والد، والدہ۔ میرے اور میرے تقریبا تمام بھائیوں کے استاد ہیں بلکہ گاؤں کے اکثر نوجوان نسل اور ادھیڑ کے استاد ہیں الحمدللہ بقید حیات ہیں سو سال کے قریب پہنچ گئے ہیں۔
میں اس پورے معاملہ میں موجود تھا اور بیچ بچاؤ اور جھگڑے کو روکنے کی کوشش کر رہا تھا اور والد صاحب کو ہی وہاں سے الگ کر رہا تھا۔ شام کو ایک بہت قریبی رشتہ دار مولانا محمد اسحاق صاحب جو رشتہ میں میرے پھوپھا تھے ، گاوں کے قاضی اور پنچوں میں تھے گاؤں کے لوگوں کے مسائل حل کرتے تھے ۔ تصفیہ کے لئے معاملہ ان کے سامنے رکھا گیا ۔ میں بھی اس وقت وہاں موجود تھا چونکہ میں خود چشم دید گواہ تھا اس لئے فریقین کی بات سننے کے بعد مولانا اسحاق صاحب نے مجھ سے بطور گواہ کے پورے معاملہ کی حقیقت اور سچائ دریافت کیا ۔ میں نے پوری امانت داری اور راست بازی سے معاملہ کی حقیقت اور اصل معاملہ از اول تا آخر سامنے رکھ دیا ۔ ان کو جو فیصلہ کرنا تھا اور سمجھانا تھا وہ کیا اور آپس میں صلح صفائی کرادیا۔ والد صاحب کو تنبیہ کی کہ استاد محترم ہیں بڑے بھائی ہیں ان کی شان میں آپ نے گستاخی کی اپنے بھائی سے معافی مانگئے ۔ اس موقع پر ہمارے ایک اور قریبی رشتہ دار وہاں موجود تھے انہوں نے مولانا اسحاق صاحب کے سامنے مجھے سخت سست کہنا شروع کردیا کہ تم باپ کے خلاف گواہی دیتے ہو ان کی غلطی نکالتے ہو مولانا اسحق صاحب پہلے سنتے رہے لیکن پھر جلال میں آگئے اور میرے اس رشتہ دار کو سخت ڈانٹ پلائی اور کہا کہ اس بچے نے حقیقت اور سچائ و امانت داری کا ثبوت دیا ایک عالم کا یہی کردار اور رول ہونا چاہیے اس بچے سے ہمیں مستقبل میں بہت کچھ امید اور توقع ہے۔ لیکن آپ ایک عالم ہوکر ایک عالم دین کا رول اور کردار کیوں ادا نہیں کر رہے ہیں ۔
اس معاملہ کے بعد والد صاحب بھی مجھ سے بہت خوش ہوئے اور کہا ایک عالم دین کا یہی کراد اور فرض ہے جس کو تم نے پورا کیا ۔
قارئین باتمکین اس ذاتی واقعہ کو میں آپ لوگوں کی خدمت میں پیش نہ کرتا کیونکہ کہ اس طرح کے واقعات کے ذکر سے اپنی شہرت نیک نامی اور پبلسٹی ہوتی ہے جس سے ہر حال میں بچنا چاہیے لیکن بعض وقت مضمون سے ربط پیدا کرنے کے لئے یا کسی مفہوم و مضمون کو سمجھانے کے لئے ایسا کرنا پڑتا ہے اس لئے قارئین مجھے مجبور سمجھیں اور کوئی غلط اور منفی رائے قائم نہ کریں ۔ آج دیکھا جارہا ہے اچھا خاصا پڑھا لکھا انسان صاحب عقل و شعور آدمی بھی حق و انصاف کے معاملے میں عدالت و صداقت اور امانت و راست بازی پر کھرے نہیں اترتا اگر ان کا کوئ عزیز یا رشتہ دار کسی غلط عقیدہ یا نظریہ پر ہے یا معاملات و اخلاق میں شریعت کے اصول سے ہٹا ہوا ہے تب بھی وہ اسی کا ساتھ دیتے ہیں اور اس غلط نظرئے کی تائید کرتے ہیں جب کہ شریعت ہمیں بتاتی ہے اسلام ہمیں حکم دیتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ اور صحابہ کا طریقہ ہے کہ اگر یہ رشتے ناطے یہ انسانی تعلقات اور یہ خاندانی روابط اگر ہمارے ایمان و یقین اور عقیدے کی راہ میں حائل ہوں اور ہمارے عزائم سے ٹکراتے ہوں تو ہمیں انہیں کچے دھاگے کی طرح بکھیر دینا چاہیے ۔ اس وقت خون و خاندان کی کوئ معنویت نہیں ہونی چاہیے عقیدئہ ایمان کا رشتہ ہر دوسرے رشتہ پر غالب آنا چاہیے ۔ یہی محبت و فدائیت اور سرفروشانہ جذبہ ایمانی دنیا میں مکمل صالح انقلاب لاتا ہے اور اللہ تعالی کو ایمان و یقین کا یہی کسوٹی اور معیار مطلوب ہے ۔
خیر و شر اور حق و باطل کی کشمکش میں کچھ مرحلے اور مقامات ایسے آتے ہیں کہ اگر رشتئہ ایمان ٹھوس اور مضبوط و مستحکم نہ ہو اور مقصد و نصب العین سے لگاو عشق اور دیوانگی کی حد تک نہ ہو تو پائے ثبات کو لغزش اور عزائم میں تزلزل پیدا ہونا یقینی ہے ۔ جن افراد اور جماعت و تحریک کے کارکنوں کے دامن فکری صلابت عقیدے کی محبت اور اخلاص عمل سے خالی رہا انہوں نے منزل تک پہنچنے سے پہلے دم تھوڑ دیا ۔
آزمائش و امتحان کی راہ میں سب سے کٹھن اور دشوار مرحلہ وہ آتا ہے جب اپنے بیگانے ،احباب اور اہل خاندان اجنبی بن جاتے ہیں ۔ یہ جاہلیت کے متبعین اور پیرو کار اور طاقت کے پجاری ہوتے ہیں ۔ یہ اسلام کے دشمن اور راہ حق کا پتھر ہوتے ہیں ۔ اسلام کا کمال یہ ہے کہ اس نے جاہلیت کے علمبرداروں سے اور دین کے داعیون نے دشمنوں سے کبھی مصالحت نہیں کی ۔ جب کبھی ایسا موقع آیا دین کے داعیون نے نسبی اور صلبی رشتوں تک کو کاٹ دیا ہے ۔ اولاد والدین بیوی شوہر بھائ اور بہن کی محبت پر اللہ اس کے رسول کی محبت کو ترجیح دی ہے ۔ اللہ تعالٰی کے نزدیک ایمان و یقین کا یہی معیار مطلوب ہے ۔ سارے نبیوں اور رسولوں نے ان کے پیرووں نے ایمان کے اس معیار مطلوب کو پورا کیا ۔ جن کی مثالیں قرآن و حدیث اور سیرت کی کتابوں میں کثرت سے موجود ہیں ۔
ایک موقع پر عبد الرحمن بن ابو بکر رضی اللہ عنہ( جو جنگ بدر میں کفار کی طرف سے لڑ رہے تھے اور بعد میں اسلام لائے) اپنے والد ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہا ابا جان ! آپ جنگ بدر میں کئی مرتبہ میری تلوار کی زد میں آئے مگر محبت پیدری کی وجہ سے میں نے آپ کو چھوڑ دیا ۔ جواب میں ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا بیٹے ! اگر ایک مرتبہ بھی تم میرے نشانے پر آگئے ہوتے تو میں تمہیں ہرگز نہ چھوڑتا ۔ ۔
اسلامی غزوات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے اللہ کی محبت میں اللہ کے دشمن اپنے باپ عبد اللہ بن جراح کو قتل کیا ۔ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے اپنے بھائی عبید بن عمیر کو قتل کیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو قتل کیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسیران جنگ بدر کے معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ان سب کو قتل کردیا جائے اور ہم میں سے ہر ایک اپنے رشتہ دار کو قتل کرے ۔
قرآن مجید ایسے ایمان والوں کی تعریف کرتا ہے جو باہمی ربط و تعلق اور حقیقی انسانی رشتوں کے باوجود ان تمام لوگوں سے رشتے ٹوڑ لیتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول سے عداوت رکھتے ہیں ۔ سورئہ مجادلہ میں اسی جانب اشارہ کیا گیا ہے "تم کبھی نہ پاؤ گے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہوں جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی ہے ۔ خود ان کے باپ ہوں یا بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے اہل خاندان”۔
حضرت نوح حضرت لوط اور حضرت ابراہیم علیھم السلام کی زندگیوں کا ذرا جائزہ لیجئے ۔ کسی نے اپنی بیوی سے رشتہ ناطہ توڑا کسی کا بیٹا اس کی نگاہوں کے سامنے ہلاک ہوا کسی کو اپنے باپ اور قوم کو چھوڑنا پڑا اور وطن کو ترک کرنا پڑا ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ اور قوم کو صرف اس لئے چھوڑ دیا کہ وہ مشرکانہ اعمال کرنے والے تھے ۔فرعون کی مومنہ بیوی کو اللہ کے باغی اور دین کے دشمن فرعون سے ناطہ توڑنا پڑا ۔منافق کا سردار عبد اللہ بن ابی کا نفاق جب جگ ظاہر ہوگیا تو اس کے صاحبزادے عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا اگر آپ حکم دیں تو میں خود اس کا سر قلم کردوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ۔ دین کی محبت میں مومن بیٹے نے باپ کی محبت کو ذرا بھی دل میں راہ پیدا نہیں ہونے دیا ۔
ایمان والوں میں ہر دور اور ہر زمانہ میں یہ خوبی ہونی چاہیے اس کے بغیر وہ ایمان کے مطلوبہ معیار پر کھرا نہیں اتر سکتے، اللہ تعالی کو اپنے بندوں سے ایمان و یقین کا یہی کسوٹی اور معیار مطلوب ہے ۔
اس کو مطلوب ہیں کچھ قلب و جگر کے ٹکڑے
جیب و دامن نہ کوئی پھاڑ کے دیوانہ بنے
Comments are closed.