جمعہ نامہ : تحریر، تقریر اور تحریک

ڈاکٹر سلیم خان
تحریر و تقریر کے پہیوں پر دنیا کی ہر تحریک چلتی ہے۔ ان کے درمیان توازن اور تال میل تحریک کے متوازن پیش رفت کی ضمانت ہے۔ ان کے گہرے باہمی تعلق کو ایک پیڑ کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ تحریک کی فکر یعنی بیج ان تحریروں کے اندر محفوظ ہوتی ہے جن کی بنیاد پر تحریک اٹھائی جاتی ہے۔ تحریک کے بنیادی لٹریچر کی مثال بیج سے نکلے جڑ کی سی ہوتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ببول کے بیج سے گلاب کا پودہ نہیں اُ گ سکتا ۔ یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ ایک ننھے سے تخم میں پیڑ کی تمام خصوصیات موجود ہوتی ہیں ۔ اس لیے جیسا بیج ہو ویسا ہی پیڑ پھلتا پھولتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک کے اغراض و مقاصد کو جاننے کی خاطراس کی سرگرمیوں کے بجائے بنیادی لٹریچر سے رجوع کیا جاتا ہے کیونکہ سرگرمیاں غلط فہمیاں پیدا کرسکتی ہیں لیکن تحریر کونہیں بدلا جاسکتاالاّ یہ کہ کوئی تحریک از خود اپنے لٹریچر سے دستبردار ہوکر اسے دریا برد کردے ۔ چین کی اشتراکی حکومت نے اعلانیہ نہ سہی مگر عملاً یہی کیا سرمایہ دارانہ آمریت کو زرد کے بجائے سرخ لبادے میں لپیٹ کر اوڑھ لیا۔
بنیادی فکر کی مانند پیڑ کی ابتداء بیج سے ضرور ہوتی ہے لیکن بہت جلد وہ جڑ میں تبدیل ہوجاتا ہے اور سرگرمیوں کی مدد سے اپنے تنے پر کھڑا ہوجاتا ہے۔ قرآن حکیم میں انجیل کی یہ مثال تحریک پر صادق آتی ہے کہ ’’جیسے کوئی کھیتی ہو جو پہلے سوئی نکالے پھر اسے مضبوط بنائے پھر وہ موٹی ہو جائے اور پھر اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے کہ کاشتکاروں کو خوش کرنے لگے ‘‘۔زمین کے اندر چھپی جڑ کو دیکھنے سے قاصر نگاہیں سایہ دار درخت نما تحریک کا ظاہر یعنی سرگرمیوں کو ہی تحریک سمجھنے لگتی ہیں ۔ یہ ناظرین کی مجبوری ہے لیکن اگر تحریک کے دست وبازو( کارکنا ن) بھی فکر کے بجائے عمل کو سب کچھ سمجھ لیں تو وہ شدید مسائل سے دوچار ہوجاتی ہے بلکہ کبھی کبھار اس کا معنوی وجود ہی خطرے میں پڑ جاتاہے۔
تحریر کے بعد نشرو اشاعت یعنی تقریر کا مرحلہ آتا ہے ۔ تحریروں سے استفادہ کرنے والے قارئین کے مقابلے تقریر سننے والے سامعین کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے مثلاً ششی تھرور کی کتاب جتنے لوگوں نے پڑھی ان سے کہیں زیادہ لوگوں نے ویڈیو کلپ میں اس کا خلاصہ سوشیل میڈیا پر دیکھا ۔ ٹیلی ویژن پرتھرورکے خیالات سے استفادہ کرنے والے اور بھی زیادہ ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائک جیسے مشہور مبلغین پر بھی یہ مثال صادق آتی ہے ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسٹیڈیم میں بیٹھ کر کھیل دیکھنے کا تاثر گھر بیٹھے ٹیلی ویژن پر لطف اندوز ہونے سے بہت زیادہ ہے۔ اسی لیے شائقین ٹکٹ خرید کر سفر کی صعوبت برداشت کرنےکی زحمت گوارہ کرتے ہیں ۔ اسی طرح تحریر جب تک کتابوں اور ویڈیو زسے نکل کر تقریر کے ذریعہ میدانِ عمل میں باطل نظریات کو چیلنج کرکے متبادل پیش نہ کرے تحریک نہیں بنتی۔
تحریک اسلامی کا بنیادی ماخذ قرآن و حدیث ہے ۔ دیگر کتب کی حیثیت تشریح و انطباق کی ہے۔ سورۂ فتح کی آیت ۲۸ میں تحریک کے برپا کرنے مقصد اس طرح بیان ہوا ہے کہ ’’ وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اُس کو پوری جنس دین پر غالب کر دے اور اِس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے‘‘۔ یہاں پر بنیادی وسائل وماخذ رسول اکرم ﷺ کی سنت اور دین حق یعنی کلام اللہ کی جانب اشارہ کرنے کے بعدتحریک کی غرض و غایت پوری جنس دین یا تمام ادیان عالم پر دین حق کے غلبہ قراردیا گیا ہے۔ مغلوبی کے عالم میں اہل ایمان اس بابت تذبذب کا شکار ہوجاتے ہیں کہ یہ کیونکر ممکن ہے تو ان کی ڈھارس بندھانے کے لیے فرمایا گیا کہ اس کے لیے آپ پریشان ہوں کہ ایسا کیسے ہوجائے گا ؟ اس کے لیے تو رب کائنات کی گواہی کافی ہے۔ غلبۂ دین کی ابتداء یقین محکم کے ساتھ ہوجاتی ہے اورشاعرِ شباب نوجوانوں کو خطاب کرکے کہتا ہے؎
تو انقلاب کی آمد کا انتظار نہ کر
جو ہوسکے تو ابھی انقلاب پیدا کر
Comments are closed.