مسلمان اپنی قیادت کو مضبوط کریں

 

محمد سعید الحق ندوی

جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم بنگلور

آزاد ہندوستان میں مسلمانوں نے جب بھی سیاسی طور پر خود کفیل ہونے یا مضبوط ہونے کی کوشش کی ہے، تو سب سے زیادہ تکلیف ان نہاد سیکولر پارٹیوں کو ہوئی ہے، جنہوں نے مسلمانوں کو محض ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا، ان پارٹیوں کو ووٹ ہمارے چاہیے لیکن ہمارے مسائل سے کبھی خاطر خواہ ان کو دل چسپی نہیں رہی، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اوپر سے سیکولرازم کا لبادہ اوڑھ کر کمیونل ازم کو مضبوط کیا، اس کے بال وپر اگائے، اس کو محفوظ ٹھکانہ فراہم کیا، جس کی وجہ سے اب کمیونل اور سیکولر کا فرق ہی ختم ہوگیا، ایک دور تھا جب کمیونل یعنی فرقہ فرست پارٹی بھی خود کو فرقہ پرست کہلوانا پسند نہیں کرتی تھی، اب نوبت یہاں تک پہونچ گئی ہے کہ ہر پارٹی شاید سیکولر کہلانے میں عار محسوس کرنے لگی ہے، ان نہاد سیکولر پارٹیوں کو ہمارے مسائل سے دلچسپی تو پہلے بھی نہیں تھی لیکن برائے نام ہی سہی، وہ آواز اٹھاتی تھیں، لیکن اب ہمارے مسائل پر ان کو سوچنے پر بھی پسینہ آرہا ہے، اور اس کے ذمہ دار بھی ہم مسلمان ہی ہیں. بات دراصل یہ ہے کہ ہم مسلمانوں نے نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو اپنی غلامی کا اس قدر یقین دلادیا ہے کہ انہوں نے ہم پر اپنے مالکانہ حقوق محفوظ کر لیے ہیں، اس لیے اگر کوئی مسلم قیادت والی پارٹی خواہ وہ کتنی ہی سیکولر کیوں نہ ہو، ان کو قبول نہیں، اس لیے مسلم قیادت والی پارٹیوں سے اتحاد کے بجائے شکست کو ترجیح دیتی ہیں اور اپنا پورا زور خود جیتنے کے بجائے مسلم قیادت والی پارٹیوں کے امیدوار کو ہرانے پر لگاتی ہیں تاکہ ایک بار شکست ہی صحیح، مسلم قیادت نہ ابھرے، ان پرنام نہاد سیکولر پارٹیوں کے شکست کا الزام آئے گا اور پھر خود مسلمان ہی دوسری مرتبہ ایسی پارٹیوں کو ووٹ دینا بے فائدہ سمجھ کر چھوڑ دیں گے اور پھر جائیں گے کہاں، ہمارے پاس ہی آئیں گے، اس کی اگر کوئی سب سے بڑی مثال چاہیے تو آسام کو لے لیں، جہاں ملک کی سب سے بڑی نام نہاد سیکولر پارٹی کانگریس نے اقتدار گنوانا تو قبول کیا لیکن سابقہ الیکشن میں 10 سیٹوں پر جیت حاصل کرنے و الی مولانا بدرالدين أجمل صاحب کی پارٹی سے اتحاد کرنا گوارا نہیں کیا، مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ کانگریس نے اپنی جیت سے زیادہ مولانا کی پارٹی کے امیدواروں کے شکست پر محنت کی، اور بات جہاں تک دوسری پارٹیوں میں موجود مسلم رہنما کا معاملہ ہے تو وہ پہلے پارٹی کے ترجمان اور نمائندہ ہیں پھر اگر پارٹی اجازت دے تو اپنی قوم کی ترجمانی بھی کرسکتے ہیں ورنہ نہیں، جب کہ دیگر قوم کے لیڈران اپنی ذات کے وفادار پہلے ہوتے ہیں پھر اپنی پارٹی کے، پہلے ہی بہت تاخیر ہو چکی ہے اس لیے مسلمانوں کے پاس ابھی وقت ہے کہ جہاں بھی وہ اپنی قیادت کو مضبوط کرسکتے ہوں ضرور کریں، خواہ سیکولر پارٹیوں پر اپنی پارٹی سے اتحاد کے لئے دباؤ بناکر یا بصورت دیگر محدود سیٹوں پر الیکشن لڑ کر، جمہوری ملکوں میں بات اسی کی سنی جاتی ہے جس کے پاس سیاسی نمائندگی ہوتی ہے. اس لیے ہمارے بھائیوں سے گزارش ہے کہ وہ حد سے زیادہ سیکولرازم کے علم بردار بننے سے گریز کریں، سیکولزم اگر ضرورت ہے تو پورے ملک کی ضرورت ہے، اس لیے حفاظت بھی سب کی ذمہ داری ہے، ہاں جہاں کوئی چارہ نہ ہو وہ ہم سیکولر پارٹیوں کا بھرپور ساتھ دیں.

Comments are closed.