اللہ رے سناٹا آواز نہیں آتی

فیروز عالم ندوی
معاون ایڈیٹر ماہنامہ پیام سدرہ، چنئی

فی الوقت دنیا میں مسلمانوں کے مظلومیت کی دو مثالیں ملیں گی ۔ ایک چین ہے جہاں لاکھوں مسلمان کمیونسٹ ڈکٹیٹر شپ کے بدترین مظالم کے شکار ہو رہے ہیں ، انہیں ان حقوق سے بھی محروم رکھا گیا ہے جو عام طور جانوروں کو دی جاتی ہے ۔ وہ بتدریج ڈکٹیٹر شپ کی باتوں کو مانتے گئے اور اب مظلومیت کے اس پائیدان پڑ ہیں جہاں نہ وہ خود آواز بلند کر سکتے ہیں اور نہ ہی دنیا کی کوئی قوم ان کے حمایت میں کھڑے ہونے کو تیار ہے ۔ چن دنوں قبل ہونے والی اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے جلسہ میں صرف چند غیر مسلم ممالک نے آواز اٹھا ئی ، تمام مسلم ممالک خاموش رہے اور حد تو یہ ہو گی کہ 16 مسلم ممالک نے ان مظلوم مسلمانوں کے خلاف ووٹ کیا ۔

مظلومیت کی دوسری موجودہ مثال فلسطین ہے جہاں کے جیالے اپنے حقوق کی آزادی اور زمین کی دفاع کے لئے پوری حمیت کے ساتھ سینا سپر رہتے ہیں ۔ چند روز قبل ہوئے اقوام متحدہ کی مجلس میں ہندوستان سمیت دنیا کے 150 سے زائد ممالک نے ان کے حق میں ووٹ کیا صرف سات یا آٹھ ممالک امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ رہے ۔

مذکورہ بالا دونوں مثالوں کے پیشے نظر ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ ہم مظلومیت میں کون سا موقف اختیار کریں گے ۔ موجودہ حکومت نے کھل کر اپنے عزائم کا اظہار کر دیا ہے ، این آر سی کے متعلق جس کذب بیانی سے کام لے رہی تھی وہ پوری طرح کھل کر سامنے آگیا ہے ۔ ایک طرف اس نے آسام میں ہوئے اس کام کو صرف اس لئے منسوخ کیا ہے کہ اس کے نتائج اس کے توقعات کے مطابق نہیں آئے ہیں ، دوسری جانب شہری ترمیمی بل کا شوشہ چھوڑ کر یہ بالکل واضح کر دیا ہے کہ اس کا مقصد صرف اور صرف مسلمانوں کو پریشان کرنا ہے اور انہیں ماضی کے اسپن کی طرف لے جانا ہے ۔

پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کا سلسلہ جاری ہے اور کسی بھی دن توقع کے مطابق بل پیش ہو جائے گا اور پاس بھی ہو جائے گا ۔ مگر مسلمانوں میں اس کی کوئی ہلچل نہیں دکھائی دے رہی ہ دے رہی ہکھائی دے رہی ہ دے رہی ہے ۔ مسلم قیادت کچھ دیگر مسائل میں الجھی ہوئی ہے اور مسلم نوجوان سوشل میڈیا پر بے کار کی بحثوں میں الجھا ہوا ہے ۔ یہ بات صاف طور پر سمجھ لینی چاہیے کہ یہ بل ہندوستانی مسلمانوں کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی ۔

اس کے خلاف ہمیں سخت موقف اختیار کرنا چاہیے ، اگر یہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے پاس ہو جائے تو ہمیں خواہ مخواہ کی رعایت مروت دکھانے کے بجائے منظم طریقہ سے ملک کے طول و عرض میں سڑکوں پر اتر جانا چاہیے ۔ ملک کا دستور ہمیں کسی بھی حقوق شکنی کے خلاف پرامن مظاہرہ اور احتجاج کا حق دیتا ہے ، اس کا پر امن اور زوردار استعمال کرنا چاہیے۔ سوشل میڈیا کے توسط سے اس معاملے کو عالمی بنانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے ۔

اگر ہم خود اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے سراپا احتجاج نہیں ہوں گے تو کسی کو کیا پڑی ہے کہ وہ ہمارے لیے اپنے سروں میں درد پالے؟ ہم مدعی سست اور گواہ چست کے فارمولے پر ابھی تک عمل پیرا نظر آ رہے ہیں جو سراسر غلط اور خلاف واقعہ ہے۔ بہر صورت یہ انتہائی وقت ہے کہ ہم اس بات کا تعین کر لیں اور فیصلہ کر لیں کہ ہمیں مظلومیت میں کون سا موقف اختیار کرنا ہے پہلا یا دوسرا ؟

Comments are closed.