مہاراشٹر سرکار : کانگریس نے بہت دیر کی اور بی جے پی نے بہت جلد بازی کی

عزیز برنی
کانگریس اور شرد پوار کچھ بھی کہے،جمہوریت کا خیال نہیں رکھا گیا آئین کا خیال نہیں رکھا گیا،کیا آپ بی جے پی کے سیاسی طور طریقوں سے واقف نہیں ہیں، کیا ہریانہ کا تجربہ آپکے پاس نہیں تھا،آپ کس خوابِ غفلت میں تھے،کن اصولوں کی بات کر رہےہیں آپ،سیاست میں کوئی اصول باقی بچا ہے سوائے اقتدار کے وہ جیسے بھی ملے،بی جے پی نے جب کانگریس مکت بھارت کی مہم چلائی تو سیکولر،کمیونل ،ہندوتوا اور مسلم راگ الاپنے والے سب کو کانگریس کے خلاف ساتھ لیا یا کانگریس کے خلاف مہم پر لگایا تب دو ہی باتیں سامنے تھیں،کانگریس کے خلاف ملک گیر پیمانے پر ماحول بنانا اقتدار سے دور رکھنا اور اسکے لیے کسی بھی اصول نظریہ یا ماضی کے عمل کی کوئی پرواہ نہیں کی نتیجہ آج کانگریس اپنا وجود بچانے کیلئے فکرمند ہے اور بی جے پی مرکز اور بیشتر ریاستوں میں برسرِ اقتدار ہے۔ آج بی جے پی اور آر ایس ایس اُنہیں اپنی مہم کا حصہ بنانے انکا استعمال کرنے سے کوئی گریز نہیں کر رہے ہوں بھلے ہی وہ کل تک بی جے پی اور آر ایس ایس کو پانی پی پی کر کوستے رہے تھے اب وہ کھلے طور پر اُنکے ساتھ ہیں یا بند کمرے میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
یہی موقع مہاراشٹرا میں سرکار بنانے کیلئے کانگریس کے پاس تھا جسکا وقت رہتے کانگریس نے استعمال نہیں کیا کون سے اصولوں کی بات کرتی ےہے کانگریس جن کے لیے شیوسینا کے ساتھ سرکار بنانے کیلئے اتنے وقت اور اتنی میٹنگوں کی ضروت پڑی اس وقت اُسکے سامنے صرف بی جے پی مکت بھارت کے بارے میں سوچنا تھا جو اُسکے بھی حق میں تھا اور ملک کے بھی حق میں تھا جسکی شروعات مہاراشٹر سے ہوتی پھر آپ ہریانہ میں کوشش کرتے جو کامیاب ہوسکتی تھی۔
شیوسینا کے ساتھ آنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا کہ سیکولرزم اور مسلمانوں کا ووٹ تقسیم کرنے کیلئے کئی پارٹیاں تھیں جنہوں کانگریس کو کمزور اور بی جے پی کو مضبوط کیا،پہلی بار بی جے پی کا ووٹ تقسیم کرنے کیلئے ہندوتوا وادی پارٹی ساتھ ہوتی جو جھارکھنڈ،بہار اور مغربی بنگال میں بی جے پی کو کمزور کرنے کے کام آتی اور ایم آئی ایم کی بہترین کاٹ ثابت ہوتی۔
احمد پٹیل نے واضح طور پر کہاہے کہ کھیل ابھی ختم نہیں ہوا ہے، اسمبلی میں اکثریت ثابت کرنے کے وقت اکثریت ہمارے پاس ہوگی اور قانونی لڑائی کے لیے بھی ہم تیار ہیں، اگلے چند روز میں یہ تصویر بھی صاف ہو جائیگی لیکن کانگریس کے سامنے ایک سوال چھوڑ جائیگی کہ اب وہ تنہا بڑی پارٹی نہیں ہے کہ آرام سے فیصلے کرتی رہے اب اُسکے سامنے ایک ایسی پارٹی ہے جو ایک لمحہ گنوائے بغیر ہر حالت میں اقتدار چاہتی ہے لہٰذا آپکو بھی اپنا انداز فکر بدلنا ہوگا ورنہ یہی بحث کرتے رہ جائیں گے کہ رات کے اندھیرے میں جو ہوا وہ غلط تھا،دن کے اجالے میں بی جے پی سرکار نے جو کیا وہ کیا کم تھا اُسکے طرزعمل کو سمجھنے کیلئے،تب بھی خاموش تماشائی بنے رہنے کے سِوا آپنے کیا کیا،اب اگر شیوسینا اور شرد پوار کی مدد سے آپ ہاری ہوئی بازی جیت جائیں تو بڑی بات ہوگی۔
Comments are closed.