ایم جے اکبر یہ بھارت بھکتی کیا ہے؟

اتواریہ: شکیل رشید
آج سوچا تھا بات ’مسلم قائدین‘ کے درمیان رابطے کے فقدان پر ہوگی اور جم کر ہوگی لیکن سابق صحافی، سابق کانگریسی اور آج کے بھاجپائی ایم جے اکبر کی ایک تحریر نے کچھ یوں بے چین کیا کہ اس پر لکھے بغیر چارہ نہ رہا۔ لیکن ’مسلم قائدین ‘کے درمیان رابطے کے فقدان کا معاملہ بھی نظر انداز کرنے جیسا موضوع نہیں ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ بابری مسجد مقدمہ کے فیصلے کے بعد مسلم قوم پر مرتب ہونے والے اثرات پر غور وفکر اور فیصلہ کو ری ویو پٹیشن کے ذریعے چیلنج کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے’ مسلم قائدین ‘کے درمیان ربط وضبط کا مکمل فقدان رہا ۔ اگر دو مسلم تنظیمیں ری ویو پٹیشن دائر کرنے کےلیے سرجوڑ کر بیٹھی تھیں تو دو سے تین مسلم تنظیمیں ری ویو پٹیشن نہ دائر کرنےکےلیے شور مچا ئے ہوئی تھیں۔ ساری دنیا میں یہی پیغام گیا ہوگا کہ بابری مسجد جیسے حساس معاملے میںبھی ’مسلم قائدین‘ کے درمیان بشمول مذہبی قائدین، اتفاق رائے نہیں ہے! ایک دوسرے کی ٹانگیں پکڑ کر گھسیٹنے کی کوشش صاف نظر آئی ۔ ’مسلم قائدین ‘ نے آج تک ایک ’کامن منی مم پروگرام‘ یعنی مشترکہ پرو گرام ترتیب نہیں دیا۔ کم از کم اتنا تو کیا جاسکتا ہے کہ تمام قائدین یہ طے کرلیں کہ جب بات دین میں مداخلت کی ہوگی، جب حملہ شناخت پر ہوگا، جب تعلیم اور روزگار سے عام مسلمانوں کو محروم کیاجارہا ہوگا یا جب مسلمانوں کی ترقی سے متعلق مسائل سلجھانے کی بجائے اُلجھائے جارہے ہوں گے تب سب کا فیصلہ جو بھی ہوگا ’متفقہ‘ ہوگا۔ لیکن شاید مشترکہ پروگرام نہ بن سکے کیوں کہ ہر مسلم تنظیم، جماعت اور ہر مسلم قائد کا یہ دعویٰ ہے کہ بس وہی مسلمانوں کا واحد قائد ہے۔ حالانکہ سچ یہ ہے کہ فی الحال مسلمان بغیر کسی قائد کے جی رہے ہیں۔
ایم جے اکبر جب کانگریس میں تھے تب وہ صرف کانگریسی نہیں مسلم لیڈر بھی کہلاتے تھے۔ بی جے پی میں وہ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہی گئے اور بی جے پی بھی جب انہیں ایک مسلمان کی حیثیت سے استعمال کرنے کی ضرورت پڑی، جیسے کہ طلاق ثلاثہ کے خلاف پارلیمنٹ میں بحث کے دوران، تب اس نے ان کامسلمان کی حیثیت سے ہی استعمال کیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایم جے اکبر مسلم کم ’بھگوائی‘ زیادہ ہیں۔ بابری مسجد فیصلہ پر ان کا ایک مضمون انگریزی ہفت روزہ ’اوپن‘ میں شائع ہوا ہے۔ وہ اس فیصلے کو ’تاریخی‘ قرار دیتے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ ’خطرناک ماضی‘ کو پیچھے چھوڑ کر، ۹؍نومبر کو ایک ’مشترکہ مستقبل‘ کی سمت قدم بڑھائے گئے۔ وہ قدم بڑھانے کے اس عمل کو ’اہم‘ قرار دیتے ہیں۔ جس بینچ نے فیصلہ سنایا اس کے تعلق سے اکبر کا کہنا ہے کہ اسے ہمیشہ توقیر، عزت او راحترام حاصل رہے گا۔ بقول ان کے فیصلہ ’منصفانہ‘ تھا۔ ایم جے اکبر چونکہ لفظوں سے کھیلناجانتے ہیں لہذا انہوں نے ’فیصلے‘ کو ’انصاف‘ قرار دینے کےلیے قلم توڑ دیا ہے۔ وہ جمہوریت، کے پھلنے پھولنے پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں، گاندھی جی کے رام راجیہ کا ذکر کرتے ہیں، اور آخر میں لکھتے ہیں: ’’چاہے رام بھکتی ہو یا رحیم بھکتی، اب وقت آگیا ہے کہ بھارت بھکتی کے جذبے کو قوت بخشی جائے ‘‘۔ اس جملے پر کسی تبصرہ سے پہلے ایم جے اکبر کے لیے ایک نصیحت ہے، وہ چاہے برہمنوں جیسا تلک ہی کیوں نہ ماتھے پر لگالیں وہ بھگوائیوں کی نظر میں اکبر ہی رہیں گے۔ رہی بھارت بھکتی کی بات تو سوال یہ ہے کہ کیا بھارت بھکتی کسی کی عبادت گاہ کو چھین کر دوسروں کو سوپنے کا نام ہے؟
Comments are closed.