بابری مسجد فیصلہ، ریویو پٹیشن اور متفقہ قیادت!

نازش ہما قاسمی
تمام ثبوت، گواہ اور دلائل کو تسلیم کرنے کے باوجود سپریم کورٹ نے بابری مسجد کا فیصلہ امن عامہ کی خاطر ملک کے اکثریتی فرقے کے حق میں کردیا مسلمانوں نے مثالی صبروتحمل کا مظاہرہ کیا اور یہ بتادیا کہ ہم امن پسند قوم ہیں؛ لیکن مخالف گروہ جشن منانے سے باز نہیں آیا انہوں نے اس فیصلے پر خوشیاں منائیں، ہاں البتہ خوشی چھپ چھپاکر منائی شور شرابہ کرکے منانے سے گریز کیا۔ خیر فیصلہ آیا لیکن اس فیصلے سے پوری دنیا میں عدالتی نظام پر سوال کھڑے ہوگئے ہر کوئی فیصلہ کے تعلق سے کنفیوز ہوگیا کہ جب تمام ثبوت و دلائل مسلم فریق کے تھے جب عدالت نے برسوں وہاں نماز کی بات قبول کی ، جب عدالت نے مسجد کے گرائے جانے کو غیر قانونی تسلیم کیا ، جب مورتی رکھے جانے کو غیر آئینی فعل تسلیم کیا ، تو آخر ایسی کون سی مجبوری تھی کہ جس نے مسجد گرائی، مسجد کی زمین پر جبرا قبضہ کیا انہیں ہی مسجد کی زمین مندر کے لیے سونپ دی؟
فیصلہ آنے کے بعد مسلمانوں میں دو گروہ پیدا ہوگئے، اسی طرح ہندوؤں میں بھی کئی گروہ پیدا ہوگئے؛ مسلمانوں میں دو گروہ ایک ریویو پٹیشن کا حامی، یعنی آخری دم تک قانونی لڑائی لڑنے کا حامی اور مسجد کے لیے علاحدہ سے زمین لینے کی مخالفت کرنے والا ، دوسرا مسجد کے لئے جگہ متبادل کے طور پر قبول کرلی جائے اور وہاں مسجد کے ساتھ ساتھ عظیم اسلامی یونیورسٹی بنائی جائے اور بابری مسجد رام مندر قضیہ یہیں پر دفن کردیا جائے۔ برادران وطن میں کئی گروہ صرف اس لیے ہوگئے کہ مندر کی دیکھ ریکھ ہمارے ذمہ ہو ، ہم اس کے مہنت بنیں اور ہماری ہی سرپرستی میں عظیم الشان مندر کی تمام سرگرمیاں انجام دی جائیں، اس کے لیے رسہ کشی جاری ہے اور دیکھیے کیا کیا مکر ہوتا ہے؛ بے شک اللہ ہی خیرالماکرین ہے۔
رہ گئی بات کہ مسجد کی جگہ لی جائے اور ریویو پٹیشن داخل نہ کی جائے تو ایسی باتیں کہنے والے چند افراد ہیں جن میں سنی سیٹرل وقف بورڈ کے چیئرمین زفر فاروقی اور بابری مسجد کے ایک فریق اقبال انصاری وغیرہ ہیں؛ لیکن امت مسلمہ کی مسلمہ اور دور اندیش قیادت آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور جمعیۃ علماء ہند جو فریقوں کی طرف سے مقدمہ لڑرہی ہے وہ مسجد کے لئے علاحدہ زمین متبادل کے طور پر قبول کرنے کو تیار نہیں اور ریویو پٹیشن داخل کرکے آخری دم تک لڑنے کے لیے تیار ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت بھی اپنی قیادت کے اس فیصلے سے متفق ہے اور ان شاء اللہ ریویو پٹیشن داخل کی جائے گی، خواہ ہمارے حق میں فیصلہ آئے یا نہ آئے؛ لیکن جب ہمیں یہ آئینی حق ملا ہے تو ہم کیوں اس سے خود کو الگ کرلیں ، ہماری قیادت نے اسی لیے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آخری دم تک لڑا جائے تاکہ جو آج نہ لڑنے کا مشورہ دے رہیں وہ یا ان کی نسل بعد میں ہائے افسوس کرتے ہوئے یہ نہ کہے کہ کاش مسلم پرسنل لا بورڈ، جمعیت علماء ہند اور دیگر ذمےدار تنظیموں نے ریویو پٹیشن داخل کی ہوتی تو ہمیں یہ علم ہوجاتا کہ آخر فیصلہ کیا ہوا تھا؛ نظر ثانی کی درخواست ٹھکرادی گئی تھی یا اسے قبول کرکے عدالتی نظام کی حرمت کو بچالیا گیا تھا؟
ہمیں فخر کرنا چاہیے اپنی قیادت پر کہ وہ کتنی دور اندیش ہے اور ہمارے قائدین کتنے مخلص ہیں ایسے وقت میں جب ہر کوئی اپنا ضمیر حاکم وقت کے پاس گروی رکھ کر مسلمانوں کا سودا کرنے کے درپے ہے حاکم وقت کو سجدہ کرنا فخر سمجھتا ہے؛ لیکن ہماری مسلمہ و متفقہ قیادت مسلم پرسنل لا بورڈ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھا رہی ہے اسی قیادت سے مسلمانوں کا بھروسہ توڑنے کے لئے طرح طرح کی سازشیں کی جارہی ہیں جس سازش کے شکار ہوکر مسلمان اپنے علماء حق مخلص قائدین پر انگلی اٹھا کر غیروں کو خوش ہونے کا موقع فراہم کر رہے ہیں مسلمانو! ایک قیادت کے تحت جمع ہوجاؤ، وقت کے حاکم تمہیں برباد کرنے پر آمادہ ہیں اس متفقہ قیادت جس میں مسلمانوں کے ہر مکتبہ فکر کے افراد شامل ہیں؛ جس میں دیوبندی بھی ہیں، بریلوی بھی ہیں، اہل حدیث بھی ہیں، جو دور اندیش ہیں، تجربہ کار ہیں، جو مسلمانوں کے ہمدرد ہیں، جس میں جمعیت کے اراکین بھی ہیں، جس میں مجلس کے افراد بھی ہیں، ایسی متحدہ و متفقہ قیادت کے خلاف آواز نہ اٹھائیں وہ دور اندیشی پر مبنی فیصلے کرکے مسلمانوں کو محفوظ رکھنا چاہتی ہے، غیروں کی سازش کے شکار ہوکر اپنی قیادت پر لعن طعن نہ کریں ، غیروں سے سیکھیں کہ وہ کس طرح اپنی قیادت پر بھروسہ کرکے مغلوب قوم سے غالب بن گئی اور ہم کس طرح غالب قوم سے مغلوب بن چکے ہیں۔ ہم اگر اپنی عظمت رفتہ کی بحالی چاہتے ہیں مغلوبیت سے نکل کر غالب ہونا چاہتے ہیں تو اپنی قیادت کے ساتھ اٹھ کھڑا ہونا پڑے گا جس طرح سے غیر اپنی قیادت کو خواہ وہ کیسی ہی کیوں نہ ہو تسلیم کرتے ہیں ، چوں چرا کیے بغیر ان پر کار بند رہتے ہیں ، ہمیں بھی چاہیے کہ اپنی متفقہ قیادت کی سرپرستی میں حکومت وقت سے اپنی بربادی زبوں حالی کا سوال کریں نہ کہ ان لوگوں کو قائد سمجھیں جنہوں نے حکومت وقت کے پاؤں پر اپنی جبین نیاز خم کردی ہے ، جنہوں نے بابری مسجد اور اس کی زمین کے بدلے متبادل زمین کو تسلیم کرلیا ہے اور جو مسجد کی جگہ متبادل کے طور پر قبول کرکے وہاں یونیورسٹی بنانے کے خواہاں ہیں ۔
Comments are closed.