Baseerat Online News Portal

ہم نہیں زمانہ کہتا ہے، فیصلہ تو ہوا مگر انصاف نہیں ہوا!

 

شکیل رشید

(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز/ سرپرست ایڈیٹر بصیرت آن لائن )

کیا بیرسٹر اسدالدین اویسی نے غلطی کی تھی؟

بابری مسجد ؍ رام مندر اراضی مقدمہ میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنے ردّعمل میں اویسی نے کہا تھا:’’ سپریم کورٹ بے شک سپریم ( سب سےاوپر) ہے مگر غلطی اس سے بھی ہوسکتی ہے ۔‘‘ اویسی کا یہ ردّعمل انہیں پسند نہیں آیا ہے جو بزعم خود ’ قوم پرست‘ ہیں۔ مثال مرکزی وزیر گری راج سنگھ کی لے لیں ، حالانکہ انہوں نے اپنی بات میں اویسی کا نام نہیں لیا لیکن ان کا اشارہ سیدھے سیدھے اویسی ہی کی طرف تھا۔

انہو ںنے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف بولنے اور عدالت ِ عظمیٰ کا حکم نہ ماننے والوں کو غدار ٹہرایا ۔ ان کے اپنے الفاظ تھے :’’سپریم کورٹ کا حکم نہ ماننے والے غدار ہیں ، اگر انہیں ملک کے عدالتی نظام پر اعتماد نہیں ہے تو یہاں سے جانے کے لئے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔‘‘ یہ حقیقت ملحوظ رہے کہ گری راج سنگھ آئے دن مسلمانوں کو پاکستان بھیج دینے کی دھمکی دینے کے لئے خوب’مشہور‘ ہیں ! صرف گری راج سنگھ ہی نہیں ہیں جنہیں اویسی کا بیان زہر لگا ہے ’ قوم پرستوں‘ کا ایک ہجوم ہے جو اویسی کے ردّعمل کو ’غداری‘ کے مترادف قرار دے رہا ہے ۔ بھوپال میں تو ایک ایڈوکیٹ نے جن کا نام پون کمار ہے اویسی کے خلاف شکایت درج کروادی ہے ۔ پون کمار کا کہنا ہے کہ اویسی نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردّعمل کا اظہار کرکے نفرت کو ہوا دی ہے ۔

ایک سوال مزید: کیا ایودھیا معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر صرف اویسی ہی نے اعتراض کیا ہے کسی اور نے نہیں ؟ اس سوال پر ہم واپس لوٹیں گے پر اس سے قبل چند ’کٹّر ہندوتوادی‘ رہنماؤں کے ردّعمل پر ایک نظر ڈالتے چلیں ۔ یوپی کے بلیا اسمبلی حلقہ کے بی جے پی کے رکن اسمبلی سریندر سنگھ نے بڑی دلچسپ بات کہی: انہوں نے اویسی کو ’غدار‘ قرار دیتے ہوئے کہا :’’ ایودھیا میں رام نہیں ہونگے تو کیا عرب میں رام ہونگے؟ فیصلہ دینے والے پانچوں جج ملک کے رتن ہیں لہٰذا انہیں بھارت رتن ملنا چاہیئے ۔‘‘سریندر سنگھ نے آج یہ بات رواروی میں کہہ دی ممکن ہے کل کو واقعی ان ججوں کو ،بھلے پانچوں کو نہ سہی ریٹائرڈ چیف جسٹس رنجن گگوئی کو ہی سہی ، بھارت رتن دے دیا جائے ! سپریم کورٹ کے ذریعے بابری مسجد کی زمین رام مندر کو دینے کے فیصلے کو، رام مندر کی تحریک میں شدت پیدا کرنے کے واسطے’ رام رتھ یاترا‘۔۔۔ باالفاظ دیگر خونی رتھ یاترا۔۔۔ نکالنے والے لال کرشن اڈوانی نے اپنے ’ موقف‘ کی ’ تصدیق‘ قرار دیا اور کہا ’’ میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں۔‘‘ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے کہا :’’ماضی کو بھلا کر ہم سب مل کر عالیشان رام مندر بنائیں گے ۔‘‘ ان کے ’ ہم سب‘ میں ’ مسلمان‘ بھی شامل ہیں ۔ ویسے بھی وہ اس ملک کے ’مسلمانوں‘ کو ’ہندو‘ ہی مانتے ہیں ! وشواہندوپریشد اور ہندو مہاسبھا نے جلد از جلد ’رام مندر کی تعمیر‘ کا نعرہ بلند کیا ۔۔۔ اور اب جب آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور جمعیۃ علما ہند ( ارشد مدنی) کی طرف سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر ری ویوپٹیشن یعنی نظرثانی کی عرضی دائر کرنے کا اعلان سامنے آیا تو وہی ’ غدار‘ اور ’ قوم دشمن‘ کی بحث پھر سےبزعم خود ’قوم پرستوں‘ نے شروع کردی ۔

مہنت گری کی بات سن لیں ۔ یہ اکھل بھارتیہ اکھاڑا پریشد کے صدر ہیں ، ان کا کہنا ہے:’’سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کی عرضی داخل کرنا ملک کے مفاد میں نہیں ہوگا ، جو لوگ نظر ثانی کی عرضی داخل کرنا چاہتے ہیں ان پر ملک سے غداری کا مقدمہ درج کیا جانا چاہئے ، سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسلمانوں کی اکثریت نے قبول کیا ہے ، اب آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کو اس معاملے میں روکاوٹ نہیں ڈالنا چاہیئے ۔‘‘ اب اگر مہنت گری سے کوئی یہ سوال کرے کہ بورڈ اور جمعیۃ نے تو سپریم کورٹ کے فیصلے کے ’ تضادات‘ اور ’خامیوں‘ کو مدّنظر رکھتے ہوئے نظرثانی کی عرضی داخل کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، اور نظرثانی کی اپیل ایک جائز قانونی عمل ہے لہٰذا یہ عمل ملک سے غداری کے مترادف کیوں ہوگیا ، تو شاید وہ اس سوال کا اس کے علاوہ کوئی اور جواب نہ دےسکیں کہ بورڈ اور جمعیۃ کو ایسی پٹیشن دائر کرکے رام مندر کی تعمیر میں روکاوٹ ڈالنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ ہندومہاسبھا پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ بورڈ کو نظرثانی کی عرضی داخل کرنے کا حق نہیں حاصل کیونکہ وہ مقدمہ کا فریق نہیں تھا! ایک سوال مزید: کیا ایودھیا معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے میں تضادات اور خامیاں صرف آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور جمعیۃ علماء ہند ( ارشد مدنی) ہی نے نکالی ہیں کسی اور نہ نہیں نکالیں؟

چلئے چند ایسے مفکرین اور دانشوران کی آراء پر نظر ڈالی جائے جنہوں نے اویسی سے بھی کہیں زیادہ سخت لفظوں میں ایودھیا قضیئے پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر اعتراض کیا اور اس کی خامیاں گنوائی ہیں ۔ اور بورڈ اور جمعیۃ سے بھی کہیں زیادہ سخت لہجے میں عدالتی فیصلے کے تضادات کو اُجاگر کیا ہے ۔

مادھو گوڈبولے ، نرسمہاراؤ کی حکومت میں داخلہ سکریٹری تھے، ۶؍دسمبر ۱۹۹۲ء کے روز ایودھیا میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد وہ اسقدر دلبرداشتہ ہوئے تھے کہ انہوں نے سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ حال ہی میں ان کی انگریزی میں ’ ایودھیا قضیہ‘ پر ایک کتاب بھی آئی ہے جس میں انہوں نے ’ مقدمے ‘ کو’ آئین ہند‘ کے لئے ایک سخت امتحان قرار دیا تھا۔۔۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مادھوگوڈبولے نے دومضامین تحریر کرکے فیصلے پر سوالات کھڑے کئے ہیں ۔ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو’’ایک تشویشناک فیصلہ‘‘ قرار دیتے ہوئے تحریر کرتے ہیں : ’’عدالت نے یہ مانا ہے کہ ۲۲؍دسمبر ۱۹۹۴ء کی شب بابری مسجد کے اندر چوری چھپے رام للّا کی مورتی رکھنا غلط فعل تھا۔ اس نے یہ بھی مانا ہے کہ ۶؍ دسمبر ۱۹۹۲ء کو بے حیائی سے بابری مسجد کو منہدم کرنا غیر قانونی تھا۔ یہ دونوں ہی کام صریح طو رپر سیکولرزم کو اندیکھا کرنے کے تھے بلکہ یہ مکمل طور پر سیکولرزم کی نفی تھے ۔ لہٰذا کیا مسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کے لئے ۵؍ ایکڑ زمین دینا ، جیسا کہ عدالت نے دیا ہے ، قطعی مناسب یا معقول ہرجانہ ہے ؟ مسلمانوں کو ، ان کی عبادت گاہ کی تباہی سے جو نفسیاتی چوٹ لگی ہے اس کا کیا؟ عدالت کو ریاستی اور مرکزی سرکار سے اتنا تو کہنا ہی تھا کہ دوبارہ مسجد تعمیرکریں ۔ نرسمہا راؤ نے جو مسجد کے انہدام کے وقت وزیراعظم تھے ، پارلیمنٹ میں اس طرح کا اعلان کیا بھی تھا ۔ بعد میں بھی انہوں نے کہا تھا کہ وہ اپنے بیان پر قائم ہیں اور اسے پورا کرنا چاہتے ہیں ۔ حالیہ برسوں میں فرقہ وارانہ تشدد میں بہت سے گرجاگھروں کو بھی نقصان پہنچا ہے ، اسی لئے میں اس بات پر زور دیتارہا ہوں کہ ایک ایسا قانون بنایا جائے کہ جب بھی کسی فرقہ وارانہ تشدد میں کسی عبادت گاہ کو نقصان پہنچے یا وہ تباہ وبرباد کی جائے تو اس عبادت گاہ کی مرمت ، دوبارہ تعمیر یا اس کی مکمل تعمیر کی ذمہ داری سرکار لے ۔ یہ سیکولرزم کو حقیقت میں بدلنے اور اقلیتوں میں احساسِ خود اعتمادی پیدا کرنے کا ایک طریقہ ہوگا ۔ ‘‘

مادھوگوڈبولے صرف یہ نہیں کہتے کہ سپریم کورٹ کو چاہیئے تھا کہ وہ ریاستی یعنی یوگی کی سرکار ، اور مرکزی یعنی مودی کی سرکار سے کہتا کہ بابری مسجد دوبارہ سے بنائیں بلکہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب جب بھی فرقہ وارانہ فسادات میں کسی عبادت گاہ کو نقصان پہنچے یا وہ تباہ کی جائے تو قانوناً سرکار اس کی مرمت یا تعمیر نوکرے ۔۔۔ یہ جملے اویسی یا بورڈ اور جمعیۃ کے بیانات سے کہیں زیادہ سخت ہیں ۔ مادھو گوڈبولے ایودھیا قضیہ کے فیصلے پر پانچ ججوں کے اتفاقِ رائے پر بھی سوال اٹھاتے ہیں ، ان کا ماننا ہے کہ یہ ’ اتفاقِ رائے تشویش ناک ہے ۔‘‘ ’ اتفاقِ رائے‘ پر سوال اٹھاتے ہوئے وہ دریافت کرتے ہیں : ’’کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس فیصلے نے جو حد بندی کردی ہے کیا ہندوستان میں وہی سیکولرزم کی آخری حد ہے ؟ سپریم کورٹ کےفیصلے سے لوگوں پر یہ تاثر پڑتا ہے کہ اگر اکثریتی فرقہ قانون اپنے ہاتھ میں لے کر کسی بھی اقلیتی فرقے کی کسی عبادت گاہ کو نقصان پہنچاتا ہے یا اسے تباہ وبرباد کردیتا ہے ، تو اسے انعام مل سکتا ہے ، اور حکومت کمزوری دکھاسکتی ہے ! یہ بات انتہائی بے چین کرنے والی ہے ۔ ان حالات میں مایوس اور نا امید ، متاثرہ اقلیتی فرقہ مستقبل کیلئے فالِ بدثابت ہوسکتا ہے ۔ ‘‘ مادھو گوڈبولے اس مضمون میں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ کسی مہذب سماج میں اقلیتوں کی حفاظت کی ذمے داری اکثریت پر ہوتی ہے ، پھر وہ ممبئی کے ۶؍دسمبر ۱۹۹۲ء اور ۶ جنوری ۱۹۹۳ء کے دومرحلوں کے فرقہ وارانہ فسادات اور گجرات ۲۰۰۲ء کے مسلم کش فسادات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اقلیتوں میں احساسِ عدم تحفظ میں اضافہ ہوا ہے ، اور اس کے نتیجے ان میں دوسرے فرقوں سے علیحدہ زندگی بتانے کا اور شناخت کی سیاست کا احساس بھی قوی ہوا ہے ۔ فیصلے کے تعلق سے وہ آخر میں لکھتے ہیں:’’خامیوں کے باوجود تمام فریقین کو یہ فیصلہ اس طویل دھماکے دار تنازعے کے خاتمے کے لئے قبول کرلینا چاہیئے ۔ مگر فیصلے کے اثرات پر آنے والے برسوں تک بحث جاری رہے گی ۔ کیونکہ ملک کی سالمیت اور استحکام اور فرقہ وارانہ بھائی چارہ اور امن داؤ پر ہے ۔ ‘‘

جیوتی پنوانی ممبئی کی ایک سینئر خاتون صحافی ہیں ، وہ عرصے سے ’ فرقہ پرستی‘ کے خلاف ڈٹی ہوئی ہیں ۔ ان کا یہ ماننا ہے :’’مسلمانوں کی طرف سے تقریباً متفقہ طور پر ۵ ایکڑ زمین نہ لینے کا فیصلہ سمجھ میں آتا ہے ۔ سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے انہدام کو اصولِ قانون کی بدترین خلاف ورزی ، قرار دیا ہے ۔ اگر سپریم کورٹ کو اس جرم کے لئے انصاف ہی کرنا تھا تو اسے دوکام کرنا تھے ، ایک تو جو قصوروار ہیں ان کی سزا کو ، اور تباہ کی گئی عبادت گاہ کی ازسرنو تعمیر کو یقینی بنانا ۔ سپریم کورٹ یہ حکم دے سکتا تھا کہ مرکزی اور یوپی کی سرکاریں مسجد کو بنائیں ۔ ‘‘ جیوتی پنوانی نے اپنے مضمون میں سیکولر سرکاروں کے ذریعے مندر ؍ مسجد تعمیر کروانے کے مسئلے پر دلچسپ بحث کی ہے ۔ وہ کہتی ہیں کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں سرکار کو حکم دیا ہے کہ وہ سنّی وقف بورڈ کو ۵ ؍ ایکڑ زمین دے، جبکہ اسے حکم دینا چاہیئے تھا کہ وہ مسجد تعمیر کرے جیسا کہ پہلے کئی سرکاروں نے کیا ہے ۔ اڈیشہ میں توڑے گئے چرچوں کو سرکاری خرچ سے بنوایا گیا تھا۔گجرات ہائی کورٹ نے گجرات سرکار کو یہ حکم دیا تھا کہ چونکہ اس کی لاپروائی سے ۲۰۰۲ء کے فسادات میں ۵سو سے زائد عبادت گاہیں، خانقاہیں اور درگاہیں توڑ ی گئیں اس لئے وہ ان کو بنوائے ۔۔۔ حیرت انگیز طور پر گجرات ہائی کورٹ کے اس حکم کو ۲۰۱۷ء میں چیف جسٹس دیپک مشرا نےکالعدم کردیا تھا! اور آج سپریم کورٹ ہی نے یہ حکم دیا ہیکہ رام مندر کی تعمیر کے لئے سرکار تین مہینے کے اندر ایک ٹرسٹ کا قیام کرے ۔ گویا یہ کہ رام مندر کی تعمیر سرکاری خرچ پر کرنے کایہ حکم ہے ! یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ ایک سیکولر جمہوریہ میں کیے کوئی سرکار اپنے خرچ سے کسی عبادت گاہ کو بنواسکتی ہے ؟

سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے ’ فیصلہ ‘ کے تضادات کو بڑے ہی دلچسپ انداز میں اجاگر کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں:’’ اپنے فیصلے کے پیراگراف ۷۸۶ اور ۷۹۸ میں کورٹ نے کہا ہے کہ مسلم فریق یہ دکھانے کے لئے کوئی ثبوت پیش نہیں کرپایا کہ ۱۵۲۸ء میں مسجد کی تعمیر سے لے کر ۱۸۵۷ ء تک اس پر مسلمانوں کا قبضہ تھا اور وہ یہاں نماز پڑھتے تھے ۔ بھلا اس بارے میں ممکنہ ثبوت کس طرح سے پیش کیا جاسکتا تھا؟ اس وقت کا کوئی چشم دیدگواہ ابھی تک زندہ نہیں ہوسکتا اور یہ بھی خوب پتہ ہے کہ ۱۸۵۷ء کی آزادی کی جنگ میں اودھ کے تقریباً سارے ریکارڈ تباہ وبرباد کردیئے گئے تھے ۔ کچھ بھی ہوعام سمجھ یہ کہتی ہے کہ جب کسی عبادت گاہ کی تعمیر کی جاتی ہے ، چاہے وہ مندر ہو ، مسجد ہو ، چرچ یاگردوارا ہو ، تو تعمیر استعمال کے لئے ہوتی ہے نہ کہ نمائش کے لئے ۔ فیصلے کے پیراگراف ۷۹۸ میں کہا گیا ہے ، مسلمانوں کو عبادت سے روکنے اور ان کے قبضے کو ہٹانے کا کام ۲۳۔۲۲ دسمبر ۱۹۴۹ء کی شب میںکیا گیا جب ہندو مورتیوں کو رکھ کر مسجد کو ناپاک کیا گیا ۔ مسلمانوں کو قانونی اختیارات کے تحت باہر نہیں کیا گیا اور مسلمانوں سے بالکل ناجائز طریقے سے ایک مسجد چھین لی گئی جس کی تعمیر ۴۵۰ برس قبل ہوئی تھی۔ اس واضح نتیجے کے باوجود کورٹ نے ایک عجیب وغریب دلیل دے کر مسجد کی جگہ ہندوؤں کو دے دی ۔ لہٰذا یہ سوچنا حماقت ہوگی کہ ایودھیا پر آئے فیصلے سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم ہوگی ۔‘‘ جسٹس کاٹجو اپنی تحریر اس جملے پر ختم کرتے ہیں :’’ ایودھیا کا فیصلہ کہتا ہے کہ یہ انہدام غیر قانونی تھا ، لیکن ساتھ ہی وہ اس کو پاک صاف بھی قرار دیتا ہے ، بہت خوب مائی لارڈس!‘‘

مادھو گوڈبولے ، جیوتی پنوانی، جسٹس مارکنڈے کاٹجو ہی کی طرح سپریم کورٹ کے فیصلے پر سوالات اٹھانے ، اعتراضات کرنے ، اس کی خامیوں اور تضادات کو اجاگر کرنے والو ں کی ایک لمبی فہرست ہے ۔ سابق بھاجپائی یشونت سنہا بھی اس فہرست میں شامل ہیں اور سابق جج جسٹس گانگولی بھی‘ سوامی اگنی ویش بھی اور کانگریس کے دگ وجئے سنگھ بھی ۔ دانشوروں او ر صحافیوں کی بڑی تعداد نے ریٹائرڈ چیف جسٹس گگوئی کی قیادت والی پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کو ’ فیصلہ‘ تو مانا ہے پر ’ انصاف‘ نہیں مانا ہے ۔ لہٰذا مہنت گری ، گری راج سنگھ اور سریندر سنگھ جیسے لوگوں اور خود کو ’قوم پرست‘ قرار دینے والوں کو یہ جان لینا چاہیئے کہ صرف اویسی ،بورڈ یا جمعیۃ ہی نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر انگلی نہیں اٹھائی ہے ، انگلی اٹھانے والوں میں’ برادرانِ وطن‘ بھی شامل ہیں اور بڑی تعداد میں شامل ہیں ۔ مطلب یہ کہ اس ملک میں آج بھی جب کہ فرقہ پرستی کا عفریت بغیر کسی روک ٹوک کے جمہوری اور سیکولر قدروں کو روندتا پھررہا ہے اویسی ، بورڈ اور جمعیۃ ۔۔۔ یعنی مسلمان ۔۔۔ ہی یہ کہنے والے نہیں ہیں کہ ’فیصلہ ‘ تو ہوا پر ’ انصاف‘ نہیں ہوا۔ ایک زمانہ یہی کہہ رہا ہے ۔

Comments are closed.