Baseerat Online News Portal

توہے ہرجائی تو اپنا بھی یہی طور سہی، تو نہیں اور سہی، اور نہیں اور سہی

 

ڈاکٹر سلیم خان

ہندو دھرم میں چونکہ کثرت ازدواج کی اجازت نہیں ہے اس لیے شوہر کو دوسرا نکاح کرنے سے قبل پہلی بیوی کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ ایسا ہی کچھ مہاراشٹر میں ہوا وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس کو اجیت پوار کے ساتھ گھر بسانے سے قبل ادھو ٹھاکرے سے رشتہ منقطع کرنا پڑا۔ شیوسینا اور بی جے پی کی طلاق کو دیکھ کر ۱۹۵۷؁ ایک کامیڈی فلم یاد آتی ہے جس کانام نہ جانے کیوں اس کے فلمساز امیا چکرورتی نے ’دیکھ کبیرہ رویا‘ رکھ دیا تھا حالانکہ اس کا نام ’دیکھ کبیرہ ہنسا ‘ بھی ہوسکتا تھا۔ فی الحال یہ نام ادھو ٹھاکرے کی صورت پر پوری طرح صادق آتا ہے ۔ دیکھ کبیرہ رویا دراصل تین فنکاروں کی کہانی تھی جن میں سے ایک مصور، دوسرا گلوکار اور تیسرا قلمکار ہوتا ہے ۔ ان تینوں کو دیویندر فڈنویس ، ادھوٹھاکرے اور اجیت پوار سمجھ لیں۔ فلم کے اندر وہ اپنے مستقبل کو روشن کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہوتے ہیں جس طرح یہ حضرات سرکار بنانے کے لیے پریشان تھے ۔ درمیان میں تین عدد ہیروئنیں ان کی مصیبت میں اسی طرح اضافہ کرتی ہیں جیسا کہ انتخاب کے بعد اقتدار کی دیوی نے ان سیاستدانوں کا سکھ چین چھین لیا تھا ۔

مزے کی بات یہ ہے کہ اس سیاسی کامیڈی کو دیکھ کر ناظرین یعنی جنتا ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوتی ہے جبکہ کبیرہ کی یاد دلانے والے نیتا خون کے آنسو روتے ہیں۔ مہاراشٹر کا تعطل بھی کشمیر کے سیاسی بحران جیسا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوکہ اس سے بھی ریاستی درجہ چھین کر اسے یونین ٹیریٹری بنا دیا جائے۔ شیوسینا کے پرجوش ترجمان سنجے راوت کو شکایت ہے کہ بی جے پی نے ابھی تک ان کو بات چیت کے لیے کیوں نہیں بلایا ؟ اس کے جواب میں بی جے پی کے خودساختہ ترجمان سدھیر منگٹیوار کا فرمان ہے کہ ہمارے دروازے ان کے لیے چوبیس گھنٹے کھلے ہوئے ہیں لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ شیوسینا فی الحال بن بلائے مہمان بن اپنے آپ کو رسوا کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ اس طرح نہ تو شیوسینا والے جاتے ہیں اور نہ بھاجپ والےبلاتے ہیں ۔ ایسے میں احسان دانش اور فراق گورکھپوری کے شاگرد راجیندر کرشن کا لکھا مشہور نغمہ یاد آتا ہے ؎

ہم سے آیا نہ گیا تم سے بلایا نہ گیا فاصلہ پیار دونوں سے مٹایا نہ گیا

مہاراشٹر کے اندر جو لوگ بی جے پی کی ہندوتوا سے غداری اور شیوسینا پر کانگریس کے لطف و کرم پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں وہ مہاراشٹر کی سیاسی تاریخ سے واقف نہیں ہیں ۔ ایک زمانے تک یہ صوبہ کانگریس کا سب سے مضبوط قلعہ تھا ۔ اس وقت کانگریس کی مخالفت اشتراکی جماعتیں اور کسان مزدور پارٹی کرتی تھی ۔ اپنے مخالفین کو کمزور کرنے کے لیے کانگریس نےشیوسینا کی علاقائی عصبیت کو استعمال کیا ۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شیوسینا کانگریس کی گود میں پلی بڑھی ہے۔ ۱۹۷۱؁ میں شیوسینا نے انتخابی سیاست میں قدم رکھا اور پارلیمانی انتخاب میں اس کے تینوں امیدوار ہار گئے۔ ایک سال بعد اسمبلی کے ۲۶ امیدواروں میں سے ایک پرمود نولکر کامیاب ہوئے اور کانگریس کی حمایت کردی۔ ۱۹۷۵؁ کے اندر بالا صاحب ٹھاکرے نے ایمرجنسی کو حق بجانب ٹھہرایا اور ۱۹۷۹؁ کے انتخاب میں کانگریس کی معاون رہے۔۱۹۹۷؁ میں وزیراعلیٰ عبدا لرحمٰن انتولے اور بال ٹھاکرے کی دوستی بہت مشہور تھی ۔ اقتدار کی خاطر شیوسینا نے میونسپل کارپوریشن میں مسلم لیگ کے ساتھ بھی اتحاد کرنے سے گریز نہیں کیا ۔ بی جے پی سے الحاق کے باوجود شیوسینا نے کانگریس کی صدارتی امیدوار پرتبھا پاٹل کو ووٹ دیا لیکن پھر یہ ساتھ زیادہ دیر نہ چل سکا اور نغمہ کا بند ان پر صادق آگیا؎

وہ گھڑی یاد ہے جب تم سے ملاقات ہوئی اک اشارہ ہوا دو ہاتھ بڑھے بات ہوئی

دیکھتے دیکھتے دن ڈھل گیا اور رات ہوئی وہ سماں آج تلک دل سے بھلایا گیا ۰۰۰۰۰۰ہم سے آیا نہ گیا

یہ حسن اتفاق ہے فی الحال شیوسینا اور کانگریس کے تعلقات کو جس شرد پوار نے استوار کرنے کی اپنی سی کوشش کی انہیں کے سبب کسی زمانے میں ان دونوں کے رشتوں میں سب سے پہلی دراڑ ڈالی تھی۔ مہاراشٹرکانگریس میں ۱۹۸۰؁ کے اندرپہلی بغاوت شردپوار نے کی اور حزب اختلاف بشمول جنتاپارٹی اور بی جے پی کی مدد سےترقی پذیر حکومت بنالی ۔ اس وقت سارا حزب اختلاف کانگریس کے خلاف اسی طرح متحد ہوگیا تھا جیسے اب بی جے پی کی مخالفت میں ہورہا ہے۔ بی جے پی نے اس موقع پر شیوسینا کے ساتھ پہلی غداری کی تھی ۔ اس کے بعد جب چھگن بھجبل نے کی بغاوت کی تو بی جے پی نے فوراً شیوسینا سے حزب اختلاف کی لیڈرشپ کا عہدہ چھین لیا اور اسی دن گوپی ناتھ منڈے لال بتی والی گاڑی میں بیٹھ کر گھر آئے۔

بی جے پی کی مرکزی حکومت نے شیوسینا کی مخالفت کے باوجود پاکستانی کرکٹ ٹیم کو ہندوستان آنے کی دعوت دی ۔ ودربھ کو خود مختار صوبہ بنانے کے معاملے میں بی جے پی کا موقف ہمیشہ ہی شیوسینا کے متضاد رہاہے ۔ کرناٹک میں مراٹھی داں حضرات پر ہونے والے مظالم کے خلاف ہونے والی شیوسینا کی شکایت پر بی جے پی کبھی توجہ نہیں دی ۔ ۱۹۹۹؁ کے انتخاب میں شیوسینا کے امیدواروں کو سازش کرکے بی جے پی نے اس لیے ہروایا تاکہ خود بڑا بھائی بن سکے ۔ ۲۰۱۴؁ میں پارلیمانی انتخاب کے بعد شیوسینا کے سریش پربھو کو بی جے پی میں شامل کرکے زبردستی وزیر بنایا گیا ۔ اسمبلی انتخاب میں شیوسینا کو طلاق دے کر راج ٹھاکرے کو شیوسینا کا ووٹ کاٹنے کی خاطر میدان میں اتاراگیا ۔ آگے چل کر بحالت مجبوری شیوسینا کو حکومت میں تو شامل کیا گیا لیکن کوئی اہم وزارت نہیں دی گئی۔ اس بارساتھ میں الیکشن لڑنے کے باوجودشیوسینا کے ساتھ کیے جانے والے اہانت آمیز سلوک پر نغمہ کا یہ بند صادق آتا ہے کہ ؎

کیا خبر تھی کہ ملے ہیں تو بچھڑنے کے لیے قسمتیں اپنی بنائی ہیں بگڑنے کے لیے

پیار کا باغ بسایا ہے اجڑنے کے لیے اس طرح اجڑا کہ پھر ہم سے بچایا نہ گیا ۰۰۰۰۰۰ہم سے آیا نہ گیا

قومی جمہوریت کا سب سے بدنما پہلو یہ ہے کہ یہاں ارکان اسمبلی کو خود ان کی پارٹی کے لوگ اپنے دشمنوں کے چنگل سے محفوظ رکھنے کے لیے یرغمال بنالیتے ہیں پچھلے سال اس مظاہرہ کرناٹک میں ہوا تھا جب کانگریس اور جے ڈی ایس کو اپنے ارکان اسمبلی حیدرآباد لے جانے پڑے ۔ اس کے بغیر ان کی مشترکہ سرکار کا وجود میں آنا ممکن نہیں تھا ۔ اس کے باوجود بی جے پی چین سے نہیں بیٹھی اور اس سال اس نے کانگریس و جے ڈی ایس کے سترہ ارکان کو اغواء کرکے ممبئی بھیج دیا۔ ان میں نے سے ایک نے ابھی حال میں عوامی جلسہ کے اندر فخریہ انکشاف کیا کو اس کو حلقۂ انتخاب کے فلاح و بہبود کے لیے یدورپاّ نے ایک ہزار کروڈ روپئے دیئے۔ سوال یہ ہے کہ رشوت دینے کے لیے یدورپاّ کے پاس ایک ہزار کروڈ روپئے کہاں سے آئے؟

اس تقریر کے بعد یدورپاّ کی اپنی ایک آڈیو ٹیپ سماجی رابطے کے ذرائع ابلاغ میں گردش کرنے لگی ۔ اس میں یدورپاّ نے یہ تسلیم کیا ہے کہ کانگریس اور جے ڈی ایس کےغدار ارکان اسمبلی کو ممبئی کے اندر پارٹی کے صدر امیت شاہ کی نگرانی میں رکھا گیا تھا۔ جس ملک کے وزیر داخل اس طرح کی دھاندلی اور بدعنوانی کے الزامات لگنے لگیں تو اس ملک کی سیاست کا اللہ ہی حافظ ہے۔ اس سے پہلے بی جے پی جو سلوک اپنی حریف سیاسی جماعتوں کے ساتھ کرتی رہی ہے اب اپنی حلیف ہندوتواوادی شیوسینا کے ساتھ بھی وہی سب کررہی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہے کہ بی جے پی قوم پرستی (دیش بھکتی ) حصول ِ اقتدار کا ایک ذریعہ ہے۔

مہاراشٹر میں سرکار بنانے کی خاطر نتن گڈکری اور دیویندر فڈنویس نے سنگھ کے صدر دفتر میں جاکر موہن بھاگوت کا رسوخ استعمال کرنے کی کوشش کی حالانکہ تین سال قبل گوکہ سدھیر منگٹیوارکہہ چکے ہیں کہ حکومت سنگھ کے ریموٹ سے نہیں بلکہ آئین کے مطابق چلتی ہے۔ وہاں پر ناکامی کے بعد وزیراعظم کے گرو سنبھاجی بھیڈے کو میدان میں اتارا گیا۔ یہ وہی بھیڈے ہے جس نے بھیما کورے گاوں میں پرامن شرکاء پر حملہ کروایا تھا۔ انہوں نے آو دیکھا نہ تاو اور ہندوتوا کی دہائی دیتے ہوئےسیدھے ادھو کے گھر ماتوشری پہنچ گئے تاکہ متحارب جماعتوں میں صلح صفائی کی جائے۔ بی جے پی کی چال یہ تھی کہ اس طرح شیوسینا کے ہندوتوا مخالف ثابت کیا جائے لیکن شیوسینا نے بڑی مہارت سے اس کو ناکام کردیا ۔ ادھو کےملازمین نے بھیڈے گروجی کی مہمان نوازی تو کی مگر بات چیت سے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ وہ اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔

کانگریس نے بی جے پی کے خوف سے اپنے ارکان اسمبلی کو عیش کرنے کے لیے راجستھان روانہ کردیا ہے حالانکہ انٹر نیٹ کے اس دور نے فاصلوں کو بے معنی کردیا مگر اس طرح کم ازکم ان کی نگرانی آسان ہے۔ شیوسینا کے ترجمان سنجے راوت نے بی جےپی پر خوف اور لالچ کی مدد سے شیوسینا کے ارکان کو تونے کاسنگین الزام لگایا ہیں۔ اس کی بلاواسطہ تصدیق بی جے پی کے رکن پارلیمان سنجے کاکڑے نے اس طرح کردی کہ شیوسینا کے چھپن ّ میں پینتالیس ارکان ہمارے رابطے میں ہیں اور جلد از جلد دیویندر فڈنویس کو وزیراعلیٰ بنانا چاہتے ہیں حالانکہ اجیت پوار کی قیادت میں این سی پی کے ارکان ان کے رابطے میں تھے ۔ اسے کہتے ہیں کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ ۔اس کے بعد جب شیوسینا کے حق میں فضا سازگار ہوگئی تو سنجے راؤت نے ان خبروں کی تردید کی کہ شیوسینا اپنے اراکین اسمبلی کو کسی ریسورٹ میں شفٹ کرنے جا رہی ہے تاکہ بی جے پی کی خرید و فروخت کو ناکام کیا جا سکے۔

سنجے راؤت نے یہ دعویٰ تو کر دیا ’’ہمارے اراکین اسمبلی ہمارے ساتھ مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جو لوگ اس طرح کی افواہیں پھیلا رہے ہیں انھیں پہلے اپنے اراکین اسمبلی کی فکر کرنی چاہیے‘‘ لیکن شیوسینا اس پر قائم نہیں رہ سکی ۔ ماتوشری میں اراکین اسمبلی کی میٹنگ کے بعد ادھو ٹھاکرے نے ان سب کو مڈ آئی لینڈ کے اندر رنگ شاردا ہوٹل میں بھیج دیا تا کہ وہ سب ایک ساتھ رہیں اور ادھو ٹھاکرے کے مطالبات کی متحد ہوکر حمایت کریں۔ اصل بات یہ ہے بی جے پی کی لالچ یا دباو سے ان کو محفوظ رکھنے کی یہ ایک تدبیر تھی ۔ شیوسینا کی حرکت بی جے پی کے ساتھ اس کے انتہائی خراب تعلقات کی غماز ہے۔ مخالفین کا بی جے پی سے خوفزدہ ہونا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن یہ کون سوچ سکتا ہے کہ این ڈی اے کی مرکزی حکومت میں شیوسینا کو خود اپنے صوبے میں بی جے پی کے خوف سےارکان اسمبلی کو قید ی بناکر رکھنا پڑے گا؟ ان حلیف جماعتوں کے درمیان جاری جوتم پیزار نے باہمی تعلقات اس قدر بگاڑ دئیے ہیں کہ اگر کل کو وہ دونوں اقتدار کی خاطر یکجا بھی ہوجائیں تب بھی یہ زخم آسانی سے نہیں بھریں گے کیونکہ ؎

یاد رہ جاتی ہے اور وقت گزر جاتا ہے پھول کھلتا ہے مگر کھل کے بکھر جاتا ہے

سب چلے جاتے ہیں پھر درد جگر جاتا ہے داغ جو تو نے دیا دل سے مٹایا نہ گیا ۰۰۰۰۰۰ہم سے آیا نہ گیا

اجیت پوار نے دیویندر فڈنویس کے ساتھ حلف برداری کرکے بی جےپی کا اسی طرح وستر ہرن ( برہنہ) کیا جیسا کہ شرد پوا ر نے شیوسینا کا کیا تھا ۔ ان دونوں چچا بھتیجے نے مہاراشٹر کی سیاست سے نظریات کا جنازہ اٹھا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ راجدیپ سردیسائی نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ مہاراشٹر کی سیاسی اتھل پتھل کا سبق یہ ہے کہ بی جے پی پھر کبھی بدعنوانی کے خلاف اپدیش نہ دے۔ کانگریس سیکولرزم پر سمع خراشی نہ کرے اور شیوسینا ہندوتوا کا راگ نہ الاپے۔ اور این سی پی : اب پواروں کے بارے میں کوئی کیا کہے؟ سیاست میں صرف ایک نظریہ رہ گیا ہے’’موقع پرستی یا ابن الوقتی‘۔ سچ یہی ہے کہ شرد پوار نے اپنی حریف علاقائی جماعت سے اس کا ہندوتوا چھین لیا اور اجیت پوار نے بی جے پی کو بھی اپنی بدعنوانی کے جال میں گرفتار کر کے سیاسی اقدار کو سولی پر چڑھا دیا ہے۔ ہندوستانی سیاست کی نقاب کشائی کے لیے دونوں چچا بھتیجے مبارکباد کے مستحق ہیں ۔

Comments are closed.