Baseerat Online News Portal

زہرِ غم ہنس ہنس کے پینا آگیا

خوداحتسابی:سید حسین شمسی

اب بحث اس بات پر ہو رہی ہے کہ بابری مسجد قضیہ میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی عرضداشت داخل کرنا چاہئے یا اسے بسروچشم قبول کرلینا چاہئے۔ ایک بڑا طبقہ اس حق میں ہے کہ جب فیصلہ آنے سے قبل اسے تسلیم کرنے کا اعلان اور عام اپیل کر چکے ہیں تو اسے مانتے ہوئے ہمیشہ کے لئے قضیہ ختم کیوں نہیں کردیتے! دوسرا طبقہ، جو تعداد میں تو کم ہے لیکن ہے ذمہ دار طبقہ، وہ ریویو پٹیشن کے حق میں اس لئے ہے کہ سنائے گئے فیصلے میں کچھ شقیں ایسی ہیں جن کی بنیاد پر دوبارہ سپریم کورٹ جانے کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے۔ بس اسی بنیاد پر مسلم پرسنل لا بورڈ نے بابری مسجد کی بازیابی کی لڑائی لڑتے رہنے کا فیصلہ کیا ہے اور ہم سمجھتے ہیں اس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے۔ کیا ایک انسان اپنی ملکیت پانے کے لئے ہر ممکن جدوجہد نہیں کرتا؟ گاؤں کی پنچایت میں اپنا دعویٰ پیش کرتا ہے، ضرورت پڑنےپر عدالتوں میں قانونی لڑائی لڑتا ہے، حتیٰ کہ بار بار شکست سے دوچار ہونے کے باوجود کسی سمت اگر کوئی امید نظر آتی ہے تو فوراً رجوع ہوتا ہے، غرضیکہ اپنا حق پانے کے لئے کوئی دقیقہ چھوڑ نہیں رکھتا۔ پھر یہاں اتنا واویلا کیوں؟

مانا کہ تازہ ترین فیصلہ کے حسنات سے مبدّل ہونے کے آثار بالکل نہیں ہیں، لیکن غیرمطمئن ہونے کی صورت میں چیلنج کرنے کی اجازت تو قانون میں بھی موجود ہے۔ سو اس جواز کو کیونکر ترک کیا جائے۔ یہ قانونی لڑائی ہے نا کہ جنگ و جدل۔ ہم امید کرتے ہیں کہ جس طرح مذکورہ فیصلہ سنائے جانے کے وقت اقلیتی طبقہ نے کوئی جارحانہ رخ اختیار کرنے کے بجائے صبر و تحمل کا ثبوت دیا، اسی سنجیدگی کا مظاہرہ آگے کی قانونی لڑائی میں بھی کیا جائے گا۔ اس قضیہ میں مدعی سنّی وقف بورڈ اور اقبال انصاری نے اگر شکست تسلیم کرلی ہے (عدالتی فیصلہ کو مان لیا ہے) تو ضروری نہیں کہ ہرکوئی ہتھیار ڈال دے۔ آخری دم تک لڑتے رہنا اور جہدِ پیما رہنا بھی ہمارا شیوا ہونا چاہئے۔ ورنہ جان لیجئے، یہی قوم جس کے ہم فرد ہیں، لڑائی ادھوری اور بیچ میں چھوڑ جانے یا پھر سودا کرجانے کا الزام عائد کرنے سے قطعی گریز نہیں کرے گی اور مستقبل میں مؤرخ عدالت کے اس فیصلے سے متعلق چاہے جو لکھے، ہمیں قبل از وقت شکست تسلیم کر لینے والا ضرور گردانے گا۔ لہٰذا مثبت نتائج کے آثار معدوم ہو جانے کے باوجود ہمیں پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے۔

قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ ایک جانب ہم جہد پیمائی کی بات کر رہے ہیں، دوسری جانب بار بار یہ مایوس کن عندیہ بھی دے رہے ہیں کہ آگے کی لڑائی میں بھی فیصلہ اپنے حق میں نہیں آنے والا۔ جی ہاں مرحلہ وار عدالتی ’ورڈکٹ‘ نے یہ رائے قائم کرنے پر مجبور کردیاہے۔ عدالتیں کیسے زیر اثر ہو جاتی ہیں اس کا نمونہ بار بار دیکھنے کو ملا۔ صرف بابری مسجد قضیے کی بات کریں تو ہم نے نچلی عدالت میں سب کچھ جاتا دیکھا تو ہائیکورٹ پہنچ گئے، ہائیکورٹ میں صرف ایک گنبد ہمیں دے کر باقی سب کچھ ’آستھا‘ کی نذر کر دیا گیا۔ بتائیے بھلا کہیں’آستھا‘ کی بنیاد پر بھی انصاف کی عدالتوں میں فیصلے ہوا کرتے ہیں! اس کے بعد جب سپریم کورٹ پہنچے تو یہ گنبد بھی ہاتھ سے جاتا رہا اور جس فیصلے کا سامنا کرنا پڑا وہ ایسا ہے کہ ’صحیح اور درست دعویٰ کے باوجود ہم جگہ کے حق دار نہیں بن سکتے‘۔ اس موقع پر ایک بارسوخ پارسی دوست کی بات یاد آتی ہے۔ ممبئی پر ہونے والے انتہا پسندانہ حملے اور آنجہانی اے ٹی ایس چیف ہیمنت کر کرے کی موت پر گفتگو ہو رہی تھی۔ میں نے پوچھا، ’’اب ہندو انتہا پسندی کیس کا کیا بنے گا؟‘‘ ’باخبر‘ پارسی دوست نے کہا، ’’دوست، ایک بات سے انکار ممکن نہیں!‘‘ وہ کیا بھلا۔ ہم سوچ ہی رہے تھے کہ وہ پھر بولا، ’’اس ملک میں اکثریت کے خلاف زیادہ دور نہیں جایا جا سکتا۔‘‘ جی ہاں! سپریم کورٹ کو سپریم ہم بھی مانتے ہیں، لیکن یہ بھی سچ یے کہ بابری مسجد قضیہ میں 1992 سے لے کر آج تک ہم نے اس عدالتِ عظمیٰ کو ’زیر اثر‘ ہی پایا۔ ابھی زیادہ دنوں کی بات نہیں ہے کہ چار معزز سپریم کورٹ جج صاحبان نے آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پریس کانفرنس کر کے ’اوپر‘ ہونے والے ’نیچیاں‘ کاموں کی وضاحت کی۔ زیر اثر ہونے نہ ہونے کا اندازہ ان معززین کے انکشافات سے ہی لگایا جاسکتا ہے۔

یادکیجئے 1992 کا وہ منظر جب لال کرشن اڈوانی نے رتھ یاترا پر سوار ہو کر ایودھیا میں کارسیوا پر جانے کا اعلان کیا تو معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوا۔ سپریم کورٹ نے اس وقت اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ کو اس سلسلے میں متنبہ کیا کہ کارسیوا کی اجازت اسی شرط پر ملے گی جب اتر پردیش حکومت بابری مسجد کے تحفظ کی ذمہ داری لے۔ چنانچہ اس وقت اترپردیش کے وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ نے سپریم کورٹ میں یہ حلف نامہ داخل کیا کہ ان کی حکومت بابری مسجد کے تحفظ کی پوری ذمہ داری لیتی ہے۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے ایودھیا میں کارسیوا کی اجازت دے دی۔ صرف اتنا ہی نہیں، سپریم کورٹ نے پُرامن کارسیوا کو یقینی بنانے کے لیے اپنی جانب سے ایودھیا میں ایک آبزرور بھی تعینات کر دیا، لیکن افسوس سپریم کورٹ کے آبزرور کی موجودگی میں 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد شہید کردی گئی۔ پھر کیا ہوا، کلیان سنگھ نے استعفیٰ دے دیا اور یہ پیغام دیا کہ ’اس مہان پُرُوش نے رام مندر کے لئے ستّا کو تیاگ دیا‘۔ کلیان سنگھ کے حلف نامہ کی خلاف ورزی کا معاملہ جب سپریم کورٹ کے زیر سماعت آیا تو اس وقت کے سپریم کورٹ کےچیف جسٹس وینکٹ چلیا نے کلیان سنگھ کو کورٹ کی حکم عدولی کی صرف اتنی سزا دی کہ جب تک ان کی عدالت چل رہی ہے تب تک کلیان سنگھ کورٹ کے باہر نہیں جا سکتے۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بابری مسجد گرائی بھی گئی سپریم کورٹ کی ’زیر نگہداشت‘ اور اب وہاں رام مندر کی تعمیر کے لئے جو پیشقدمی ہو رہی ہے وہ بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد۔

یہاں ہم مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذمہ داران سے بھی ادباً عرض کرنا چاہیں گے کہ آپ کی نیتوں پر ہمیں بالکل بھی شک نہیں، لیکن محاسبہ کی ضرورت آپ کو بھی ہے۔ شاہ بانو و عمرانہ کیس ہو کہ طلاق ثلاثہ بل اور اب بابری مسجد قضیہ ہر جگہ آپ کو ہزیمت کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے۔ آپ کا یہ عذر قابل قبول نہیں مانا جاسکتا کہ عدالتیں زیر اثر ہوتی جا رہی ہیں۔ کہیں نہ کہیں کوئی غفلت یا تساہلی بھی برتی جا رہی ہے، جس کے باعث آپ اپنا موقف و دلیل پوری قوت ومؤثر انداز میں پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ عمومی طور پر نظر ڈالیں تو حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی وکیل کی پیروی میں ہم کوئی کیس ہارتے ہیں یا ہارتے ہوئے نظر آتے ہیں تو اگلی کورٹ میں دوسرا اور اچھے سے اچھا وکیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر آخر کس بنیاد پر یہ لازمی مان لیا گیا کہ سارے کیس جناب ظفر یاب جیلانی کے ہی سپرد کئے جائیں، موصوف کی صلاحیتوں کے ہم بھی قائل ہیں، لیکن بدرجہ اتم صلاحیت دیگر لائق وکلاء میں بھی پائی جاسکتی ہے۔

اب ذرا ان صاحب رائے حضرات کے بارے میں جو بابری مسجد قضیہ میں مزید پیش رفت یا نظر ثانی کی عرضی داخل کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ ظاہر ہے وہ اب زیادہ دنوں تک اس قضیہ کو التوا میں پڑے رہنا نہیں دینا چاہتے وہ اب بہرصورت تصفیہ کے قائل ہیں، فیصلہ کچھ بھی ہو حالات کے پیش نظر بسروچشم قبول کرنے کا مزاج بناچکے ہیں۔ ان کا یہ مزاج فیصلہ آنے سے قبل ہمارے اکابر حضرات وسیاسی ‘رہنما’ نے ہی بنایا ہے۔ ملّی و سماجی تنظیموں نے فرض عین کے طور پر امن قائم رکھنے کی خوب اپیلیں کیں، عدلیہ کے احترام اور فیصلہ سر آنکھوں پر کے بہانے ہماری زبانوں سے یہ کہلوایا گیا کہ جو بھی فیصلہ ہوگا وہ قبول کیا جائے گا۔ ریویو پٹیشن مخالف حضرات کو اس پہلو پر بھی غور کرنا ہوگا کہ کیا آر ایس ایس کے ٹارگیٹ میں صرف بابری مسجد ہی ہے؟ فیصلہ آنے کے بعد کیا آپ نے وہ نعرے بلند ہوتے نہیں دیکھے کہ ’اب کاشی متھرا کی باری ہے‘۔ بابری مسجد کیس میں نظر ثانی کی عرضداشت داخل کرنے سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ ہم بتا سکیں گے کہ آخر تک قانونی لڑائی لڑنے کے روادار ہیں، اتنی آسانی سے اپنی عبادت گاہ جانے نہیں دیں گے۔ ورنہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو نظیر بناتے ہوئے ہمارے دیگر ’متنازعہ‘ معبد بھی چند ایکڑ اراضی کے عوض فریق مخالف کو الاٹ کردیئے جائیں گے اور پھر ایک روایت سی قائم ہوجائے گی۔ بابری مسجد کے عوض پانچ ایکڑ کی ’سرکاری بھیک‘ اس لئے نہ لینی چاہئے کہ کسی بھی اتلاف کے عوض ’سرکاری ہرجانہ‘ لے لینے سے غم و غصہ کم اور زخم بتدریج مندمل ہوتا چلا جاتا ہے۔ اپنا غم یاد رکھنا چاہئے، جب تاریخ برسراقتدار لکھتے ہیں، تو اسے پھر ضبطِ تحریر میں لایا جا سکتا ہے۔ دوسری بات آپ کا حسنِ ظن کا تقاضہ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ نظر ثانی کے عرضی داروں کے اقدام کے پیچھے یہ للٰہیت ہو کہ اللّٰہ کی بارگاہ میں وہ کہہ سکیں کہ ہم نے اپنی عبادت گاہ کو بتکدہ بننے سے بچائے رکھنے کی ہرممکن کوشش کی اور اپنی ذمہ داریوں سے کسی بھی طرح پہلو تہی نہیں کی۔

اس پورے ایپی سوڈ میں ایک بات اور مشاہدے میں آئی کہ فیصلہ آنے سے قبل یوں تو پیشقدمی کے طور پر ملک گیر سطح پر سیکورٹی انتظامات اور امن قائم رکھنے کی عمومی اپیل کی گئی، لیکن زیادہ ٹارگیٹ مسلم حلقوں کو ہی بنایا گیا۔ سرکاری اداروں کے ’سفراء‘ باضابطہ ملّی وسماجی تنظیموں وعمائدین کے رابطے میں رہے اور ماحول کچھ ایسا بنایا کہ انہوں نے یہ لازم جانا کہ مسلمانوں سے اپیل کریں کہ جو بھی فیصلہ آئے گا اُس کو تسلیم کریں اور کسی بھی قسم کا خلل نہ پیدا ہونے دیں۔ سچ پوچھئے تو اس طرح کی مہم چلائے جانے سے ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ فیصلہ بابری مسجد کے حق میں نہیں آنے والا۔ بہرحال سرکاری حکمت واحتیاطی تدابیر کارگر ثابت ہوئیں اور بابری مسجد مخالف فیصلہ آنے کے باوجود مسلمانوں نے صبر وتحمل سے کام لیا، کسی قسم کا واویلا نہیں مچنے دیا۔ البتہ الیکٹرانک میڈیا اپنے معمول کے مطابق زیادہ دیر تک خود پر قابو نہ پاسکا اور اپنے روایتی انداز میں ڈی بیٹ شروع کردی کہ آخر فیصلہ کیونکر نہ قابلِ قبول ہو۔ اس موقع پر بابری مسجد کیس سے جڑی تنظیموں واراکین نے فوری طور پر ردعمل ظاہر کرنے سے خود کو باز رکھا، نتیجتاً میڈیائی ’کارندے‘ کیمرہ وبوم لیکر اِدھر اُدھر مولوی نما داڑھی ٹوپی والوں کو ڈھونڈتے نظر آئے، علاوہ ازیں میڈیائی چوپال میں ایسے ایسے مسلم چہروں کو بٹھایا گیا جنہوں نے کبھی نیوز کیمرے کا سامنا تک نہیں کیا تھا۔ یہاں اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جہاں مسلمانوں نے زہر کا پیالہ پیتے ہوئے خاموشی اختیار کی وہیں اکثریتی طبقہ نے بھی عمومی سطح پر جشن منانے و جلوسِ فتح نکالنے سے اجتناب برتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر حکومت وانتظامیہ چاہ لے اور واقعی چست درست رہے تو نقص امن کا خطرہ کبھی لاحق نہیں ہوسکتا۔

Comments are closed.