Baseerat Online News Portal

ہندوستان کے عالمی رہنما بننے کے لئے تنوع کا جشن ضروری

فرینک اسلام

انیسویں صدی میں ہندوستان میں واقع علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے بانی سرسید احمد خان نے ایک پیغام دیا تھا اور وہ پیغام آج بھی اسی طرح اہم ہے جتنا پہلے تھا۔ان کا پیغام بہت دوٹوک اور سادہ ہے یعنی یہ انسانیت سے محبت کرنے کے بارے میں ہیں۔ سرسید کا وڑن ایک تکثیری معاشرے میں صرف پرامن بقائے باہم تک محدود نہ تھا بلکہ وہ سماج میں ایک دوسرے سے مل جل اور ہم آہنگی کے ساتھ رہنے پر ابھارتا تھا۔
سرسید کے پاس ایسا نظریہ یا دوراندیشی کیوں کر تھی؟ایسا جزوی طور پر اس لئے تھا کیوں کہ انہوں نے دنیا اور اس کے اندر بسنے والوں کو اس طور پر دیکھا تھا۔ انہوں نے اپنے نقطہ نظر کی خود ہی وضاحت کی ہے۔
اپنی مشہور تقریر میں انہوں نے کہا تھا کہ ” میں ہندو اور مسلمان دونوں کو اپنی دو آنکھیں تصور کرتا ہوں۔” بعدمیں انہوں نے یہ بھی کہا”ایسا کیوں کر ممکن ہوسکتا ہے کہ میری ایک ہی آنکھ ہو؟”۔ انہوں نے اس جملہ کااستعمال اس لیے کیا کیوں کہ وہ بتانا چاہ رہے تھے کہ وہ ایک متقی مسلمان ہیں اور ہندو مسلمان دونوں سے یکساں پیارکرتے ہیں۔
ایسا نہیں کہ یہ بات صرف سرسید نیصرف زبانی ہی کہی ہو۔ بلکہ انہوں نے اس کو اختیار کیا اور جب انہوں نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج قائم کیا تو اس پر عمل کرکے دکھایا۔یہی کالج آگے چل کر اے ایم یو بنا جو کہ ہندوستان کی اہم ترین یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے۔
گرچہ اس کا فوکس مسلمانوں میں تعلیم کے تئیں دلچسپی اور اہلیت پیدا کرنا تھا لیکن سرسید نے اس کے قیام کے پہلے دن سے اس بات کو یقینی بنایا کہ یہ کسی مذہب کی جاگیر نہ بننے پائے۔
کالج کے شروعاتی دور میں سرسید نے اس بات پر زور دیا۔ ان کے بقول ” جی ہاں، اس کالج کا بنیادی مقصد مسلمانوں میں جدید تعلیم کی ترویج ہے جس کے نہ ہونے کی وجہ سے وہ مسائل کا شکار ہیں لیکن یہ ادارہ ہندومسلم سب کے لئے ہے۔ دونوں کو تعلیم کی ضرورت ہے۔”
اپنی عمر کے آخری ایام میں سرسید جن کی آنکھوں کی روشنی چلی گئی تھی، نے کہا تھا:
میری بصارت ختم ہوگئی ہے لیکن بصیرت ابھی زندہ ہے۔ میری بصیرت پر کبھی دھندنہیں چھائی اور میرے عزم نے کبھی شکست نہیں کھائی۔میں نے اس ادارے کی تعمیر آپ کے لئے کی ہے اور مجھے یقین ہے آپ اس ادارے کی مشعل کو آگے بڑھائیں تاآں کہ دنیا سے اندھیرے نابود ہوجائیں۔
انہوں نے اے ایم یو کے فارغین سے کہا کہ انہیں تبدیلی کا نقیب بننا ہے اور اندھیروں کو ختم کرنا ہے۔انہوں نے ان کو یہ بھی مشورہ دیا کہ "سارے انسان ہمارے بھائی اور بہن ہیں۔ ان کے لئے کام کرنا مسلمانوں پر لازم ہے۔ ”
اے ایم یو کے ایک سابق طالب علم کے طور پر میں ان ذمہ داریوں کو محسوس کرتا ہوں اور میں اپنے طورپر ان کو اداکرنے کی کوشش بھی کرتا ہوں۔ اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ بنارس ہندو یونیورسٹی کے بانی پنڈت مدن موہن مالویہ کی وجہ سے بہت سارے ہندو بھی ہیں جنہیں اسی طرح کی ذمہ داری اور فرض کا ادراک ہے۔ پنڈت مالویہ کا ماننا تھا کہ” ہندوستان صرف ہندوؤں کا ملک نہیں ہے۔ یہ مسلمانوں، عیسائیوں اور پارسیوں کا ملک بھی ہے۔ ملک کو ترقی اور عروج اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب ملک کے عوام باہمی ہم آہنگی اور خیر سگالی کے ساتھ رہیں۔”
سرسید اور پنڈت مالویہ نے مذہبی تنوع کی افادیت کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اس کا جشن بھی منایا۔ ان کا ماننا تھا کہ تنوع انہیں مضبوط بناتا ہے اور لوگوں کو ساتھ لاتا ہے۔ گرچہ ان دونوں کے درمیان کو ئی مذہبی رشتہ نہیں تھا لیکن یقینی طور پر وہ ایک روحانی رشتہ سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔ یقینی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان میں روحانی رشتہ تھا اور اس روحانیت کی بنیاد میں کافی یکسانیت تھی۔
لہذا اگر وہ آج اس فتنہ وفساد کے دور میں ہماری رہنمائی کے لئے موجود وہوتے تو ان کا مشورہ یہی ہوتا کہ ہم ایک دوسرے کے قریب آئیں اور آپسی افہام وتفہیم کے ذریعہ مل جل کر گزر بسر اور کام کریں نہ کی جھگڑاوفساد کے ذریعہ۔ ان کا مشورہ اور وڑن اتحاد کے فروغ، مختلف ثقافتوں ، قوموں اور مذاہب کے درمیان انسانیت کے مشترکہ ادراک کی جستجو کے لئے بھائی چارہ کے قیام کی بنیاد فراہم کرنا چاہیے۔
سرسید کا پیغام علی گڑھ کا پیغام ہے جہاں حال ہی میں میرا جانا ہوا۔ لیکن یہ پیغام صرف علیگ برادری کے لئے یا مسلمانوں تک کے لئیمحدود نہیں ہے۔ بلکہ یہ پیغام سارے ہندوستانیوں کے لئے ہے خواہ ان کی مذہبی سمجھ اور ترجیحات کچھ بھی ہوں۔ اس پیغام کا مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے سے محبت کی جائے اور تنوع کا جشن منایا جائے۔ یہ پیغام اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے ہے کہ ایک صحت مند جمہوریت کے لئے ایسا کرنا انتہائی ضروری ہے۔ یہ پیغام یہ بھی بتاتا ہے کہ ہندوستان کو ایک باعزت علاقائی اور عالمی رہنما بنانے کے لئے ایسا کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ اتحاد کو فروغ دینے کا پیغا م ہیاور اس میں ایک ایسے ہندوستان کی تعمیر پر زور دیا گیا ہے جو کہ انتہائی متنوع ہے اور اس کی جمہوری بنیادیں ، مساوات اور جامع معاشی نقل و حرکت کے یکساں مواقع اس کو متحد رکھے ہوئے ہیں۔
یہ اکیسویں صدی کے ہندوستان کے لئے انیسویں صدی کے ہندوستان کا پیغام ہے۔ اس پیغام میں کوئی زمانی اور مکانی بندش نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا پیغام ہے جس کی گونج اس صدی میں بھی اور آنے والی صدیوں میں بھی سنائی دے گی۔

٭(فرینک ایف اسلام امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں مقیم ایک کامیاب ہند نڑاد تاجر، مخیر اور مصنف ہیں۔ ان سے ان کے ای میل کے ذریعہ رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
[email protected])

Comments are closed.