Baseerat Online News Portal

اور تین دن کی اجیت پوار، فڑنویس سرکار ذلیل ہوگئی…….

 

تجزیہ خبر: شکیل رشید

(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز/ سرپرست ایڈیٹر بصیرت آن لائن )

مہاراشٹر کے سیاسی افق پر سے کالے بادل تقریباً چھٹ گئے ہیں۔

تین دن کےلیے وزیراعلیٰ کی گدی پر بیٹھ کر دیویندر فڈنویس مستعفی ہوچکے ہیں۔ این سی پی کے ’باغی‘ اجیت پوار استعفیٰ دینے میں ان سے سبقت لے گئے ہیں، وہ بھی تین دن تک نائب وزیراعلیٰ کی گدی کا ’مزہ‘ لیتے رہے۔ این سی پی سربراہ ، اپنے چچا مہاراشٹر کی سیاست کے مرد آہن شرد پوار سے ’بغاوت‘ کا انہیں کوئی فائدہ ملا ہو یا نہ ملا ہو پر بی جے پی سے ’دوستی‘ کا فائدہ ضرور ملا ہے کہ ان پر زرعی آب پاشی گھوٹالے کے جو کئی ہزار کروڑ روپئے کے الزامات تھے ان میں سے ۹ الزامات سے وہ بری ہوگئے ہیں! جب صرف تین دن کی ’مسند نشینی‘ نے یہ کمال کر دکھایا تو اندازہ لگائیں کہ اگر این سی پی اور بی جے پی کی ملی جلی سرکار بن جاتی تو کیسے کیسے ’کرپٹ‘ اور ’بدعنوانوں‘ کی بن آتی!

خیر، یہ ایک جملۂ معترضہ تھا، اصل بات تو مہاراشٹر میں سیاسی منظر نامے کی تبدیلی کی ہے۔ تبدیلی ضروری تھی۔ اگر اسمبلی الیکشن کے نتائج کا غیر جانبداری سےتجزیہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عوام تبدیلی چاہتے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ ووٹوں کے بٹوارے اور ووٹوں کے معمولی فرق سے ہار او رجیت نے این سی پی اور کانگریس کو دوڑ میں پیچھے کردیا تھا، لیکن یہ بات عیاں ہوکر سامنے آگئی تھی کہ اب بی جے پی مہاراشٹر کے لوگوں کی پہلی پسند نہیں ہے۔ لہذا اگر یہ کہاجائے کہ شیوسینا کا بی جے پی سے علاحدہ ہونا مہاراشٹر کے لوگوں کو ناپسند نہیں آئے گا تو غلط نہیں ہوگا۔ ریاست کو اب ایک ’نئے سیاسی تجربے‘ کا سامنا ہے۔ شیوسینا، کانگریس اور این سی پی کے اشتراک سے جو حکومت بننے جارہی ہے، جس کے وزیراعلیٰ شیوسینا پرمکھ ادھو ٹھاکرے ہوں گے، امید ہے وہ بی جے پی کی ’ڈگر‘ سے ہٹ کر ایک نئی ’راہ ‘نکالے گی۔ تینو ںہی سیاسی پارٹیاں نظریاتی طور پر ایک دوسرے کی مخالف ہیں، شیوسینا کو بہرحال سیکولر نہیں کہاجاسکتا ، لیکن کانگریس اور این سی پی کی حمایت سے اس کی حکومت بن رہی ہے اس لیے اسے اپنے ’کردار‘ اور ’مزاج‘ میں سیکولر اقدار کو جگہ دینی ہوگی۔ اسے ’ہندوتوا‘ کے اپنے ایجنڈے کو تجنا ہوگا۔ یہ ضروری بھی ہے کیوں کہ مہاراشٹر کے لوگوں کے مسائل میں ’ہندوتوا‘ سرفہرست نہیں ہے۔ سرفہرست سیلاب او ربارش سے ہونے والی تباہ کاریاں، سوکھا، پینے کے پانی کی قلت، کسانوں کی خودکشی، بے روزگاری، بڑھتی قیمتیں اور شہروں کا بگڑتا ہوا نظام ہے۔ سڑے ہوئے انفراسٹرکچر نے ممبئی جیسے شہر کے حسن کو غارت کرکے رکھ دیا ہے۔ فڈنویس سرکار نے پانچ سال تک بیٹھ کر بی جے پی کو معاشی طور پر تقویت پہنچانے کا کام کیا پر ریاست کی خستہ حالی کو دور کرنے کےلیے کچھ نہیں کیا۔ شیوسینا ، کانگریس اور این سی پی کے اس اشتراک کو جسے ’مہاوکاس اگھاڑی‘ کہاجاتا ہے ’وکاس‘ پر ہی توجہ دینی ہوگی۔ وہ بھی سنجیدگی سے نہ کہ مودی کی طرح کہ نعرہ لگادیا ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ اور نہ سب کا ساتھ سچ ثابت ہوا او رنہ ہی وکاس کی گاڑی پٹریوں پر دوڑی۔

ایک اُمید بندھی ہےکہ یہ سرکار اقلیتوں بشمول مسلم اقلیت کو خود سے قریب کرے گی۔ ان کی روزی، روٹی، تعلیم پر اور انہیں ریزرویشن کی سہولت مہیا کرنے پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ پانچ سال کا عرصہ اگریہ سرکار لوگوں کے دلوں کو جیتنے پر لگا دے تو بی جے پی کا پورا وجود مٹ جائے گا۔ اجیت پوار اور فڈنویس کی تین روزہ سرکار جمہوریت کے منہ پر ایک طمانچہ تھی پرپہلے شرد پوار نے اپنے تجربے کے بل پر ’امیت شاہ‘ کے سارے ’فریب‘ کو انجام تک پہنچا کر او رپھر سپریم کورٹ نے ’فلورٹیسٹ‘ کا حکم دے کر او ریہ کہہ کر کہ یہ ساری کارروائی سب کے سامنے ہوگی، خفیہ نہیں ہوگی، اسے جمہوری قدروں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ اسے ’ذلت‘ ہی سے تعبیر کیاجائے گا، پر بے حیا لوگوں کو کہاں عزت اور ذلت کی پرواہ! سپریم کورٹ ’دبائو‘ میں نہیں آئی یہ بھی ملک کےلیےایک امید افزا بات ہے۔۔۔سرکار بنے، سنجیدگی اور خلوص سے کام کرے، امن وامان کو غارت نہ ہونے دے، کہ حکومت کے یہی کام ہیں، شہری یہی چاہتے ہیں او راسی کی امید رکھتے ہیں۔ شاید امید اب پوری ہو۔

Comments are closed.