Baseerat Online News Portal

آہ مولانا سید غفران ندوی! مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے

 

مفتی محمد حذیفہ قاسمی

حضرت مولانا سید صدیق احمد صاحب باندوی رحمۃ اللہ علیہ کی سب سے بڑی صاحبزادی محترمہ صدیقہ آپا، جنہوں نے اپنی والدہ محترمہ کے ساتھ غربت کا شروع کا وہ دور بھی دیکھا ہے جب حضرت کے گھر میں بے انتہا تنگی کا دور تھا. حضرت مولانا سید صدیق احمد صاحب باندوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ادارے جامعہ عربیہ ہتھورا سے کبھی بھی ایک پیسہ تنخواہ نہیں لی بلکہ ہمیشہ اپنی جیب سے ہی لگایا، اور اپنے صاحبزادگان کو بھی ادارے سے کچھ نہ لینے کا ہی پابند کیا. حضرت علیہ الرحمہ کی ادارے کوجلد از جلد ترقی دینے کی دھن نے انہیں ایسا دیوانہ کیا تھا کہ آپ نے نہ رات کو رات سمجھا نہ دن کو دن، ہمہ وقت بس ادارہ ہی دل ودماغ پر چھایا ہوا تھا. حتی کہ اپنی ذاتی ضرورتوں پر بھی توجہ نہ دے پاتے تھے، اور گھر کی ضروریات بھی بڑی تنگی سے پوری ہو پاتی تھیں. یہاں تک کہ بسا اوقات فاقے تک کی نوبت آجاتی تھی. یہ وہ دور تھا جب حضرت مولانا سید حبیب احمد صاحب، ناظم اعلی جامعہ عربیہ ھتورا باندہ اور انکی بڑی بہن محترمہ صدیقہ آپا چھوٹے چھوٹے ہوا کرتے تھے. اس دور میں حضرت کی اھلیہ محترمہ قریشہ آپا عرف بڑی آپا اور صدیقہ آپا نیز حضرت مولانا سید حبیب احمد صاحب و دیگر بچوں نےاپنے والد محترم کا جو تعاون کیا ہے اور حضرت کی دینی خدمات میں بڑی سے بڑی قربانیاں پیش کی ہیں ملت اسلامیہ ان کے گھر والوں کی اس قربانی کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی. پھر آہستہ آہستہ حالات بدلے اور حضرت مولانا سید حبیب احمد صاحب کی کوششوں سے کچھ کاروباری شکلیں پیدا ہوئیں اور پھر ماشاء اللہ فراوانی کا دور آیا۔

قصہ مختصر یہ کہ حضرت کی بڑی صاحبزادی محترمہ صدیقہ آپا کی جہاں اپنے والدین کے ساتھ انکی دینی خدمات میں بڑی سے بڑی قربانیاں تھیں وہیں انکی یہ دلی خواہش تھی کہ انکا ایک بچہ حافظ عالم دین اور ذخیرہ آخرت بن سکے. انہی ارمانوں کے تحت آپ نے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے مرحوم سید غفران احمد ندوی کو پہلے مدرسہ سید احمد شہید تکیہ کلاں رائے بریلی سے حافظِ قرآن بنا کر پھر درجاتِ عالمیت کی ابتدائی تعلیم کے لیے مدرسہ مصباح العلوم رائے بریلی، اس کے بعد آخری درجات کی تعلیم کے لیے ملک کی مایہ ناز دینی درس گاہ دارالعلوم ندوۃ العلماء بھیجا. جہاں سے انہوں نے درجۂ عالمیت و درجۂ فضیلت کی تکمیل کی. دورانِ تعلیم اپنی صلاحیتوں و صالحیت کی بنا پر اپنے اساتذہ کے درمیان انتہائی محبوب و مقبول رہے. ندوۃ العلماء کے اکثر اساتذہ حضرت مولانا صدیق احمد صاحب باندوی رح کی نسبت کی وجہ سے انہیں انتہائی محبوب رکھتے تھے، اور موصوف کی اسی نسبت کی بنا پر حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی صاحب ناظم ندوۃ العلماء نےآپکو ندوۃ العلماء میں درجات عالمیت کے مدرس کی حیثیت سے مقرر فرمایا. موصوف اپنے اساتذہ اور اپنے طلبہ کے درمیان یکساں محبوب ومقبول تھے، اور دینی مطالعہ وتحقیق کابھی آپکو بڑا اچھا ذوق تھا. چنانچہ آپ نے پہلے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے گریجویشن اور لکھنؤ یونیورسٹی سے پوسٹ گریجویشن کِیا، اور اسکے بعد اب لکھنؤ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رھے تھے، اپنی 33 34 سالہ نو عمری میں آپ نے یہ اہم مراحل طے کر لئے تھے، اور مسلسل علمی ترقی کی جانب گامزن تھے۔

انکو اپنے نانا محترم حضرت مولانا سید صدیق احمد صاحب باندوی رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی سے بڑی مناسبت اور آپکے علوم اور آپکی تحریروں کو محفوظ کرنے کا بڑا شوق اور بڑی فکر تھی. چنانچہ آپ نے اپنے نانا محترم کے حالاتِ زندگی پر مشتمل ایک کتاب ‘صدیقِ دوراں کے عنوان سے بھی تحریر کی تھی. گذشتہ سال روزنامہ راشٹریہ سہارا اردو نے جب حضرت مولانا صدیق احمد صاحب باندوی رحمۃ اللہ علیہ پر خصوصی شمارہ نکالنے کا ارادہ کِیا اور اُس کے چیف ایڈیٹر سید حسین شمسی صاحب نے مجھ سے اِس نیک کام کا تذکرہ کِیا، تو میں نے جہاں حضرت کے بہت سے خلفاء و متعلقین سے رابطہ کِیا، وہیں مولانا سید غفران احمد صاحب ندوی سے بھی اِس سلسلے میں مسلسل رابطہ رہا. اور حضرت باندوی علیہ الرحمہ کے حالاتِ زندگی پر اُن کی اپنی تحریر اور حضرت مولانا محمد زکریا صاحب سنبھلی (شیخ الحدیث دارالعلوم ندوۃ العلماء) نیز مفتی محمد زید صاحب مظاہری ندوی کی تحریرات فراہم کرانے میں مولانا سید غفران احمد ندوی کا ہمارے ساتھ بہت بڑا تعاون رہا. مولانا غفران مرحوم کی یہ بھی کوشش تھی کہ اُن کے نانا جان کی علمی تحریریں یا اُن کے بیانات کی کیسٹیں جہاں کہیں سے بھی میسّر ہوں، اُن کو جدید ذرائع کے ساتھ محفوظ کر کے اُن کی نشر و اشاعت کا نظم کِیا جائے. چنانچہ گذشتہ ہفتے جب میں باندہ میں اپنی والدہ محترمہ کے پاس مقیم تھا، اُن دنوں انہوں نے مجھ سے فون پر کافی تفصیلی بات کرتے ہوئے اِس خواہش کا پر زور اظہار کِیا کہ نانا جان کی تقریروں کی کیسٹیں پورے ملک میں جس کسی کے پاس بھی ہوں وہ حاصل کرانے میں مَیں اُن کا تعاون کروں. میں نے ان کی اس خواہش کا بھرپور احترام کرتے ہوئے اُن کو یہ مشورہ دیا کہ آپ پہلے کسی اخباری بیان یا سوشل میڈیا کے ذریعے یہ درخواست جاری کر دیجیے کہ حضرت مولانا صدیق احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بیانات یا علمی خطوط جن لوگوں کے بھی پاس ہوں، وہ مندرجہ ذیل نمبرات سے رابطہ قائم کریں. جس میں مولانا غفران صاحب کے ساتھ ساتھ میرا نمبر اور بعض قریبی لوگوں کے نمبرات شامل ہوں. اِس گفتگو کے تین روز بعد اچانک اس حادثۂ فاجعہ کی اطلاع نے دل و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، کہ 24 نومبر 2019 بروز اتوار جامعہ عربیہ ہتھورا کے استاذ حافظ جواد الحق صاحب کی پوتی کی شادی میں شرکت کر کے بعد نمازِ مغرب اپنے ننہیالی رشتے داروں، دوست احباب اور متعلقین سے خندہ پیشانی کے ساتھ مل کر وہ اور اُن کے بڑے بھائی سید عمران احمد ہتھورا سے رائے بریلی کے لیے فتح پور ہوتے ہوئے بذریعۂ کار روانہ ہوئے. فتح پور کراس کر کے گنگا کا پُل پار کرنے کے بعد لال گنج کے قریب کسی تیز رفتار گاڑی سے ایکسیڈینٹ کے نتیجے میں مولانا سید غفران احمد ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی جائے وقوع پر ہی وفات ہو گئی. اور اُن کے بڑے بھائی سید عمران احمد کو بھی سخت چوٹیں آئیں، جو لکھنؤ میں تا ہنوز زیرِ علاج ہیں۔

حضرت مولانا صدیق احمد صاحب باندوی رحمۃ اللہ علیہ کی بڑی صاحب زادی صدیقہ آپا کا نکاح اُن کے ماموں زاد بھائی انجینئر سید عتیق احمد صاحب سے ہوا تھا، جو پالی ٹیکنک کالج رائے بریلی میں پرنسپل تھے. اور انہوں نے شہر رائے بریلی کو ہی اپنا مسکن بنا لیا ہے. اِس مناسبت سے مولانا سید غفران احمد ندوی رائے بریلوی قرار پائے. آپ کے والدین اور گھر والے رائے بریلی میں ہی مقیم ہیں. مرحوم کے پس ماندگان میں والدین، دو بھائی، پانچ بہنیں، مرحوم کی بیوہ اور دو سال کا ایک معصوم بیٹا ہے. مرحوم کے جسد کو رائے بریلی سے جامعہ عربیہ ہتھورا باندہ منتقل کِیا گیا، جہاں مدرسے کے وسیع و عریض گراؤنڈ پر آپ کے استاذِ محترم حضرت مولانا سید بلال حسنی ندوی مدظلہ نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی. اور دسیوں ہزار کے مجمع نے اپنی نم آنکھوں کے ساتھ آپ کے نانا محترم حضرت مولانا صدیق احمد صاحب باندوی علیہ الرحمہ کے آغوش میں سپردِ خاک کِیا. اللہ تبارک و تعالیٰ مرحوم کو کروٹ کروٹ سکون نصیب فرمائے، جنت الفردوس کے اعلی مقام میں جگہ عطا فرماتے ہوئے اُن کی اس حادثاتی موت کو مقامِ شہادت عطا فرمائے. مرحوم کے غم زدہ والدین، بہن بھائیوں، بیوہ کو صبرِ جمیل عطا فرمائے. ان کے معصوم بچے کی بہترین تعلیم و تربیت کا نظم فرمائے اور اپنے والد کے خوابوں کی تعبیر بناتے ہوئے اُن کے لیے ذخیرۂ آخرت بنائے. آمین ثم آمین۔

سبزۂ نورُستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

Comments are closed.