Baseerat Online News Portal

شیوسینا اور بی جے پی کے درمیان فرق

 

مولانا محمود احمد خاں دریابادی

جنرل سکریٹری آل انڈیا علماء کونسل ممبئی

 

پچھلے کچھ برسوں سے ایک ساتھ مرکزی وریاستی حکومت میں شامل رہنے کی وجہ سے عام طور پر لوگ بی جےپی شیوسینا کو ایک ہی جیسی پارٹیاں سمجھتے ہیں، حقیقت میں ایسا نہیں ہے ـ

 

بی جے پی سنگھ پریوار آر ایس ایس کا حصہ ہے، جس کی مخصوص ائیڈیالوجی ہے، ہندوتوا، یونی فارم سول کوڈ اور اکھنڈبھارت وغیرہ آرایس ایس کے نظریات کا حصہ ہیں، بی جے پی ہمیشہ سے ان نظریات کی پابند رہی ہے، جس زمانے میں بھاجپا کی صرف دو سیٹیں تھیں تب بھی وہ سنگھ کاحصہ تھی، اگرچہ طاقت نہ ہونے کی وجہ سے اپنے نظریات کو عملی جامہ پہنانے سے قاصر تھی، اب تنہا تین سو سیٹوں پر قابض ہونے کے بعد اپنے ایجنڈے پر بلا کسی خوف کے عمل کررہی ہے ـ

 

شیوسینا کا معاملہ دوسرا ہے، اُس کا قیام مراٹھی اسمیتا ( وقار) کو بلند رکھنے کے نام پر ہوا تھا، چنانچہ 1960 میں ریاست مہارشٹرا کے قیام بعد جب یہ تنازعہ ہوا کہ بمبئی کو مہاراشٹرا کا حصہ بناجائے یا گجرات کا، اس موقع پر شیوسینا نے گجراتیوں کے خلاف ” امچی ممبئی ” نامی تحریک چلائی، یہ تحریک ہندومسلم کے نام پر نہیں تھی، اس کا نشانہ صرف گجراتی تھے،…….. اسی تحریک سے شیوسینا کی پہچان بنی ـ

 

کچھ دنوں کے بعد جنوبی ہند کے باشندوں کے خلاف شیوسینا نے زبردست تحریک چلائی، یہ بھی فرقہ کی بنیاد پر نہیں تھی، گجراتیوں کی طرح جنوبی ہند کے باشندے بھی زیادہ تر ہندو تھے ـ اس تحریک کے بعد شیوسینا کے قدم مزید جم گئے ـ

 

اسی دوران کانگریس نے ممبئی کے کارخانوں اور ملوں سے کمیونسٹوں کا زور ختم کرنے کے لئے شیوسینا کا استعمال کیا، ہرجگہ شیوسینا کی یونین قائم کروائی جس نے بزور بازو (شیوسینا اسٹائیل میں ) کمیونسٹوں کو اس طرح ختم کیا کہ آج مہاراشٹرا میں ان کا نشان بھی بمشکل بچ پایا ہے ـ کمیونسٹوں سے کامیاب مقابلے کے بعد شیوسینا کے قدم مہاراشٹرا میں مضبوطی کے ساتھ جم گئے ـ

اسی طرح سینا نے شمالی ہند کے باشندوں کے خلاف بھی بار بار زہریلے بیانات میں بھی ہندو مسلم کا کوئی فرق نہیں کیا ـ

 

1970 میں بال ٹھاکرے کے جلوس پر حملے کی وجہ سے بھیونڈی میں فساد ہوا، اس فساد میں پہلی بار شیوسینا مسلمانوں کے خلاف میدان میں آئی، 1984 کے ممبئی فساد کے موقع پر بھی شیوسینا مسلمانوں پر تشدد میں سرگرم رہی، برسر اقتدار کانگریس کی نرمی وچشم پوشی کی وجہ سے ممبئی میں بال ٹھاکرے کی شخصیت ناقابل تسخیر سمجھی جانے لگی ـ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھوں کے خلاف پورے ملک میں فسادات ہوئے، مگر ممبئی میں سکھ فرقے کے کچھ بڑے لوگوں نے بال ٹھاکرے سے ملاقات کرکے مہاراشٹرا کے سکھوں کو اپنی امان میں رکھنے کی درخواست پیش کی اور مبینہ طور پر معقول معاوضہ بھی ادا کیا ـ اس طرح کے اقدامات سے شیوسنا کی جارحانہ شبیہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی ـ

 

1992-93 میں بابری مسجد کے خلاف تحریک کے دوران شیوسینا اور بھاجپا قریب آئے، بابری مسجد کے انہدام کا سب سے پہلے اعلانیہ کریڈٹ لے کر اور اس زمانے میں ہونے والے ہولناک فسادات میں شیوسینکوں کی کھلے عام شرکت کی وجہ سے بال ٹھاکرے ” ہندو ہردے سمراٹ ” بن گئے ـ اُسی کے بعد سے بننے والی مرکزی اور ریاستی حکومتوں میں بھاجپا اور شیوسینا ساتھ ہونے لگےـ

 

ساتھ ہوجانے کےباوجود شیوسینا سنگھ پریوار کا حصہ کبھی نہیں بنی، بال ٹھاکرے کا الگ دربار لگتا تھا جس میں آرایس ایس اور بی جے پی لیڈر نیاز مندانہ حاضری لگاتے تھے، سیٹوں کا سمجھوتہ بی جے پی آفس کے بجائے ٹھاکرے کی رہائش گاہ ماتو شری میں ہوتا تھا، بال ٹھاکرے خود چل کر کہیں نہیں گئے، منوہر جوشی، اڈوانی، مودی جیسے تمام لوگوں کو بات کرنے ان کے گھر جانا پڑتا تھا ـ

 

شیوسینا کی مراٹھی عوام میں مقبولیت اور اُس کے متشدد اسٹائیل کا فائدہ بی جے پی کو بھی خوب پہونچا، ایک زمانے میں مہاراشٹرا میں شیوسینا پہلے نمبر کی پارٹی ہوتی تھی بھاجپا دوسرے نمبر کی، آج سینا دوسرے پر آچکی ہے، اگر سینا کا ساتھ نہ ملتا تو مہاراشٹرا میں بی جے پی کے لئے قدم جمانا بہت مشکل ہوتا ـ

 

وقتی اشتعال اگر نہ ہو تو عام طور پر مہاراشٹرا کے باشندوں کے اندر شمالی ہند کے مقابلے فرقہ وارانہ تعصب کم ہوتا ہے، مہاراشٹرا میں سب سے زیادہ تشدد پسند جماعت شیوسینا ہی سمجھی جاتی ہے، لیکن یوپی بہار کی ہندو تنظیموں کے مقابلے ان کے اندر بھی فرقہ واریت کے جراثیم بہت حد تک کم ہیں، یہی وجہ ہے کہ پچھلے دنوں جب شمال میں موب لنچنگ جیسے واقعات بکثرت ہورہے تھے تو مہاراشٹرا عموما اس طرح کے سانحات سے محفوظ رہا ـ

 

اپنی سخت ہندووادی شبیہ کے باوجود شیوسینا کے لیڈروں نے مقامی سطح پر مسلمانوں سے تعلقات استوار رکھنے کی کوشش کی ہے، مسجدوں، مدرسوں کی تعمیر میں تعاون، مسلمانوں کےبڑے چھوٹے مذھبی اجتماعات، جلسے جلوس وغیرہ میں شرکت وتعاون، حکومتی اسکیموں، علاج ومعالجہ کے لئے ملنے والے فنڈ سے ان کے پاس پہونچنے والےمسلمانوں کی امداد ـ…….. اس طرح کے اقدامات کی وجہ سے بی جے پی کے مقابلے شیوسینا کے لئے مسلمانوں میں نرم گوشہ پایا جاتا ہے ـ

 

مہاراشٹرا میں بھاجپا کا زور توڑنے اور مذہبی تعصب کو بڑھنے سے روکنے کے لئے سب سے ضروری یہ تھا کہ شیوسینا اور بھاجپا کے درمیان دراڑ پیدا کی جائے ـ ……..موجودہ ریاستی الیکشن کے بعد سب کو یقین تھا کہ بی جے پی اور شیوسینا مل کرایک بار پھر حکومت بنالیں گے، امت شاہ جن کو موجودہ دور کا چانکیہ بھی کہا جاتا ہے ممبئی آکرجیت کے لڈو کھاکر خوشیاں بھی مناگئے تھے ، مگر مہاراشٹرا کے پرانے کھلاڑی شرد پوار نے ایسے ایسے پانسے پھینکے کے بھاجپا اور شیوسنا کی دوستی شدید دشمنی میں بدل گئی، اور چانکیہ جی دیکھتے رہ گئے ـ

 

آج بھی کچھ لوگ سیکولر پارٹیوں پرشیوسینا کے ساتھ حکومت بنانے کو لے کر سوال اٹھا رہے ہیں، حالانکہ سمجھنے والی بات یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں اب کوئی پارٹی حقیقت میں سیکولر نہیں رہی ہے،…….. سب کی سب موقع پرست ہیں، اس لئے ہمیں بھی سیکولر کمیونل کا چکر چھوڑ کر موقع کا فائدہ اٹھانا چاہیئے ، …….. وہ پارٹی جس کا ایجنڈا ہی ہندوستان میں ہندوراشٹرا کا قیام اور اسلام کو یہاں سے بےدخل کرنا ہے اس کے خلاف جو بھی جدوجہد کررہا ہے اُس کا ساتھ دینا چاہیئے ـ

 

مہاراشٹرا میں بھاجپا کی جو ” در دشا ” ہوئی ہے اس کا اثر دوسری ریاستوں پر بھی پڑے گا، ویسے بھی 2017 میں پچھتر فیصد ہندوستانی صوبوں پر قبضہ رکھنے والی پارٹی اب سکڑ کر چالیس فیصد پر آچکی ہے، امید رکھنی چاہیئے کہ یہ سلسلہ اب یوں ہی چلتا رہے گا ـ

Comments are closed.