Baseerat Online News Portal

عجب اک سانحہ سا ہوگیا ہے

 

مولانا سید غفران ندوی مرحوم صالحیت و صلاحیت کے جامع تھے

 

پھول تو دو دن بہار جاں فزا دکھلا گئے

حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے

 

۲۳/ نومبر مطابق ۲۵/ ربیع الاول کو سیکڈ ٹائم ایک مخلص اور تعلق رکھنے کی خواہش اور تقاضا پر ان کے گھر الہ آباد کریلی گیا تھا چند گھنٹے وہاں رہ کر اور ظہرانہ وغیرہ سے فارغ ہو کر عشاء کے وقت مدرسہ پہنچا نماز اور کھانے سے فارغ ہوکر جلد ہی بستر پر چلا گیا تکان زیادہ تھی اس لئے مطالعہ کی اس وقت سکت اور ہمت ذرا بھی نہیں تھی سونے سے پہلے موبائل ڈاٹا آن کیا تو مختلف گروپوں پر گرامی قدر مولانا سید غفران ندوی(نواسہ حضرت قاری صدیق صاحب رحمۃ اللہ علیہ و استاد دار العلوم ندوة العلماء لکھنئو) کی کار حادثے میں وفات کی خبر گردش کررہی تھی اور بڑے بھائی ڈاکٹر عمران کی نازک حالت میں ہونے کی اطلاع آرہی تھی کوئ اس خبر کو قطعی اور حتمی بتا رہا تھا اور کوئ خبر کی تصدیق سے انکار کر رہا تھا ۔ دل و دماغ تقاضا کررہا تھا کہ کاش یہ خبر جھوٹی ہو کسی طرح صحیح نہ ہو ۔ اس خبر سے ایک بجلی سی گری۔ دل دھک سا ہوگیا اور دماغ مفلوج و ماوف سا ہوگیا باطن کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے لیکن واقعہ ہے کہ ہمارے جیسے ہزاروں لوگوں کے دلوں پر اس کا گہرا صدمہ اور اثر اب تک ہے ۔ میری حالت اس خبر سے عجیب سی ہوگئی صدمہ اور حادثے کا اثر اتنا گہرا ہے کہ طبیعت اب تک اداس اور بجھی بجھی سی ہے ۔

 

مصائب اور تھے پر دل کا جانا

عجب ایک سانحہ سا ہوگیا ہے

 

ایسا غیر معمولی سانحہ جو غیروں کے دل ہلا دینے کے لئے کافی ہے ۔ چہ جائے کہ والدین بیوی بچہ اور قریبی اعزہ کا۔ نوجوان، ہونہار، صلاحیت اور صلاحیت کا جامع اولاد کی تو موت لمبی بیماری کے بعد بھی آسانی سے قابل برداشت نہیں ہوتی نہ کہ ایسی آنا فانا ۔ بس جس نے یہ وقت ڈالا ہے وہی صبر دے ۔ لیکن ایسی آزمائش ہر ایک کی نہیں ہوتی صرف انہیں خوش نصیبوں کے نصیب میں آتی ہے جن کے نصیب میں اجر بے پایاں ہوتا ہے ۔ آزمائش ہمیشہ ظرف کے مناسبت سے ہوتی ہے اور عالی ظرفی کا اندازہ انسان کو نہیں صرف انسان کے خالق و مالک ہی کو ہوسکتا ہے ۔ سینکڑوں مجاہدوں سے وہ مرتبہ نہیں ملتا جو ایک اس طرح کے اضطراری مجاہدہ سے مل جاتا ہے ۔

خاکساری، تواضع فروتنی انکساری، راست بازی، مروت ،صداقت و شرافت نجابت و فطانت صلاحیت و صلاحیت ،حلم ۔ شگفتہ مزاجی انسانی زندگی کے وہ سدا بہار و خوشنما پھول ہیں جن سے چمن انسانیت ہمیشہ عطر بیز رہتا ہے اور جب یہ صفات کسی مومن صادق کی خوبی اور صفات بن کر جلوہ گر ہوئیں ہیں تو رنگ و نور ،پاکیزگی بھولے پن کی ایسی البیلی قوس و قزح روشن و منور ہوتی ہے جس کے پاکیزہ اجالے میں شر و فساد حرص و ہوس خود غرضی مفاد پرستی بدخواہی کی ظلمتین کافور اور تاریکیاں مٹ جاتی ہیں ۔ مولانا سید غفران ندوی مرحوم کا شمار انہیں عالی صفات افراد میں تھا جن کے وجود سے انسانیت اور معاشرہ میں اعتبار و وقار پیدا ہوتا ہے ۔ مرحوم کی خاندانی نسبت بہت اونچی تھی ،حضرت صدیق دوراں رح کی ان نشو و نما اور تعلیم و تربیت بہت دخل تھا ان کی دعائیں اور توجہ خوب ملی تھی اس لئے بچپن سے ہی اپنے عالی مرتبہ خاندان کے دیگر افراد کے نقش قدم کے عین مطابق انہیں صفات سے متصف تھے جس پر ان کے فطری بھولے پن نے ان کی ذات میں اور کشش اور جاذبیت و سحر پیدا کردیا تھا ۔

کھلتا ہوا گندمی رنگ مائل بہ گدازی جسم،متوسط قد بھرے بھرے پروقار چہرہ پر نورانی سیاہ داڑھی نرم و شگفتہ اور روشن آنکھیں ۔کشادہ جبین متوسط و درمیانہ قسم کا لباس نرم مزاج خوشنما سراپا تہذیب و تمدن کے ڈھانچے اور سانچے میں دھلی پاکیزہ سیرت شریں انداز گفتگو شریعت کے پابند اساتذہ اور بڑوں کے مطیع و فرمانبردار دین و ملت کے خاموش خادم اور مصنف و مولف یہ تھے ہمارے عالم باعمل دوست دار العلوم ندوة العلماء لکھنئو کے استاد مولانا سید غفران ندوی مرحوم ۔

ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت جامعہ اسلامیہ عربیہ ھتورا باندہ میں حضرت قاری صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی نگرانی و سرپرستی میں ہوئ ۔ ثانوی اور عالیہ کے بعض درجات کی تعلیم ضیاء العلوم میدان پور تکیہ کلاں رائے بریلی میں ہوئی اور پھر ندوہ سے عالمیت اور فضیلت کا نصاب مکمل کرکے ندوہ میں تدریس سے منسلک ہوگئے ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے گریجویشن اور لکھنئو یونیورسٹی سے پوسٹ گریجویشن کیا اور اب وہ لکھنئو یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کر رہے تھے ۔ ندوہ کے سنجیدہ اور باوقار اساتذہ میں ان کا شمار ہوتا تھا ۔ تدریس کے ساتھ تحقیق و تصنیف کے کاموں میں بھی مصروف تھے ۔ لیکن بہت خاموشی کے ساتھ ۔ اصول الشاشی ۔ مشکوة المصبایح پر انہوں مراجعت اور تعلیق و حواشی کا کام کیا ہے جو شائع ہوچکی ہیں ۔ زبدة التفاسیر جو قدیم تفسیر کی کتاب ہے جو ایک گجراتی عالم دین شیخ الاسلام عبد الوہاب رح کی ہے اس پر حضرت مولانا عبد القادر صاحب ندوی مدظلہ العالی کی نگرانی میں کام کیا جس کی پہلی جلد چھپ کر آگئی ہے ۔ اپنے نانا جان حضرت قاری صاحب رح کی حیات و خدمات پر *صدیق دوراں* ان کی تصنیف ہے اور بھی کئی علمی و تحقیقی کام کررہے تھے ۔ اور بھی بہت سے منصوبے اور عزائم تھے ۔

چونکہ وہ مجھ سے کلاس کے اعتبار سے کافی جونیئر تھے میری اور ان کی عمر میں تقریبا ۱۲ سال کا فرق تھا اس لئے میرا ان سے طالب علمی کے زمانے میں کوئ رابطہ اور تعلق نہیں رہا جب میں ندوہ سے فارغ ہوکر تدریس سے منسلک ہوا تب وہ ندوہ میں داخل ہوئے ۔ فراغت کے بعد جب ندوہ مین استاد متعین ہوئے تو پھر ان سے تعارف ہوا اور ملاقاتیں رہیں ۔ ندوہ میں ان کے دوران طالب علمی میرے شاگردوں نے ان کے بارے میں بتایا تھا کہ یہ حضرت قاری صدیق صاحب رح کے نواسے ہیں اور عالمیت کے کسی سال میں زیر تعلیم ہیں ان کے والد انجنئر ہیں اور رائے بریلی میں رہتے ہیں یہاں ضیاء العلوم میدان پور تکیہ کلاں رائے بریلی سے پڑھ کر آئے ہیں ۔ اس وقت ان کو صرف دور دور سے دیکھا اور جانا ۔۔

ندوہ جب جانا ہوتا اگر ان سے ملاقات ہوتی تو بہت محبت خلوص اور خندہ پیشانی سے ملتے تعلق کا اظہار کرتے مولانا اسد اللہ صاحب ندوی اور مدرسہ کے احوال معلوم کرتے ۔ میری تحریروں کی تعریف کرتے اور استقامت پر حیرت کا اظہار کرتے ۔ میں نے اپنے معاصرین میں جن چند لوگوں کو صالحیت اور صلاحیت میں ممتاز اور اخلاق و کردار کے اعتبار سے نمایاں پایا ان میں موصوف نمایاں تھے ۔ زہد و صلاح کے ساتھ باغ و بہار طبیعت کے مالک تھے شگفتہ مزاج اور مرنجان مرنج طبیعت کے حامل تھے ۔ بڑوں کا جس قدر خیال کرتے تھے ان کے سامنے جتنا مودب رہتے تھے ۔ دوستوں اور ساتھیوں کے سامنے اتنا ہی بے تکلف اور کھلے و گھلے ملے رہتے تھے تہذیب کے دائرے میں خوب مزاح کرتے تھے۔ خالد باندوی ندوی سے سب سے زیادہ قریب تھے ہم وطن ہونے کی وجہ اور بھی مناسبت و قربت تھی خالد بھائ کے لئے یہ حادثہ تو اور زیادہ ناقابل برداشت ہے اللہ ان کو صبر و تسلی دے آمین ۔

میری ان سے رفاقت تو نہیں رہی اور نہ کبھی گہرے روابط و مراسم رہے اس لئے میں مرحوم کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں لکھ سکتا ہوں لیکن ان کے اہل خاندان رفقاء درس معاصرین اور دوست و احباب غم و الم کے ہلکا ہونے کے بعد ان کی زندگی اور سیرت و کردار پر لکھیں گے ۔

وہ بھی انسان تھے فرشتہ نہ تھے ۔ ان سے بھی غلطیوں اور کوتاہیوں کر صدور ہوا ہوگا لیکن ہمیں حکم ملا ہے کہ مرنے والوں کا بھلائی کے ذکر کرو ۔

۔ بس دعا ہے کہ اللہ تعالی مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلی جگہ نصیب فرمائے صدیقین شہداء اور صالحین کے ساتھ اٹھائے جائیں ۔آمین

 

آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے

سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہ بانی کرے

 

یہاں مین مولانا سید غفران ندوی مرحوم کے اہل خانہ تمام اہل تعلق رشتہ داروں اساتذہ اور ان کے طلبہ نیز ذمہ داران دار العلوم ندوة العلماء کی تسلی و تعزیت کے لئے اور ان کے صدمہ اور غم کو ہلکا کرنے کے لئے حضرات اکابر کی کچھ تعزیتی تحریریں اور اقتباسات ذیل میں پیش کرتا ہوں ۔

 

موت کو لوگوں نے ہوا بنا رکھا ہے ۔ یہ ہرگز کوئی عذاب نہیں یا بری حالت نہیں ۔ جو منزل پیغمبرون کے لئے ناگزیر رکھ دی گئی ہے وہ بری کیوں کر

ہوسکتی ہے یہ تو مادی آلائشوں سے آزاد ہونے اور روح کو اپنے جوہر لطیف کی طرف رجوع ہونے کا مبارک وقت ہوتا ہے ۔ہر مسلمان کے لئے سرتاسر برکت و رحمت طبعی طور پر جدائی کا رنج و قلق تو ہوتا ہی ہے اور ہونا بھی چاہیے ۔ باقی عقلی طور پر مسرت و ادائے شکر کا موقع،وہاں جس جس سے ملاقات ہورہی ہوگی اس خوشی کا اندازہ دنیا کی عام خوشبوؤں سے کوئ مقابلہ نہیں۔( مکتوبات ماجدی)

 

حکایت ہستی کے دو ہی اہم واقعات ہیں، پیدائش اور موت، موت و حیات کا یہ فلسفہ کائنات کے دیگر اسرار کی طرح اب تک صیغہ راز میں عقدئہ لا ینحل ہے۔۔۔۔

 

فلسفی سر حقیقت نہ توانست کشود

گشت راز دیگرآں راز کہ افشانی

 

اور کچھ لوگ متحیرانہ انداز میں یوں گویا ہوتے ہیں ۔۔۔

 

سنی حکایت ہستی تو درمیاں سے سنی

نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم

 

حالانکہ سچائ یہ ہے کہ انہی دونوں کے تصور پر عمرانیات اور معاشرہ کی بنیاد کھڑی ہے، موت کی حقیقت کچھ بھی ہو لیکن یہ زندوں اور مردوں کے درمیان ایک دیوار کھڑی کردیتی ہے، اسی وجہ سے موت پر غم و افسوس، رنج و تکلیف ایک فطری جذبہ ہے، اور یہ جذبہ قدرت نے ہر انسان کو روز اول سے ودیعت کردیا ہے، البتہ اہل ایمان کا اظہار غم کا طریقہ دیگر مذاہب و اقوام سے مختلف ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو کائنات اور اس کے ماوراء کے متعلق جو ہدایت دیتا ہے وہ خالص اسلامی اور فطری نظریہ اور تصور ہے ،وہ یہ ہے کہ موت زندگی کا خاتمہ نہیں بلکہ ایک نئی زندگی کا آغاز اور ایک دوسری حیات کی ابتداء ہے ۔ ( مقدمہ یاد رفتگاں ۔ از علامہ سید سلیمان ندوی رح )

 

اس دنیا میں جو آیا ہے ایک نہ ایک دن جانا ضرور ہے، موت برحق ہے اور اس عالم آب و گل سے جدائی یقینی ہے،موت ٹل نہیں سکتی،ملک الموت آہنی قلعوں میں بھی دبے پاوں پہنچ جاتا ہے ،جو یہاں سے جاچکے ہیں، ہم بھی ان کے پیچھے آرہے ہیں، جانا بہر حال ناگزیر ہے بس آگے پیچھے کی بات ہے ۔ شہرتین عزتیں ناموریان عہدے خطابات مال و دولت سب کے سب یہاں دنیا میں ہی رہ جاتے ہیں ان میں سے ایک چیز بھی ساتھ نہیں جاتی،کام آنے والی چیز صرف عمل صالح ہیں مرنے کے بعد کسی شخص کے قدم قدم پر مجسمے نصیب ہوجائیں پھر بھی شہرت اور ہرلعزیزی اسے بخشوا نہیں سکتی۔ غافل انسان جاہ و شہرت اور عیش و دولت کی پرچھائیوں کے پیچھے پیچھے بھاگا بھاگا پھرتا ہے اول تو ہہ پرچھائیاں ہاتھ ہی کم آتی ہیں اور ہاتھ آ بھی جائیں تو پرچھائیوں کا اعتبار کیا؟ادھر شام ہوئی اور پرچھائیاں یہ جا وہ جا ! یہ دنیا سچ مچ سرائے فانی ہے ۔ سچے موتی جن کے لئے یاقوت کی کھرل میں پیسے جاتے ہیں وہ زمین کے نیچے خاک پھانک رہے ہیں، جام جمشید کو بھی زمانہ نے توڑ ڈالا سکندر کا تخت بھی مٹی میں مل گیا گنج شائیگاں کے بھی انقلاب نے دھوئیں اڑا دئے ،موت نے طرف کلاہ کے کو ہی نہیں چین قبائے قیصر کو بھی مٹا دیا ۔۔ جب دنیا کی ہر حقیقت ۰۰ شعلئہ مستعجل ۰۰ ہو تو پھر آدمی کسی بات پر فخر اور اعتماد کرے ۔ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے کہ وہیں سدا رہنا ہے ،بدبخت اور احمق ہے وہ جس نے اس دنیا کے لئے اپنی آخرت برباد کردی ۔ ہر موت اہل بینش کے لئے درس عبرت ہے جنازے اور قبریں دیکھ کر اور موت کی خبریں پڑھ کر خود اپنی موت یاد آنی چاہیے کہ ہم پر بھی یہ عالم گزرنے والا ہے ۔ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ،کیا خبر کہ سانس اندر جاکر واپس آئے یا نہ آئے ۔ ہم نے بات کرتے اور ٹھوکر لگتے لوگوں کا دم نکلتے دیکھا ہے ،موت کا فرشتہ آواز دے کر نہیں اس لئے ہر وقت تیار رہنا چاہیے کہ نہ جانے کس وقت قاصد اجل آپہونچے۔( مقدمہ یاد رفتگاں ماہر القادری )

Comments are closed.