Baseerat Online News Portal

آپ کے شرعی مسائل

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد * جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

جریان کے مریض کے لیے غسل کا حکم
سوال:-مجھے شدید جریانِ منی ہے،کافی علاج کیا، لیکن نفع نہیں ہوا ، حالت نماز میں بھی منی خارج ہوجاتی ہے، ہمارے لئے کیا حکم ہے ؟ (ایک قاری)
جواب:- اگر بغیر کسی شہوت کے منی خارج ہو جاتی ہو ،تو یہ بیماری ہے ، اس سے غسل واجب نہیں ہوتا،البتہ وضو واجب ہوجاتا ہے، اگر جریان کا اس قدر غلبہ ہو کہ اس سے بچ کر نماز کی ادائیگی دشوار ہو ،تو نماز کا وقت شروع ہونے کے بعد وضو کرلیں،اور جب تک کوئی دوسرا ناقض وضو پیش نہ آئے، وقت ختم ہونے تک انزال کے باوجود نماز ادا کرتے رہیں۔ (ہدایہ: ۱؍۳۱)

سلام سے پہلے وضو ٹوٹ جائے ؟
سوال:- احناف کے بارے میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ اگر کسی شخص کا آخری قعدہ میں تشہد پڑھنے کے بعد وضو ٹوٹ جائے تو اس کی نماز درست ہوجاتی ہے ، یعنی اس کے لئے سلام کرنا ضروری نہیں ، کیا یہ بات صحیح ہے ؟ اور اگر ایساہے تو اس کی دلیل کیا ہے ؟ ( احسان اللہ ، دربھنگہ )
جواب:- احناف کے یہاں بھی یہ بات واجب ہے کہ سلام پر نماز ختم کی جائے ،(۲) یہاں تک کہ اگر کسی شخص کا سلام سے پہلے وضو ء جاتا رہے تو اسے چاہئے کہ وضو کرکے آکر بیٹھے اور درود و دعاء پڑھ کے سلام پھیر کر اپنی نماز مکمل کرے ؛ لیکن اگر کوئی شخص ایسا نہ کرے تو نقص اور کوتاہی کے ساتھ اس کی نماز اداہوجاتی ہے ، کیونکہ حضرت عبد اللہ بن عمرو صسے مروی ہے کہ رسول اللہ ا نے فرمایا : ’’ جب کوئی شخص اپنی نماز کے آخرمیں بیٹھے اور سلام سے پہلے اس کا وضوء ٹوٹ جائے تو اس کی نماز درست ہوگئی : إذا أحدث وقد جلس في آخر صلاۃ قبل أن یسلم فقد جازت صلاتہ (ترمذی، حدیث نمبر: ۴۰۸) نیز حضرت عبد اللہ بن مسعود ص سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے ان کو تشہد کی تعلیم دی اور فرمایا کہ جب تم نے یہ کرلیا یا یہ کہہ لیا تو تمہاری نماز مکمل ہوگئی : ’’ إذا قلت ھذا أو فعلت ھذا فقد تمت صلاتک (ابوداؤد، حدیث نمبر:۹۷۰) اس حدیث سے بھی معلوم ہوتاہے کہ اس صورت میں نماز ادا ہوجاتی ہے۔

طلاق بائن بذریعہ اشتہار
سوال:-مسمی سید صلاح الدین ولد سید ولی الدین نے اپنی زوجہ بی بی انیس فاطمہ بنت میر عنایت علی کو روبرو گواہاں طلاق بائن دیدی ، جو ایک ایڈوکیٹ کے ذریعہ اشتہار روز نامہ میں شائع کیا ، کیا ایسی صورت میں بی بی انیس فاطمہ کے لئے دو بارہ اپنے شوہر سے رجوع ہونے کے لئے حلالہ ضروری ہے یا تجدید نکاح ضروری ہے ؟ ( نامعلوم)
جواب:- مذکورہ صورت میں از سر نو نئے مہر کے ساتھ نکاح کرلینا کافی ہے ، (وإذا کان الطلاق بائنا دون الثلث فلہ أن یتزوجھا فی العدۃ و بعد انقضائھا ‘‘ (الھدایۃ : ۲/۳۹۹)) حلالہ کی ضرورت نہیں ، اگر طلاق مغلظہ ( تین طلاق ) دی ہوتی تب حلالہ ضروری ہوتا ۔

سود سے سود کی ادائیگی
سوال:- میں بینک سے قرض لینا چاہتا ہوں ، جس پر سود دینا پڑے گا ، میرا بینک میں سودی اکاونٹ ہے ، جس سے سود ملتا ہے ، اور میں بغیر اجر و ثواب کی نیت کے اسے صدقہ کردیتا ہوں ، اب قرض لینے کی صورت میں کیا میں ایسا کرسکتا ہوں کہ ملنے والے سود کو قرض کے سود میں ادا کردوں اور جو بچ جائے اسے صدقہ کردوں ۔ (رفاقت علی عمران ، مغل پورہ)

جواب:- کسی قانونی مجبوری کے بغیر سودی اکاونٹ میں رقم رکھنا جائز نہیں ، اس لیے اولاً تو اس اکاونٹ میں رقم رکھنے پر ہی آپ کو غور کرنا چاہئے ، دوسرے سود لینا مستقل گناہ ہے اور سود دینا مستقل گناہ ، اگر آپ نے قرض کے سود میں اس سود کو ادا کیا تو گویا آپ نے اس سود سے استفادہ کیا ، تو اب سود دینے اور سود لینے دونوں گناہ کو یہ صورت شامل ہے ، اس لئے یہ صورت درست نہیں ، نیز سود پر مبنی قرض بھی شدید مجبوری کے بغیر حاصل کرنا درست نہیں ، کیوںکہ آپ ا نے سود لینے والے پر لعنت فرمائی ہے اور سود دینے والے پر بھی: عن جابر قال : لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الرباء و مؤکلہ و کاتبہ وشاھدیہ و قال : ھم سواء ( صحیح البخاری ، حدیث نمبر : ۱۵۹۸)

جانور اور گوشت کی پیشگی قیمت ادا کرنا
سوال:- آج کل بہت سے دینی مدارس بڑے جانور کی قربانی کا نظم کرتے ہیں ، اس سے مدارس کو بھی نفع ہوتا ہے ، اورلوگوں کو بھی سہولت ہوتی ہے ، خاص کر بڑے شہروں میں یہ بات ممکن نہیں ہوتی کہ لوگ اپنے گھروں میں قربانی کرلیا کریں ، قربانی کے اجتماعی نظم کی وجہ سے آسانی سے قربانی ہوجاتی ہے ، اس میں عام طور پر مدارس دو ڈھائی ماہ پہلے جانور کی مقرر قیمت ادا کردیتے ہیں ، اس سے انہیں وقت پر کم قیمت میں جانور مل جاتا ہے ۔
اسی طرح بعض مدارس قصاب کوپہلے ہی کچھ رقم دے دیتے ہیں ، اور قصاب انہیں روزانہ گوشت سپلائی کرتا ہے ، اس میں قصاب کو بھی فائدہ ہوتا ہے کہ اسے قبل ازوقت اور یک مشت پیسہ مل جاتا ہے اور وہ بازار سے سستے داموں میں جانور خرید کرلیتا ہے ، اور مدرسہ والوں کو یہ سہولت ہوتی ہے کہ نسبتاً کم قیمت میں انہیں گوشت مہیا ہوجاتا ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ شرعاً جانور یا گوشت میں بیع سلم نہیں ہوسکتی ، ایسی صورت میں ان مسائل کا کیا حل ہوگا ؟ کیا شریعت میں اس کی بالکل گنجائش نہیں؟ (سید جمیل الدین ، ممبئی)
جواب:- بیع سلم کی حقیقت یہ ہے کہ قیمت نقد ادا کردی جائے ، اور جو چیز بیچی جارہی ہے وہ ادھار ہو ، اس کے درست ہونے کے لئے بنیادی طور پر یہ بات ضروری ہے کہ معاملہ اتنا واضح ہو کہ آئندہ فریقین کے درمیان نزاع پیداہونے کا اندیشہ نہ رہے ، اسی بنیاد پر امام ابوحنیفہؒ نے جانور اور گوشت میں ایسی خرید و فروخت کو منع کیا ہے ، جس میں قیمت پہلے ادا کردی گئی ہو اور یہ چیزیں ادھار ہوں ، کیوںکہ یہ دونوں چیزیں ایسی ہیں کہ کسی قدر بھی ان کے اوصاف بیان کردئے جائیں پھر بھی ابہام باقی رہتا ہے ، جانور ہی کو دیکھیں ، ایک ہی نوعیت کے تمام جانوروں میں خاصا فرق ہوتا ہے ، کوئی سست ہوتاہے کوئی تیز ، کوئی دیکھنے میں زیادہ بھلا لگتا ہے ، کوئی خوبصورت نہیں ہوتا ، گوشت کی مقدار میں بھی فرق ہوتا ہے ، اس لئے اس کا امکان رہتا ہے کہ جب بیچنے والا جانور حوالہ کرے تو خریدار کی توقعات پوری نہ ہو ں اور نزاع پیدا ہو، امام ابوحنیفہؒ نے اسی لئے اس کو منع کیا ہے ، البتہ امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمدؒ اس کی اجازت دیتے ہیں ، اگر ممکن حدتک ابہام کو دور کرکے معاملہ طے پائے : لا في حیوانٍ مّا خلافاً للشافعی ومعہ مالک وأحمد (درمختار:۷؍۴۵۸) گوشت میں اگر نوعیت واضح کردی جائے، یعنی یہ بات بتادی جائے کہ کس جانور کا گوشت فروخت کیا جارہا ہے ؟ تو ابہام کم رہ جاتا ہے ؛ لیکن پھر بھی یہ حقیقت ہے کہ ایک ہی نوع کے جانور کے گوشت میں بھی فرق ہوتا ہے ، بوڑھے اور کم سن کے درمیان ، نر و مادہ کے درمیان ، فربہ اور دبلے جانور کے درمیان ، لذت اور پکنے میں سہولت کے اعتبار سے جو تفاوت ہوتا ہے ،وہ ظاہر ہے ، چوںکہ امام ابوحنیفہؒ خود بھی تاجر تھے ، اس لئے تجارت کے مسائل کو انہوں نے نہایت دقیق نظر سے دیکھا ہے ؛ چنانچہ وہ گوشت کی بھی اس طرح کی ادھار خرید و فروخت کو منع کرتے ہیں ، چاہے ’’ گوشت بلاہڈی ‘‘ ہی کا معاملہ کیوں نہ ہو : ولحم ولو منزوع عظم (درمختار:۷؍۴۵۹) ، البتہ امام مالکؒ ، امام شافعیؒ،امام احمدؒ اور خود احناف میں امام ابویوسفؒ ومحمدؒاس کو جائز قرار دیتے ہیں ، کیوںکہ اتنے معمولی درجہ کے ابہام سے بچنا عام طورسے ممکن نہیں ہوتا ، اور اس کی وجہ سے آپس میں نزاع پیدا نہیں ہوتی ، جہاں تک ان مسائل کے حل کی بات ہے ، تو دوسری صورت میں تو دشواری نہیں ، کیوںکہ اس میں فتوی ائمہ ثلاثہ (مالکؒ ، شافعیؒ ، احمدؒ) اور صاحبین (ابویوسفؒ ، محمدؒ ) ہی کی رائے پر ہے : وجوزاہ إذا بین وصفہ و موضعہ ؛ لأنہ موزون معلوم ، وبہ قالت الأئمۃ الثلاثۃ وعلیہ الفتوی (درمختار:۷؍۴۵۹) پہلی صورت یعنی جانوروں کی خرید وفروخت کے سلسلے میں بھی جمہور کی رائے جواز کی ہے ، اگر قصاب حضرات کے یہاں اس کا رواج زیادہ ہو تو اس نقطۂ نظر پر عمل کرنے کی گنجائش ہے؛ لیکن بہتر صورت یہ ہے کہ ایسی صورت میں قصاب کو رقم بطور قرض کے دی جائے ، اور جس وقت جانور خریدیں ، اس وقت قرض کو اس کی قیمت میں منہا کردیں ، اس طرح جو رقم پہلے دی گئی ہے وہ بطور قرض کے ہوگی نہ کہ قیمت کے ، اور جس وقت جانور لیا گیا ، اس وقت نقد خرید وفروخت متصور ہوگی ، اور اس کے جائز ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ۔

ماں کو تحفہ دے کر واپس لے لینا
سوال:- ایک ماں کو اس کے بیٹے نے پندرہ بیس سال پہلے سونے کے کڑے تحفہ میں دیئے تھے ، اب اس نے ماں سے زبردستی اسے واپس لے لیا ، وہ اپنے بوڑھے ماں باپ کو خرچ بھی نہیں دیتا ، اس کا یہ عمل شرعی اعتبار سے کیسا ہے؟(محمد اسماعیل شاہین ، حشمت پیٹھ)
جواب:- شریعت میں ماں باپ کا درجہ بہت ہی بلند ہے ، اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کاحکم دیتے ہوئے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کی ہے ، یہاں تک کہ ان کو اف بھی کہنے سے منع کیا گیا ہے ، (بنی اسرائیل:۲۳) اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے بڑا حق والدین ہی کا ہے ، اسی طرح رسول اللہ ا نے بڑے گناہوں کا ذکر کرتے ہوئے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کا تذکرہ فرمایا اور اس کے بعد والدین کی نافرمانی کا (بخاری ، باب عقوق الوالدین من الکبائر ، حدیث نمبر : ۵۹۷۶) —- اس سے واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے بعد سب سے بڑا گناہ اور عند اللہ قابلِ مؤاخذہ عمل والدین کی نافرمانی اور ان کے ساتھ بد سلوکی ہے ؛ اس لئے ماں باپ کے اخراجات کی ذمہ داری نہیں اٹھانا اور ان کو دیا ہوا زیور ان سے واپس لے لینا سخت گناہ اور نہایت بدترین عمل ہے ۔
اس کے علاوہ جب والدین یا محرم رشتہ دار کو کوئی چیز دے دی جائے تو پھر وہ چیز اس سے واپس نہیں لی جاسکتی : وبعد التسلیم لیس لہ حق الرجوع في ذي الرحم المحرم إلخ (تکملہ رد المحتار : ۱۲/۶۱۶)؛اس لئے بیٹے نے جو زیور ماں سے واپس لیا ہے ، یہ اس کے حق میں مالِ حرام ہے اوراس بدنصیب کو آخرت میں ماں کے ساتھ بد سلوکی کا بھی گناہ ہوگا، اور ناجائز طریقہ پر مال غصب کرنے کا بھی ، اسے چاہئے کہ اپنے والدین سے معافی مانگے ، انہیں راضی کرے اورماں کو اس کی چیز واپس کرے ، نیز اللہ تعالیٰ سے بھی استغفار کرے ۔

کار خیر کی نیت
سوال:- ایک شخص اپنی زندگی میں کسی ’’ کار خیر ‘‘ کے کرنے کی نیت کرتا ہے، اور اس کی نیت کرنے کے وقت دو مرد آدمی گواہ کے طور پر موجود ہوتے ہیں ، پھر وہ شخص اپنی اس نیت کو تکمیل پہونچائے بغیر انتقال کرجاتا ہے ، اس صورت میں کیا اس شخص کے ورثہ کے لئے لازم ہے کہ وہ اس کی ’’ کار خیر ‘‘ والی نیت کی تکمیل کریں ، جبکہ اس کی چھوڑ جانے والی تمام رقم اس میں صرف کرنا پڑے ؟ یا وصیت لازمہ کے تحت صرف ایک تہائی رقم میت کی طرف سے کار خیر میں لگائیں اور باقی رقم آپس میں شرعی طور پر تقسیم کرلیں ؟ (احمد مختار بیگ ، بی بی بازار)
جواب:- اگر کوئی شخص کسی ’’ کار خیر ‘‘ کا صرف ارادہ کرے ، یا اس ارادہ کا اپنی زبان سے اظہار کرے کہ میں ایسا کرنا چاہتاہوں تو انشاء اللہ باعث اجر و ثواب ہے ؛ لیکن یہ وقف یا وصیت نہیں ، ہاں ورثہ کے لئے اس کے اس ارادۂ خیر کو پا یۂ تکمیل تک پہو نچا نا خود ان کے لئے باعث اجر وثواب ہے ؛ البتہ اگر کوئی شخص اپنی جائیداد کا کچھ حصہ متعین کرکے کہہ دے کہ میں نے اس کو فلاں کام کے لئے وقف کردیا تو اب یہ وقف ہوجائے گا ، اور اس کا شمار ترکہ میں نہیں ہوگا، اوراگر انہوں نے واضح طور پر وصیت کی ہو کہ میرے ترکہ میں سے فلاں چیز یا اتنی چیز فلاں کار خیر میں خرچ کی جائے تو یہ وصیت ہوگی ، اگر یہ وصیت ترکہ کا ایک تہائی یا اس سے کم ہو تو ورثہ پر اسے پورا کرنا لازم ہے ،اور اگر اس سے زیاد ہ ہو تو اگر ورثہ پوری وصیت کو نافذ کرنے پر رضامند ہوں تو بہت بہتر ہے اور ورثہ بھی اس کے اجر میں شامل ہوںگے، اور اگر ورثہ ایک تہائی سے زیادہ پر رضا مند نہ ہوں تو ایک تہائی میں وصیت نافذ ہوگی اور ورثہ پر اسے پورا کرنا لازم ہوگا ، ایک تہائی سے زیادہ حصہ کی وصیت کو پورا کرنا ان پر ضروری نہیں ہوگا ۔

بد زبانی کا جواب
سوال:- میرا ایک دوست بڑا بد زبان ہے ، وہ بار بار مجھے کمینہ کہتا رہتا ہے ، کیا میں بھی اس کو پلٹاکر جواب دے سکتا ہوں ، وہ گالی بھی بہت بکتا ہے ، دوستوں کو ماں بہن کی گالی دیتا رہتا ہے ، آخر ایسے شخص کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہئے ؟ ( محمد عمران ، بابانگر )
جواب :- اولاً تو ایسے لوگوں سے صحبت ہی نہیں رکھنی چاہئے جو بد نام اور دشنام طراز ہوں ؛ کیوںکہ ان کے ساتھ رہنا اپنی آبرو کھونا ہے اور اگر انہی کے الفاظ میں ان کو جواب دیا جائے تو اپنی زبان خراب کرنا ہے ، دوسرے اگر کسی ضرورت کی وجہ سے اس کے ساتھ رہنا ہی پڑے تو سب لوگ اس کو سمجھائیں اور اس کی اصلاح کرنے کی کوشش کریں ، دوستی کا ایک حق امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی ہے ، اگر آپ نے اپنے دوست کو گناہ سے بچانے کی کوشش نہیں کی تو یہ بڑی ناانصافی اور حق تلفی کی بات ہوگی ۔
جہاں تک پلٹاکر اسی کی کہی ہوئی بات دوہرانے کا مسئلہ ہے تو اگر اس کی دشنام طرازی ایسی ہو جس کی وجہ سے شرعا تہمت کی سزا ( حد قذف ) واجب ہوجاتی ہے ، جیسے ماں بہن کی گالی ، تو جوابا اس کو دہرانا جائز نہیں ، وہ تو گالی بول کر گناہ گار ہوچکا ، اگر آپ نے جواب دیا تو آپ بھی گنہگار قرار پائیں گے اور اگر اس طرح کی بات نہ ہو جیسے کمینہ ، بے ہودہ ، بد تمیز اور بد معاش وغیرہ جیسے الفاظ کہے تو اسے پلٹاکر کہہ سکتے ہیں لیکن اپنی زبان خراب کرنے سے ، خاموشی اختیار کرنا بہتر ہے ؛ کیوںکہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی یہی صفت بیان کی ہے :وَإِذَا خَاطَبَہُمُ الْجَاہِلُوْنَ قَالُوْا سَلاَماً (فرقان: ۶۳)علامہ حصکفیؒ فرماتے ہیں : قیل لہ ، یا خبیث و نحوہ ، جاز لہ الرد فی کل شتیمۃ لاتوجب الحد ، و ترکہ أفضل (درمختار مع الرد:۹؍۶۰۸)
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.