کیا ہم بھی موت کے لئے تیار ہیں؟

اظہار الحق قاسمی بستوی
استاذ مدرسہ عربیہ قرآنیہ اٹاوہ
ان دنوں موت کے چندایسے واقعات پیش آئے ہیں جنھوں نے قلب و ضمیرکو جنجھوڑ کر اوروجودوسراپاکو حیران وپریشان کرکے رکھ دیا اور خود کو بھی ہر طرف سے موت کی آہٹ سنائی دینے لگی۔
ان میں سب سے پہلے مرکزالمعارف کے جواں سال عالم دین مولانارضوان احمد قاسمی کی رحلت تھی۔4،5اور 6/اکتوبر کو مرکزالمعارف کی سلور جوبلی کے موقع پر مولاناسےتفصیلی ملاقات رہی۔ موصوف نہایت بے تکلف اور خیرخواہ شخصیت کے حامل تھے ،عمرچالیس سال کے لگ بھگ رہی ہوگی۔پروگرام کی آخری نشست جوکہ کانسٹی ٹیوشن کلب میں تھی ،کے بعد بھی موصوف سے ملاقات ہوئی تو ناچیز نے ازراہ مذاق کہاکہ : مولانا!آپ تو بڑے آدمی ہوگئے ہیں ، ارے کچھ ہم ،ہم وطنوں کا بھی خیال رکھیں ،کیوں کہ ان کا آبائی وطن بستی یوپی تھا۔ انھوں نے کہا پہلے تم بتاؤ کہ تم کیا کررہے ہو ؟ میں نے کہا کہ پہلے آپ بتائیے کہ آپ کے گاؤں کا نام کیا ہےتب میں بتاؤں گا کہ میں کیا کررہا ہوں؟ موصوف سے یہی بات ہوتے ہوتے ہم لوگ ڈائننگ ہال پہونچ گئے ۔ انھوں نے کہا کہ کھانا لے کر میرے پاس آکر بیٹھو ؛لیکن وہ پہلے کھانا لے کر کچھ بڑے لوگوں کے ساتھ بیٹھ گئے اور ہم کھانالے کر دوسری طرف بیٹھ گئے۔ یہ مولانارضوان صاحب سے آخری ملاقات تھی اور اس کے بعد ان سے کوئی اور بات نہ ہوسکی۔اور اس سے صرف نودن کے بعد 15/اکتوبر کی صبح یہ جانکاہ خبر ملی کی موصوف اختلاج قلب کی وجہ وفات پاگئے۔اس خبرنے پھر ایک بار اس زندگی کی بے حیثیتی اوربے وقعتی کو ثابت کردیا اور دل نے قرآن کی آیت ‘وماالحیوۃالدنیاالامتاع الغرور’ یاد دلا دیا۔دوسرا واقعہ جواں سال عالم دین مولانا غزالی ندوی ، (جوکہ علی گڑھ کے کسی ادارے کے استاذ تھے )کا سامنے آیا جنھوں نے تقریبا اسی عمر میں اس دارفانی کو چھوڑ دیا۔
تیسراواقعہ استاذ محترم حضرت مولانا قاری ضیاء الدین صاحب، استاد مدرسہ عربیہ ریاض العلوم گورینی کا پیش آیا جس نے موت کا منظرگزشتہ سنیچر بتاریخ 16/ نومبر سے اب تک سامنے کررکھا ہے۔ حضرت الاستاذ کی عمر پچاس سال تھی لیکن بظاہر ان کی وفات کے عوارض نہ کے برابر تھے لیکن موت کے قاضی کا بلاوا آگیا تو قاری صاحب بھی کوچ کرگئے۔قاری صاحب سے بھی ہماری تفصیلی ملاقات ماہ ستمبر کے اواخر میں بڑی تفصیل سے رہی جس میں احقر حضرت الاستاذ کی عیادت کے لیے گورینی حاضر ہوا تھاجب ان کامدرسے کے سامنے ایک ایکسیڈنٹ ہوا تھااور پھر وہ شفایاب ہوکر مدرسے جانے لگے تھے لیکن صرف پندرہ دن مدرسے گئے اور طبیعت یوں بگڑی کہ پھر نہ سنبھلی۔
چوتھا واقعہ ابھی چندروز پہلےیعنی 24/نومبر کا ہے جس نے سب کو دہلا دیااور وہ ہے مولانا غفران ندوی،استاد دارالعلوم ندوۃ العلماء کی بے وقت رحلت۔مولاناابھی صرف 32/سال کے تھے۔صالحیت وصلاحیت دونوں سے آراستہ تھے۔ موصوف سے ہماری ملاقات ابھی ماہ محرم الحرام میں ہمارے شہر اٹاوہ میں منعقد ایک جلسے میں ہوئی جس کی نظامت اتفاق سے اس راقم کے حصے میں آئی ۔ مولاناموصوف نے عظمت صحابہ اور معیاریت صحابہ پر مختصر لیکن عمدہ ترین گفتگو کی اوراخیر میں یہ کہتے ہوئے رخصت ہوئے کہ ان شاء اللہ آئندہ موقع رہا تو تفصیل سے بات کریں گے۔ لیکن افسوس کہ مولانا اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ اور ابھی کل کا ایک تازہ واقعہ ہے جس میں مولانااظہارالحق حلیمی کھگڑیاوی اس دنیا سے کوچ کرگئے۔ موصوف کی گورینی سے فراغت 2004 کی تھی جب ہم وہاں عربی سوم کے طالب علم تھے لیکن آہ موت نے انھیں بھی اپنے چنگل میں دبوچ لیا۔اللہ ان تمام مرحومین کی مغفرت فرمائے اور ناگہانی اموات سے ہماری حفاظت فرمائے۔
واقعات کا کہاں تک تذکرہ کروں ، اب جب کہ لکھ رہاہوں تو ذہن میں ناگہانی اموات کا ایک ہجوم ہےلیکن یہ ایک سچائی اور مسلمہ سچائی ہے کہ ہم سب کو آج نہیں تو کل جانا ہے اور موت کا ذائقہ چکھناہے لیکن ایسی بے وقت موتیں بہت کچھ کہہ رہی ہیں۔ اے کاش کہ ہم سن پاتے۔
جب بھی کوئی موت ہوتی ہے یہ اندیشہ دل کے نہاں خانوں میں محسوس ہوتاہے کہ کہیں اگلا نمبر ہمارا تو نہیں!خیر کس کا نمبر کب آجائے کچھ بھروسہ نہیں؛ اس لیے ہم سب کو خود سے یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ کیامیں موت کے لیے تیا رہوں؟ کیامیرے ذمے اللہ اور اس کے بندوں کے کوئی حقوق تو نہیں؟کیامیں نے قرآن کے حقوق اداکیے ہیں؟ کیا میں اپنامنھ اللہ کے رسول ﷺ کو دکھا نے کے لائق ہوں؟ کیا میری گردن دوسروں کے حق میں کیے گئےگناہوں کے بوجھ سے بھاری تو نہیں؟ کیا میں کل قبر میں ہونے والے سوال و جواب کے لیے تیار ہوں؟کیا اگرمیں حافظ قرآن ہوں تو مجھے میرا قرآن یا دہے؟ کیا اگرمیں عالم دین ہوں تو میں نے دین کی خدمت کی ہے اور اس میں اخلاص کاپہلوہی رکھا ہے؟کیا میں نے اپنی بیوی اور بچوں کا ذہن بنا رکھا ہے کہ موت ایک اٹل سچائی ہے جس کے آجانے پر وہ بہت پریشان نہ ہوں ؛بل کہ صبر کریں اور اللہ سے مدد کی آس لگا کے رکھیں؟ کیا میں نے اپنے داعی اور رسول اللہ ﷺ کا امتی ہونے کا حق ادا کیا ہے؟ کیا ہماری راتیں یاد الہی سے سرشار اور ہمارے دن تذکرہ الہی سے آباد ہیں؟کہیں میں گناہوں کے دلدل میں تو نہیں پھنس گیا ہوں ؟ کہیں موبائل نے میری ایمانی صفات تو نہیں چھین لی ہیں؟
کیا ہم قرآن کی اس صدا کو سن رہے ہیں: ولاتموتن الا وانتم مسلمون۔ کہ ہرگزنہ مرنا مگرجب کہ تم مسلمان ہو، تمہاری زندگی اسلام سے عبارت ہو۔کیا ہمیں رسول اللہ ﷺ کے ان ارشادات کا استحضار ہےجن میں موت کو کثرت سے یاد کرنے کا اور مرنے سے پہلے اس کی تیاری کا حکم دیا گیا؟ایک حدیث میں آپ ﷺ نے یہاں تک فرمایا کہ: توبہ کرلو قبل اس کے کہ تمہیں موت آجائے اور نیک کاموں میں سبقت کرو۔وغیرہ۔ کیا ہم تیا رہیں ؟ کیا واقعتا تیارہیں؟ اگرہاں تو اچھا ہے اور بہت اچھا ہے اور اگرنہیں تو سوچیں کہ اگر ہمارا بھی بلاواآجائے تو ہم کیا کریں گے اور کیا مذکورہ سوالوں کے ہمارے پاس درست جوابات ہیں؟
اس لیے ہمیں چاہیے کہ دنیا اور اس کی رنگینیوں سے کبھی کبھار پرے ہٹ کر اپنے رب کو تنہائی میں یاد کرکے معافی مانگیں اور مانگتے رہیں اور توبہ کرتے رہیں اور جملہ حقوق سے اپنی گردنوں کوہلکا رکھیں، چناں چہ سب کے حقوق واجبہ اداکرکے رکھیں ، اپنی زندگیوں کو بدلنے کی فکر کریں۔
یقین مانیے جب بھی کسی قبرستان میں کسی جنازے کے ساتھ جاناہوتاہے تو گھر اور قبرستان دونوں کا موازنہ کرتاہوں تو محسوس ہوتاہے کہ لوگ موت کے چند گھنٹے کے بعد مردہ (جو کہ بہت عزیز شوہر، بہت عظیم باپ اور نہایت پیاری ماں ہوتی ہے )کو تنہائی کے گھر میں اکیلے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، جس سے صرف چندگھنٹے قبل وہ اپنے بچوں میں، اچھے مکان میں، اچھی سہولیات میں اور اپنوں میں تھا لیکن اس کے بعد صرف اور صرف کچی مٹی نصیب میں آئی ، کچھ اور نہیں ، کچھ بھی نہیں اور مردہ کو وہاں سے اگلا سفر اکیلے طے کرنا پڑتاہے۔آہ کس قدر تنہائی رہتی ہوگی قبر میں ! (اللہ ہماری قبروں کو نورسے بھر دے اور اس کی وحشتناکیوں سے ہماری حفاظت فرمائے۔آمین)
Comments are closed.