……. تا حشر ہمارا پیچھا نہ چھوڑے گی.!

 

توقیر بدر آزاد

 

واضح رہے کہ ابھی این آر سی نہیں آیا ہے،البتہ یہ بھی انکے عزایم کا حصہ ضرور ہے اور جلد یا بدیر وہ اسے بھی اپنی اکثریت کے زعم اور اپوزیشن کے موم ہونے کی بناء پر لے ہی آییں گے!

 

اس کو لانے کا مقصد بظاہر ملکی عوام کا ڈیٹا سنبھال کر رکھنا کہا جاتا رہا ہے،قابل غور بات یہ بھی ہے کہ انکے سَُر میں سُر ملا کر اپنے کہلانے والے بہتوں نے بھی اسکی تایید کی، جبکہ اسکے لیے NPR ہی کافی ہے!

جبکہ اسکا دوسرا مقصد بارہا ایک قوم کو نشانہ بنا کر جنکو "گھس پیٹھیا” کہا جاتا رہا ہے،اسے نکالنا ہے.

 

ظاہر ہے اب CAB دونوں ایوانوں سے پاس ہو چکا ہے. اس میں کویی دو رایے نہیں کہ این آر سی آنے اور اس کے پاس ہو جانے اور قانون بن جانے پر امت مسلمہ کے افراد ہی اسکا نشانہ بنیں گے،خواہ وہ عدم دستاویزات کی صورت میں ہو یا کاغذات میں خامی کی بنیاد پر یہ سلسلہ برپا ہو!

اس کے لیے سبھی دیش واسیوں کو تیار رہنا ہوگا!

 

کم از کم چھ لاکھ سے زائد آسامی مسلمان تو اسکی زد پر ہیں ہی،جنکا نام این آر سی فہرست میں نہیں آپایا ہے.بھلے ابھی فارن ٹربیونل کی بھاگ دوڑ جاری ہے!

 

اب یہاں ٹھہر کر سوچیے کہ آخر اس گرتی پھسلتی معیشت اور بے روزگاری سے جھوجھتے ملک میں اتنی تگ و دو کیوں؟ترقیاتی ایشوز پر بل و قانون کے بجاے ایں آں چہ معنی دارد؟

اس پر سبھی پڑھے لکھے اپنی اپنی سطح سے غور و فکر کرکے اپنی الگ الگ قابل قبول آراء دے رہے ہیں!

 

تاہم راقم تاریخ سیاست کے حوالے سے یہاں یہ اضافہ کرنا چاہتا ہے اور تاریخ سیاست کا وہ باب سامنے رکھنا چاہتا ہے جس میں ہمیشہ ایک کردار ان حکمرانوں کا سامنے آیا ہے،جنکی اپنی ایک خاص شبیہ،ایک خاص سبھیتا اور ایک خاص ثقافت رہی ہے، وہی انکا اپنا اصول و اپنا مریادا کہلاتا رہا ہے.

عوام و رعیت پر جن کے نفاذ کے لیے انہوں نے ہر طرح کے داؤ پیچ بھی اپنایے،جنکی سٹیک ترجمانی کرنے اور جغرافیائی حدود بتانے کے لیے عربی کا محاورہ "الناس علی دین ملوکھم” وجود میں آیا.

 

بہر حال یہ ایک مستقل باب ہے،اس کے نتایج کو لکھنے والوں نے”clash of civilization”اور تہذیبوں کا تصادم بھی لکھا اور کہا ہے.

 

اب إن تمہیدات کے بعد ذرا یاد کیجیے ان گزشتہ دنوں کو جب اخبارات میں گھر واپسی جیسے منصوبے سامنے آیے اور ایک خاص مذہب والوں کو سامنے رکھ کر گڑھے ہویے اصطلاحات و اچھالے گیے واقعات سے دنیا رو برو ہوئ!

 

فقط یاد ہی نہیں بلکہ تنہائی میں دماغ پر زور ڈال کر خدا کو حاضر ناظر جانکر سوچیے اور جواب تلاش کیجیے کہ آنے والا این آر سی کیا کچھ لیکر آییگا؟

 

اسلام کے نام لیوا دبے کچلے دین و شریعت اور تعلیم و تربیت سے دور ایک کلمہ گو کا اس صورت میں کیا رویہ ہوگا؟

 

کیا وہ اپنے وجود اور اپنے مستقر کو بچانے کے لیے آسانی سے خود کو مسلمان کہنے کے بجائے CAB میں ذکر کردہ شامل مذاہب میں شمولیت کو عافیت کا سامان نہیں سمجھے گا؟ارتداد و گھر واپسی کا سلسلہ از خود شروع نہیں ہوگا؟جنکے گھر مکان کاغذات سمیت سیلاب و آگ لگی کی نذر ہوتے رہے ہیں،انکے لیے یہ مرحلہ دشوار ہوگا یا آسان؟اور جنکے دستاویزات صحیح سالم ہیں کیا انکی درستگی و عدم درستگی کا گھن چکر پھر سے شروع نہیں ہوگا؟ہر پریوار کا مکھیا اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے کوشاں ہوگا یا کاغذات کی درستگی کے لیے یہاں وہاں دھکے کھاتا نظر آییگا؟

 

ایک بار پھر کہونگا سوچیے اور ضرور سوچیے!

 

رات سے اب تک تقریباً دو درجن سے زائد احباب یہ پوچھ چکے ہیں کہ CAB کے بعد اب ہمیں کیا کرنا ہوگا؟

 

ظاہر سی بات ہے ملک عزیز میں ابھی بھی کسی نا کسی مرحلے میں جمہوریت باقی ہے.دستور کی محافظ بلکہ بنیادی حقوق کی شارح عدالت عظمی موجود ہے. ہمارے ساتھ ابھی تک ایک سے ایک ہر مذہب کے قابل دانشور CAB کے خلاف ہم آواز ہوتے رہے ہیں، لہذا اول مرحلے پر تو عدالت سے رجوع ہونا ہی ہے.

ساتھ ساتھ حفظ ماتقدم کے طور پر ذہن اور من اس تحریک کا بنا کر رکھنا ہے،جسے شروع سے”سول نافرمانی تحریک” کی شکل میں اکثر پڑھے لکھے افراد پیش کرتے آئے ہیں.یہ اور بات ہے کہ اسے بھی سر کرنا بڑا مسئلہ ہوگا.

 

دعا یہی ہے کہ اسکی نوبت نہ آیے اور آیے تو سول نافرمانی تحریک ہی کامیاب ہو!

 

بہر حال این آر سی جب آیگا تو ظاہر ہے ملک کی معیشت اور رہی سہی ترقی سبھی چڑمڑا کر رہ جایگی!عوام ایک بار پھر سے لاین میں لگ جائیں گے اور دیش گروی رکھے جانے کے کگار پر جا لگے گا!

 

کرنے کے کام اور سطح:

 

قومی سطح: چناچہ قومی سطح پر دیش کو بچانے کے لیے برادران وطن کو ساتھ لیکر ایک آندولن کرنا ہونا اسکے لیے ہر ممکن تیاری کرنی ہوگی!

ایک ستیہ گرہ کی شروعات کرنی ہوگی!جس کے لیے ابھی سے سبھی سے رابطے اور واسطے رکھنے ہونگے کیونکہ یاد رکھیے ابھی بھی ساٹھ فیصد سے زیادہ عوام اگر آپ کے ساتھ نہیں تو حکومت کےساتھ بھی نہیں!یہ دھیان رہے! اس پر ملک کی گرتی معیشت الگ پریشان کن!

 

ملی سطح: جبکہ ملی سطح پر کرنا یہ ہوگا کہ سول نافرمانی کی تعمیل دستاویزات و کاغذات کی عدم پیشی سے کی جایے!

ہر ایک خواہ بڑا ہو یا چھوٹا،شیعہ ہو یا سنی،دیوبندی ہو یا بریلوی،مسٹر ہو یا ملا،عورت ہو یا مرد،بوڑھا ہو یا بچہ،کلرک یا لیڈر،سرکاری آفیسر ہو یا پروفیسر،اسٹوڈنٹ ہو یا ٹیچر، مزدور کا مالک غرض ہر ایک کلمہ گو یہ عزم کر لے کہ این آر سی کے نام پر امت مسلمہ کا ہر فرد اس سول نافرمانی civil disobedience میں ایک ساتھ ہے.وہ اکیلا نہیں بلکہ تیس کروڑ کا ایک جھرمٹ ہے. وہ کہانی اپنے بچوں اور خود کو سناتے رہیے جب چڑی مار نے جال بچھایا تو ایک دو چڑیا کے پھنسنے پر دیگر ساتھی چڑیا اس میں از خود ہوش و حواس میں پھنسی اور ایک ساتھ جال لیکر اڑ گییں، چڑی مار منھ دیکھتا رہ گیا!

الغرض ہر فرد کو اسی عزم کے ساتھ ایک آہنی دیوار بننا ہوگا!

اتنا ہی نہیں اس عزم سول نافرمانی کو مہمیز دینے کے لیے بارہا آپس میں بیٹھ کر اسکے نتایج و عواقب پر غور کرتے رہنا ہوگا.ریٹایرڈ ججز پروفسیران وکلاء دانشور اور سماجی کار کن کو ہر ممکن دیگر مراعات و سہولیات پانے یا انہیں برقرار رکھنے کے حوالے سے لایحہ عمل طے کرنے ہونگے.کیا اقدامات معقول و موثر ہونگے اسکی تیاری کرانی ہوگی، اسکی کی روزمرہ کوشش کی جایے،کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو یاد رہے پھر ارتداد کا منصوبہ لیے پھرنے والے ہماری الگ شناخت الگ پہچان اور الگ فرقے و فکر اور بینر والے ہونے کا بھرپور فایدہ اٹھائیں گے،وہ کچھ ٹوپی تو کچھ ٹائ والے کو ساتھ لیں گے،جوڑ توڑ کی جاے گی،جو نہ مانے گا اسے حسب سابق فایل وغیرہ دکھا کر ڈرانے دھمکانے کی کوشش ہوگی اور اس پر اپنے اپنے متبعین کو لبیک کہنے کے لیے مجبور کیا جائے گا،یہی نہیں اس سے پہلے پھر ڈیبیٹ کا ایک سلسلہ ہوگا اور بے تکی بیانات داغے جائیں گے.امت کنفیوژن کا شکار ہوگی اور پھر وہی ہوگا جو اب تک ہمارے انتشار کا فایدہ اٹھا کر کرنے والے کرتے آیے ہیں اور یوں قوم و ملت پھر یہاں بھی منقسم دکھای دینے لگے گی اور انکی راہ آسان ہوگی!

 

اس لیے اب ترجیحی طور پر مندرجہ ذیل اقدامات لازما کرنے ہونگے!

 

الف: اب ملک بھر میں ہر سطح پر ہماری ایک ہی پہچان اور تعارف ہونا چاہیے وہ ہے "کلمہ گو اور صاحب ایمان”بس!

اب ہم آپ اپنے اپنے بینر اور اپنے اپنے دفتر پر اصرار سے ہزار فیصد گریز کریں،کریڈٹ کے وایرس کو اب جتنا جلد ہوسکے،کچل دیں کیونکہ یہ جتنا جلد ہوگا اتنا بہتر ہے،آپسی پروگرام کے لیے فقط مساجد وہ بھی سبھی مسالک کے مساجد کا رخ کریں!

یاد رکھیے سیلاب اور طغیانی جیسے مہیب مظاہر پانی کے قطرے قطرے مل کر ہی بنتے ہیں اور اسی میں فرعون ڈبو دییے جاتے ہیں،مگر اس پانی کا کوی رنگ مزہ،بو نہیں ہوتا ہے وہ فقط "پانی” ہوتا ہے.

 

ب: اپنی کسی بھی اندرونی فروعی اختلاف کو اپنے ایمان پر فوقیت نہ دیں،ہر چھوٹا بڑے کی ہر بڑا چھوٹے کی عزت کرے اور اسکے ساتھ احترام کا معاملہ کرے،ہر مسلک دوسرے مسلک اور صاحب مسلک کا کلمہ گو ہونے کی بنا پر احترام کرے! واضح رہے کپڑے لاکھ قیمتی ہوں،اسے قابل استعمال بنانے کے لیے اس میں بٹوارہ آستین و دامن کے لحاظ سے ہوتا ہی ہے ساتھ ہی ساتھ اس میں معمولی بٹن سے ہی وقعت آتی ہے.اور بٹن کو عزت پانے کے لیے اس کپڑے کا سہارا لینا پڑتا ہے.

 

ج: میڈیا جیسا بھی ہاتھ آیے اس پر متعین نمایندہ ہی جایے،وہی جایے جس میں خدا ترسی اور جذبہ ایمانی اخوت کوٹ کوٹ کر بھرا ہو.دیگر جانے والے کا ہر ممکن ناطقہ بند کیا جایے،خواہ وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو!جو متعین کیا جائے وہ صاحب ایمان ہو اور ہر کلمہ گو کا ترجمان ہو،ہر ایک زبان و بیان پر قدرت تامہ مکمل رکھتا ہو،الغرض یہاں فقط جذبہ دروں اور قابلیت و جرأت کو ہی ترجیح دی جایے،موروثیت و اقربا پروری کو ہتھوڑا سے نہیں بلڈوزر سے کچل ڈالیے!کیونکہ جب کشتی بھنور میں ہو تو پھر ماہر ملاح اور کھیون ہار کا ہی انتخاب کیا جاتا ہے،وہاں موروثیت، اقربا پروری اور رنگ و نسل سراپا مہلک ہوا کرتے ہیں!یہی فارمولا سبھی عوامی پلیٹ فارم پر لاگو کریں!

 

اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جو بھی اپنے پیچھے قابل لحاظ اپنے متبعین اور مریدین کی تعداد رکھتے ہیں وہ اپنا اپنا دل اور دایرہ بڑا کریں!تعداد کو نمایش کا ذریعہ ہرگز نہ بنائیں!یعنی ہر ایک بڑا دوسرے بڑے کی اچھای ہی ہر عوامی و نجی پلیٹ فارم پر بیان کرے تاکہ انکے منتسبین میں ایک اچھا پیغام جایے اور اتحاد کی راہیں ہموار ہوں!ساتھ ہی ساتھ کویی بھی کسی بڑے سے سوال کرے تو اس پر پہلے غور کریں پھر اسے دوبارہ سنیں سمجھیں اور معقول جواب یا وقت دیکر اسے ایک بہتر رخ دیں! اس کے لیے ایک طرف جہاں سوال کرنے والے پورا احترام باقی رکھیں!وہیں دوسری طرف نقد و نظر کو ذمہ داران یا بڑے بزرگ اپنی برای یا پسپائی ہر گز نہ جانیں!آپ بڑے ہیں تو بڑای آپ کی سامنے آنی چاہیے!

 

یہ بھی واضح رہے کہ یہ سب ضدی مقابل کے لیے ہے، اس دارالاسباب میں حکمتا و تدبیرا ہمیں ان ضدی کے لیے یہ سب اپنانا ہی ہوگا،کیونکہ اسباب و نتیجہ اور علل ومعلول کو ہی سب کچھ علل و اسباب کے پجاری سمجھا کرتے ہیں،ورنہ شعوری طور پر اب کرنے کا کام یہ ہے کہ ملی سطح پر روز بڑے چھوٹے کی نماز و اخلاق نیز تجربے شییر کرنے کے لیے ملاقات،مسجد میں بعد نماز سیکھنے سکھانے کے لیے ملاقات،دروس قرآن کے حلقے،ملازمت کے لئے گایڈینگ، امتحانات کے لیے تیاری،خواتین میں دینی بیداری،حقوق اللہ و حقوق الناس پر مستقل چھوٹے چھوٹے لیکچزر وغیرہ کا اہتمام بإصرار کیا جائے،دعوت الی اللہ کی زیر زمین کوشش تیز ہو! عوامی دروس میں قرآن و حدیث کی متن و شرح پر اکتفا کیا جائے،مسائل کے لیے سبھی کو انکے اپنے اپنے قابل اعتماد مفتیان کرام سے رجوع ہونے کی دعوت دی جایے!دروس و لیکچرز کے لیے بینر القاب اور انتساب سے ہر ممکن گریز کیا جائے!جو جہاں کچھ ان حوالے سے کرسکتا ہو وہ بھوکے کے لیے روٹی اور پیاسے کے لیے پانی جان کر اسکا اہتمام کرنے پر بس جٹ جائے،”فلان چلاں سے مشورہ” اور ” بڑے و امیر کے آرڈر” کا انتظار قطعا نہ کرے،کیونکہ ایمرجینسی میں سپاہی جو بہتر سمجھتا ہے،وہ کر گزرتا ہے اپنے اعلی کمان کے آرڈر کا منتظر نہیں رہتا!

یاد رہے کہ ہم سب واقف کار نا واقف کے لیے ایک دینی سپاہی ہی ہیں.آقا مدنی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان "بلغوا عنی ولو آیة”اسی کا تو مشیر ہے.

 

امید ہے کہ اگر ان معروضات کو سماج و عوام میں راہ دی جائیں گی،تو حالات بہ سے بہتر ہونگے! بصورت دیگر نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم بکھرے رہیں گے،مقابل حریف متحد ہوتا چلا جائے گا اور پھر سبھی ناخواندہ غریب،دبے کچلے اور دین و شریعت سے دور طبقے و أفراد میں مقابل کا "ارتداد و گھر واپسی” والا خواب از خود پورا ہوتا چلا جایگا،جس کی لعنت و نحوست تا حشر ہمارا پیچھا نہ چھوڑیگی!العیاذ باللہ منہ!

 

+918789554895

Comments are closed.