شہریت ترمیمی قانون ملکی آئین اور مزاج کے خلاف

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
صدر جمہوریہ کے دستخط کے بعد شہریت ترمیمی بل قانون بن چکا ہے۔ یہ پہلا ایسا بل ہے جس کی ملک گیر سطح پر مخالفت ہو رہی ہے۔ شمال مشرقی ریاستوں میں تو اس کے خلاف عوامی تحریک نے سول نافرمانی کی شکل اختیار کر لی ہے۔ کرفیو کے باوجود لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔ کئی جگہ احتجاج پر تشدد ہو گیا ۔ اس میں کئی جانیں جا چکی ہیں اور کتنے ہی لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ بی جے پی نے اپنے سیاسی ایجنڈے کو پورا کرنے کیلئے پورے ملک کو آگ کی لپٹوں کے حوالے کر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ شہریت ترمیمی قانون میں ایسا کیا ہے جو عوام اس کی مخالفت میں سول نافرمانی پر اتر آئے؟
اس کے تحت افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے جبر کے شکار ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور عیسائیوں کو بغیر قانونی دستاویزات کے بھارت کی شہریت دی جائے گی۔ ان میں مسلمان شامل نہیں ہیں۔ شمال مشرقی ریاستوں کے لوگوں کو خاص طور پر آسام کے شہریوں کو یہ فکر ستا رہی ہے کہ اگر اس قانون کے تحت مذکورہ ممالک سے آنے والے ہندوؤں کو شہریت دی گئی تو ویاں کی آبادی کا تناسب بگڑ جائے گا، جس کا مقامی لوگوں کے روزگار، وسائل کی تقسیم، زبان اور ثقافت پر برا اثر پڑے گا۔ وہیں مسلمان اور ملک کے دیگر طبقات این آر سی کے اذیت ناک تجربہ کی وجہ سے فکر مند ہیں۔ آئین کو فراموش کر جس طرح یہ قانون لایا گیا ہے اس سے بھی شک و شبہات پیدا ہوئے ہیں۔
این آر سی کو سپریم کورٹ کی نگرانی میں آسام میں لوگ کیا گیا۔ ریاست کے تین کروڑ لوگوں کی شہریت طے کرنے میں 50 ہزار ملازمین کو 6 سال لگے۔ اور 1600 کروڑ روپے خرچ ہونے کے بعد اس سے کوئی بھی مطمئن نہیں ہے۔ ساری قواعد کے باوجود 19 لاکھ آسامی باشندوں کو غیر شہری قرار دے دیا گیا۔ اس میں کئی طرح کی خامیاں دیکھی گئیں۔ باپ کا نام قومی شہریت رجسٹر میں آگیا لیکن بچوں کا نام نہیں آیا۔ بچے کا نام آگیا تو والدین کا نام ندارد ہو گیا۔ جن کو شہری نہیں مانا گیا، ان میں ملک کی حفاظت کیلئے زندگی کے پچیس سال دینے والے، سابق صدر جمہوریہ کے خاندانی وارث، آسام اسمبلی کے سابق ممبر اور ان کے ورثہ وغیرہ بھی شامل ہیں۔ غیر شہری قرار دیئے جانے والوں میں 12 لاکھ ہندو اور 7 لاکھ مسلمان ہیں۔ آسامی عوام غیر آسامی باشندوں کے ہمیشہ خلاف اور انہیں تشدد کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ اترپردیش، بہار، بنگال اور ملک کے دوسرے مقامات سے جا کر جن لوگوں نے آسام میں سکونت اختیار کی ان کی حالت مقامی باشندوں سے بہتر ہے۔ اس لئے آسامی انہیں برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس تنازعہ کو 1985 میں اس وقت کے وزیراعظم راجیو گاندھی نے حل کرنے کے لئے سبھی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ سمجھوتہ کیا تھا۔ نئے شہریت ترمیمی قانون نے اس سمجھوتہ اور سپریم کورٹ کے این آر سی پر پانی پھیر دیا ہے۔
غیر مسلم تارکین وطن کو شہریت دینے کے لئے 1955 کے شہریت قانون میں ترمیم کی گئی ہے۔ اس شہریت ترمیمی بل کو 19 جولائی 2016 کو پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تھا۔ 12 اگست 2016 کو اسے جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی کو بھیجا گیا جس نے 7 جنوری 2019 کو اپنی رپورٹ پیش کی۔ اگلے ہی دن لوک سبھا میں یہ بل پاس ہو گیا تھا لیکن راجیہ سبھا میں پیش نہیں ہو پایا۔ اس نئے قانون میں مہاجرین کو شہریت کیلئے ملک میں رہنے کی مدت 11 سال سے گھٹا کر 6 سال کر دی گئی ہے۔ حکومت کھل کر نہیں کہہ رہی مگر پیغام یہی دیا جا رہا ہے کہ اگر آپ ہندو ہیں تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ وزیر داخلہ امت شاہ نے پارلیمنٹ میں کہا کہ افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش مسلم اکثریتی ممالک ہیں وہاں ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور عیسائی اقلیت میں ہیں۔ وہاں اقلیتیں مذہبی تشدد اور عدم رواداری کا شکار ہیں ان کی تعداد گھٹ رہی ہے۔ یہ لوگ پناہ کے لئے بھارت کی ہی طرف دیکھتے ہیں۔ ان کی مدد کرنا ہمارا فرض ہے، انہیں شہریت دینے کیلئے یہ بل لایا گیا ہے۔
دنیا کے ہر ملک میں اکثریت کم یا زیادہ اقلیت کو دباتی ہی ہے۔ مگر مذکورہ ممالک سے کبھی ایسی خبر نہیں آئی کہ کبھی کسی کو زبردستی مسلمان بنایا گیا یا کھلے میدان میں پوجا پاٹ پر پابندی لگائی گئی یا اقلیتوں کی کسی عبادت گاہ کو ڈھایا گیا ہو۔ ایسی بھی کوئی خبر نہیں آئی کہ راہ چلتے یا بس ٹرین میں سفر کرتے ہوئے کسی ہندو یا سکھ کو پکڑ کر ’اللہ اکبر‘ کا نعرہ لگوایا گیا ہو اور نہ لگانے پر مارپیٹ کی گئی ہو یا مذہبی شناخت کی بنیاد پر موب لنچنگ کی گئی ہو۔ اس کے برعکس بھارت میں دیگر مذاہب کے لوگوں کو ہندو بنانے کے لئے ’گھر واپسی‘ کا پروگرام چلایا جاتا ہے۔ ہریانہ میں کھلے میدان اور مسجد کے باہر نماز پڑھنے پر پابندی ہے۔ دوسری ریاستوں میں بھی اس کا مطالبہ ہوتا رہتا ہے۔ دن کے اجالے میں بابری مسجد کو شہید کر دیا گیا۔ جے شری رام کا نعرہ لگانے پر مجبور کرنے، نہ لگانے پر مارپیٹ اور مذہب کی بنیاد پر موب لنچنگ میں تقریباً ڈیڑھ سو لوگ مارے جا چکے ہیں جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ اس کے بر خلاف افغانستان کی معیشت ہندو اور سکھوں کے ہاتھ میں ہے۔ اور بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ نے بھارت کے بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر ظلم کے دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے اس کا ثبوت مانگا ہے۔ انہوں نے بھارت کے اپنے دورے کو بھی ملتوی کر دیا ہے۔
اگر حکومت ہند کے پڑوسی ملکوں کی اقلیتوں کے بہی خواہ ہونے کے دعویٰ کو صحیح مان لیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پڑوسی ممالک میں نیپال، شری لنکا، میانمار، بھوٹان، تبت بھی ہے۔ وہاں بھی اقلیتوں کو مذہب کی بنیاد پر جبر کا شکار بنایا جاتا ہے۔ تو انہیں اس سہولت سے کیوں محروم رکھا گیا۔ ہندو تو شری لنکا، میانمار میں بھی اقلیت میں ہیں۔ وہاں انہیں ظلم کا شکار بھی بنایا گیا ہے۔ شری لنکا کے کتنے ہندو مہاجرین تمل ناڈو میں پناہ گزین ہیں۔ اگر بھارت شری لنکا اور میانمار کی اقلیتوں کی بات کرے گا تو اسے مسلمانوں کی بھی بات کرنی پڑے گی کیونکہ وہاں مسلمان بھی اقلیت میں ہیں۔ بی جے پی مسلمانوں کی بات کر کے ہندو ووٹ بینک کو ناراض کرنے کا جوکھم نہیں اٹھانا چاہتی۔ اسی لئے راجیہ سبھا میں امت شاہ منوج جھا کے سوال کے جواب میں صاف کہہ چکے ہیں کہ میانمار سے بھارت آنے والے روہنگیا مسلمانوں کو قطعاً برداشت نہیں کیا جائے گا۔ دراصل شہریت ترمیمی قانون بنا کر بی جے پی نے آر ایس ایس کی پرانی مانگ کو پورا کیا ہے۔ اس سے قبل جموں وکشمیر سے دفعہ 370 کا ہٹایا جانا اور تین طلاق کے خلاف قانون بنانا بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ شہریت ترمیمی قانون کے ذریعہ بی جے پی ملک کو مذہبی آمریت کی طرف لے جانا چاہتی ہے۔ یہ قانون ملک کے ہر شہری کو متاثر کرے گا۔ کیوں کہ غیر قانونی مہاجرین کی پہچان کاغذات کی بنیاد پر ہی ہوگی۔
کاغذات کے کھیل کا تجربہ آسام میں ہو چکا ہے۔ غریب، دلت، قبائلی و گھومنتو طبقات، بے زمین اور سیلاب سے متاثر لوگوں کے پاس کاغذات نہیں ملیں گے۔ سیلاب متاثرہ علاقوں میں بینک تک اپنے کاغذات محفوظ نہیں رکھ پاتے پھر عام آدمی کی بساط کیا؟ پھر کاغذات میں غلطیاں بھی کاغذات ہونے کے باوجود شہریت کو مشتبہ بنائیں گی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک شدید انتشار سے گزنے والا ہے۔ بی جے پی کیلئے ووٹ بینک ہی سب کچھ ہے، اس کو نہ ملک کے آئین اور قانون سے کچھ لینا دینا ہے اور نہ عوام سے۔ وہ سوچ سمجھ کر یہ قانون لائی ہے تاکہ لوگوں کا ذہن، مہنگائی، بے روزگاری، بھکمری، معاشی ناہمواری، تعلیم اور کسانوں کے مسائل کی طرف سے ہٹ جائے، اور لوگ اپنی شہریت کی فکر میں لگ جائیں۔ جبکہ یہ قانون آئین کی دفعہ 14 اور 21 سے سیدھے طور پر ٹکراتا ہے۔ آئین ذات، مذہب، زبان، رنگ، صنف، علاقہ کی بنیاد پر تفریق نہیں کرتا۔ بھارت ایک تاریخی اور روادار ملک ہے۔ جس کی روح سیکولر اور یقین واسو دیوا کٹمب کمبھ (یعنی پوری دنیا ایک کنبہ) میں ہے۔ وسعت نظری اور رواداری ہی دنیا میں اس کی پہچان ہے جس پر موجودہ حکومت بھگوا رنگ چڑھانا چاہتی ہے۔ اس لئے ملک کے تمام لوگ اس کے خلاف کھڑے ہو گئے ہیں۔ اس سے امید بندھی ہے کہ ملک کی جمہوریت اور اس کی روح کو عوام مجروح نہیں ہونے دیں گے۔

Comments are closed.