تیرا میرا رشتہ کیا، لا الہ الا اللہ

 

احمد خان نیازی

 

جامعہ ملیہ اسلامیہ ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، ندوۃ العلماء لکھنؤ ، دارالعلوم دیوبند، جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے علاوہ دیگر تعلیمی اداروں کے طلباء عزیز(سی اے اے )قانون کیخلاف مظاہرہ کررہے ہیں ،علاوہ ازیں دیگر انصاف پسند طبقے کی طرف سے بھی اس قانون کیخلاف مظاہرہ کئے جارہے ہیں ، جن میں ناچنے گانے والے افراد ، فلمی ہستیاں ، دانشوران اور سماجی شخصیات ہیں ، معروف سیریل ’ساودھان انڈیا‘ کے میزبان سوشانت سنکھ کو اس وجہ سے شو سے باہر کا راستہ دکھا دیا گیا کہ انہوں نے سی اے اے کیخلاف احتجاج کو درست کہا تھا ، احتجاج کرنے والے طلبا ء کی حمایت کی تھی۔مشہور سابق کرکٹ کھلاڑی عرفان پٹھان اپنے ٹوئٹ کے ذریعہ اس کی شدید مخالفت کی ہے اور علی الاعلان اپنے موقف کی وضاحت کردی ہے۔

الغرض وہ تمام افراد جنہیں ہم معتوب اور ’مردود‘سمجھتے تھے، معاشرہ کے لیے ’بوجھ‘، انسانیت کے لئے ناسور اورازروئے شرع ’’منافق اور فاسق‘‘ گردانتے تھے ، وہی طبقہ اس ایکٹ کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر فرعونِ وقت کے خلاف ڈٹا ہوا ہے،کیوں کہ ان کی فہم کے مطابق یہ مسلمانوں کے جمہوری حق اور دستوری آزادی کے خلاف ہے ، جسے مستقبل کے لیے ’زہرہلاہل‘ تصور کیا جانا چاہیے ، بناء بریں اس کے خلاف ہر ایک طرف سے صدائے احتجاج بلند ہورہی ہے ، ان پر لاٹھیاں برس رہی ہیں ، آنسو گیس چھوڑے جارہے ہیں ، اور کرائے کے غنڈوں کے ذریعہ ظلم بھی ڈھایا جارہا ہے؛لیکن وہ اپنے موقف پر جمے ہوئے ہیں ، ممکن ہے کہ ان کی عقل خبط ہوگئی ہے ، جو اس کیخلاف محاذ پرکھڑے ہیں،یا پھر وہ اپنے اس عمل کے ذریعہ ’خودکشی ‘ کا ارادہ کر چکے ہیں ۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ظالمانہ طریقہ سے پولیس اعلیٰ کمان اور اعلیٰ حکام کے اشارے پر جبر و زیادتی کی جو خونیں داستان لکھی گئی ہے ، وہ دونوں دانش گاہ (جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) کی تاریخ میں ہمیشہ ’خونِ جگر ‘ سے لکھے ہوئے پڑھے جائیں گے ۔طلباء کا احتجاج جب شروع ہوا تھا ، تواس وقت غیور بہنوں نے ایک نعرہ دے کر قائدین کو بیدار کرنے کی کوشش کی تھی، وہ نعرہ تھا ’ تیرا میرا رشتہ کیا ، لاالٰہ الا اللہ ‘۔ اس نعرہ کی ویڈیوبھی وائرل ہوچکی ہے ، جن میں غیور طالبات ’تیرا میرا رشتہ کیا ، لاالٰہ الا اللہ ‘کا نعرہ لگاکر سوئے ہوئے قائدین کو بیدار کرنے کی کوشش کر رہی تھیں ، یہ کوئی سیاسی نعرہ نہیں تھا ؛بلکہ قوم کی سربلندی کے لئے ’’اذانِ سحر ‘‘ تھی ، جس پر توجہ دینے کے بجائے ملت کے دور اندیش مفکرین اور قائدین نے جھٹلادیا اور صاف کہا کہ :’ ہم کسی طرح کے احتجاج کے قائل نہیں ہیں ‘ ۔جب کہ یہ واضح ہے کہ احتجاج و مزاحمت ایک دستوری و جمہوری حق ہے ، تو پھر اس سے گریزکیوں ؟ ۔ جمہوری حق سے اگر دستبردار ہوتے ہیں تو پھر ایک جمہوری ملک میں جمہوریت کا راگ الاپنا ’نفاق‘ کی علامت ہے ، جس سے تائب ہوکر تسلیم نہ کرنے کا عندیہ دے دینا چاہیے ، لیکن … افسوس ،ایسا نہیں کیا جاسکتا۔

سب سے پہلے اس کی مخالفت دارالعلوم دیوبند کے طلباء نے کی تھی، پھر دیکھتے دیکھتے دیگر اداروں کے طلباء و طالبات نے بھی اس ایکٹ کیخلاف آواز بلند کرنا شروع کردیا، جس سے حکومت پریشان ہوگئی ، اور پھر جو کچھ پولیس کی نگرانی میں آر ایس ایس کے غنڈوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بربریت کو انجام دیا، وہ کسی سے مخفی نہیں ہے ۔ پولیس نما غنڈوں سے مار کھاتی طلبہ و طالبات ، لہولہان درس گاہیں ، زخم زخم مسجد آواز دے رہے تھے ، لیکن ان کی چیخ و پکار صدا ئے صحراثابت ہوئی ۔جب ہمارے قائدین آگے بڑھ کر تسلی اور ڈھارس نہ دے سکے (سوائے مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی کے) تو پھر ان کی آواز پر غیروں نے لبیک کہا، ان کے زخموں پر مرہم رکھااور ان کی آواز سات سمندر پار سنی گئی ،سات سمندر پار سنائی دینے والی آواز محض ’’شو بازی‘‘ نہیں ہے،غرض یہ ہے کہ دنیا با خبر ہوگئی ہے ۔ دنیا یہ بھی جانتی ہے ؛بلکہ آر ایس ایس کا تھینک ٹینک بھی اس کو تسلیم کرتا ہے کہ جب کوئی آواز دیوبند کی سرزمین سے اٹھتی ہے ، تو اس کی بازگشت صدیوں تک سنائی دیتی ہے ،ٹھیک اسی خدشہ کے باعث دارالعلوم انتظامیہ پر سرکاری دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ طلباء کی تعطیل کردی جائے ،جب طلباء کسی احتجاج کا حصہ نہ ہوں گے ، تو طلباء کی عدم شرکت سے کوئی بھی احتجاج مؤثر ثابت نہیں ہوگا۔

میں کسی ملی قائد کو طعنہ نہیں دے سکتا اور نہ ہی میں ’’خودکشی‘‘ کے لیے آمادہ کرسکتا ہوں؛ لیکن اب وقت ٹال مٹول ، مصلحت پسندی اور ذہول و نسیان کا ختم ہوچکا ہے ،بلکہ میدان میں آکر مقابلہ کرنے کا ہے۔ جان لیجئے ! جامعہ ملیہ اسلامیہ کے فرزندں نے خون سے لکھ کر ایک عظیم تحریک کا راستہ صاف کردیا ہے ، راہیں استوار ہیں ،اب تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں ؛فرار کی تمام راہیں مسدود ہوچکی ہیں؛ اس لیے اب انصاف پسند طبقے کے ساتھ متحد ہوکر تمام مذہبی تفریقوں سے بالاتر ہوکر صرف اور صرف ہندوستانی بن کر اس تحریک کو کامیابی سے ہم کنار کرنا قومی فریضہ ہے ۔ یہی نعرہ ملت کی غیور بیٹیوں کا تھا ، جو کل گزشتہ ’’تیرا میرا رشتہ کیا، لاالٰہ الااللہ ‘‘کی دلنواز صدا لگا رہی تھیں ۔جن کا جو حق تھا ، وہ ادا کردیا،اب آپ کا حق ہے ،آئیے اپنے فرائض کو روبہ تکمیل کریں۔

Comments are closed.